بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی بیوی اور بچے اغوا

بلوچ مزاحمت کار ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ جو کئی سالوں سے ریاستی جبر کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں کی بیوی اور  بچیوں کو ریاستی  خفیہ ادارے نے اغوا کر لیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے ریاستی ادارے شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں اور بلوچ مزاحمت کاروں کا مقابلہ کرنے کی بجائے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔

ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن کے آرگنائزر میر جاوید مینگل نے اپنے جاری کردہ بیان میں بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی فیملی سمیت دیگر خواتین و بچوں کی کوئٹہ سے آئی ایس آئی کے ہاتھوں اغوا اور نامعلوم مقام منتقلی کو پاکستانی فوج کی بوکھلائٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین و بچوں کو اغوا کرکے ریاست بلوچ قوم کو اس بندش سے آزاد کررہی ہے کہ وہ بھی دشمن سے وہ سلوک کریں جو وہ بلوچ قوم کے  ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں کہ فوج نے خواتین کو اغوا کئے ہیں اس سے قبل کراچی میں براہمداغ بگٹی کے بہن اور بھتیجی کو شہید کردیا گیا اس کے علاوہ ڈیرہ بگٹی، کوہلو اور بولان سے مختلف کاروائیوں کے دوران خواتین و بچوں کو فوج و خفیہ ادروں نے اغوا کرکے لاپتہ کئے ہیں انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بزدلانہ کاروائیوں میں فوج کے ساتھ بلوچستان حکومت میں شامل نام نہاد بلوچ کٹھ پتلی برابر کے شریک ہیں۔

بلوچستان حکومت میں بیٹھے ہوئے بلوچ اور غیرت کے نام نہاد دعویدار بلوچ خواتین کی پنجابی فوج کے ہاتھوں اغوا اور تذلیل پر کیوں چپ سادہ لی ہےجب کسی پنجابی کو تکلیف ہوتی ہے تو یہ نام نہاد لوگ آسمان کو سر پر اُٹھا لیتے ہیں لیکن بلوچ قوم کی عزت کو ان کے آنکھوں کے سامنے تار تار کیا جاتا ہے بلوچ ننگ و ناموس پر پاکستانی غیر مہذب فوج حملہ کرتی ہیں لیکن یہ بلوچیت کے نام نہاد دعویدار اندھے، بہرے اور گونگے بن جاتے۔

میر جاوید مینگل نے کراچی واقعہ کی شدید الفاظ سے مذمت کرتے ہوئے کہا ہیکہ ریاستی ادارے بلوچ تحریک کی کامیابی اور عالمی سطع پر کامیاب مہم سے خوفزدہ ہوکر اب معصوم اور بے گناہ بچوں کو اغوا کرکے لاپتہ کررہی ہے ، گزشتہ شب انٹیلیجنس اداروں نے کراچی گلستان جوہر میں کاروائی کرکے بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان سمیت 8 معصوم بچوں کو اغوا کرکے غائب کر دیا جبکہ خواتین و بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنائے اور ایک بلوچ خاتون کو فلیٹ سے نیچے پھینک دئیے جو قابل مذمت اقدام ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور گھروں کو جلانے و آئے روز فورسز کے لوٹ مار سے تنگ آکر اکثر لوگ کراچی اور اندرون سندھ نقل مکانی کرکے وہاں رہائش پذیر ہوچکے ہیں لیکن خفیہ ادارے وہاں بھی لوگوں کو جینے نہیں دے رہے۔ انھوں نے کہا کہ ریاست بلوچ قوم کو ہر جگہ انتقامی کاروائیوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔گزشتہ دنوں اسلام آباد میں بلوچ طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے متعدد طلباء شدید زخمی ہوگئے اسلام آباد میں محمد علی جناح کے نام سے منسوب یونیورسٹی میں بلوچ طلباء پر تشدد اُن پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کی ریاستی پالیسیوں کا تسلسل ہے، بلوچستان میں تعلیمی اداروں کو فوجی چھاؤنیوں اور ایف سی کیمپوں میں تبدیل کرنے کے بعد اب کراچی ، اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں بلوچ نوجوانوں پر تعلیم کے دروازے بند کئے جارہے ہیں۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی فیملی کا اغوا، کراچی میں معصوم بچوں کا اغوا اور اسلام آباد میں طلباء پر تشدد 70 سالہ ظلم و زیادتیوں کا تسلسل ہے، پاکستانی ایسٹبلشمنٹ بلوچ قوم کو صفہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں وہ یہ بخوبی سمجھتے ہیں جب تک ایک بھی بلوچ زندہ رہے گا وہ پاکستان کے قبضہ گیری، لوٹ مار اور ظلم زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرے گا بلکہ اُنکے بلوچ دشمن منصوبوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا رہے گا اس لئے پاکستانی فوج بلا رنگ و نسل بلوچوں کی نسل کشی کررہی ہیں لیکن پاکستان اور اُس کے کاسہ لیس یہ جان لیں کہ بلوچوں کو ظلم و جبر سے ختم کرنا ممکن نہیں ۔

اُنہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں ، اقوام متحدہ سمیت دیگر انسان دوست قوتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈاکٹر اللہ نزر بلوچ کی فیملی اور کراچی سے خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ کئے گئے معصوم بچوں کی بحفاظت بازیابی کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اُٹھائیں ۔ میر جاوید مینگل نے بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہیکہ وہ پنجابی فوج کی جارحیت، بلوچ خواتین و بچوں کو اغوا کرنے کے خلاف بھرپور ردعمل کا اظہار کریں۔

اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق میں بلوچ قومی نمائندہ مہران مری نے کوئٹہ سے بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذربلوچ کی بیوی، معصوم بچوں اور دیگر بلوچ خواتین کی قابض پاکستانی فوج کی  ہاتھوں اغوا پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ہمارا دشمن اخلاقیات سے عاری ہے۔ہماری ماوں، بہنوں اور بچوں کو اغوا کرکے ریاستی فوج نے نہ صرف تمام اخلاقی حدیں پار کیں بلکہ عالمی قوانین کو بھی روند ڈالا ۔

دنیا کےمختلف حصوں میں محکوم قوموں اور قابضین کے درمیان بے شمار جنگیں لڑیں گئیں اور اب بھی لڑی جارہی ہیں لیکن تاریخ میں ایسی مثال کہیں بھی نہیں ملتی کہ قابض فوجوں نے اپنی شکست کو دیکھتے ہوئے مخالفین کے معصوم بچوں اور عورتوں کا اغوا و قتل عام کی ہو بلکہ اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے باعزت طریقوں سے اپنی قبضہ گیریت کو ختم کرکے ان علاقوں سے نکل کر اپنے اپنے ملکوں اور سرحدوں کے اندر چلے گئے۔ لیکن قابض پنجابی کی مختصر تاریخ ایسی اخلاق سے عاری واقعات سے بھری پڑی ہے۔ پاکستانی فوج نے بنگالیوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ ان کی عورتوں کو اغوا اور ان کی عصمت دری کی یہی کچھ آپریشنوں کے بہانے پشتونوں، مہاجروں اور سندھیوں کے ساتھ کیا جارہا۔

مہران مری نے کہا کہ گوکہ یہ ایک انتہائی دلخراش واقع ہے لیکن ماضی ہمیں بتاتا ہے کہ جب بھی پنجابی فوج نے شکست کو اپنے سامنے قریب آتے دیکھا تو اس نے ایسی ہی کاروائیاں کیں۔