خدا کے فضل سے ہےآسرادیوالی کا

طارق احمد مرزا

اس برس ہندؤوں کا روایتی مذہبی ثقافتی تہوار دیوالی اکتوبرمیں منایا جا رہاہے۔سنا ہے کہ تقسیم سے قبل یہ ہندوستانیوں کا تہوارہوتا تھا۔جی ہاں ہندؤوں کا نہیں ،ہندوستانیوں کا ،جن میں ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ  اور مسلمان وغیرہ سبھی شامل ہوتےتھے۔تقسیم نے سب کچھ تقسیم کرکےرکھ دیا۔اب ضربیں ہی لگانے کو رہ گئی ہیں۔

پاکستان اور بھارت سے باہر یوروپ امریکہ کینیڈا آسٹریلیا وغیرہ میں اب گورے بھی دیوالی کا تہوار ہر سال فیسٹیول آف لائٹس کےنام سے مناتے ہیں اور وہاں ہندو اورغیر ہندو،مسلم اور غیر مسلم،سکھ اور غیر سکھ،مسیحی اور غیرمسیحی، بدھ اورغیربدھ ،مذہبی اورغیرمذہبی ،غرض ہر قسم کےلوگ ہر قسم کی تقسیم اور ضربیں بھلا کر جمع ہوجاتے ہیں۔

دیوالی کی روشنیاں انسانیت کی روشنیاں بن کر ان تمام جمع شدہ لوگوں کے ماتھوں ،آنکھوں، باتوں، مسکراہٹوں، قہقہوں، سانسوں اور دھڑکنوں کو جگمگادیتی ہیں۔پتہ نہیں اپنے ملک میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ہندو تہوار تو الگ ہم توعید بھی مل کر ایک ہی دن نہیں منا سکتے۔ایک ہی دن عید اگرہو بھی جائے ،تب بھی جمع ہوکر نہیں بلکہ تقسیم ہوکر اورضربوں سے بچ بچاکر مناتے ہیں۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔ ۔

مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی

اب یہ حالت ہےکہ ڈرڈر کےگلےملتے ہیں

مل جل کر عید ،دیوالی ،نوروز،بیساکھی اور بسنت منانے والوں نے مل جل کر اردو کے نام سے جو بولی بنائی تھی اس میں بھی ان تہواروں کے رنگ محسوس کئے جاسکتے ہیں۔اس میں بسی روشنیاں،مسکراہٹیں چکھی اور ذائقے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ منظربھوپالی کے بقول

یہ نانک کی،یہ خسرو کی،دیا شنکر کی بولی ہے

یہ دیوالی،یہ بیساکھی،یہ عیدالفطر،ہولی ہے

ہندو شعراعیدمیلاد النبی پہ نعتیں اور یوم علی پہ منقبت لکھا کرتے تو مسلمان دسہرہ،ہولی اور دیوالی پہ نظمیں جو مقبول عام ہی نہیں زبان زدخاص وعام بھی ہو جاتیں۔نظیر اکبر آبادی کے کلام میں جا بجا یہ روشنیاں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ان کےنزدیک دیوالی منانا شرفا ء کی تہذیب تھی،نہ کسی بھڑوے یا شہدے کا کام ۔دیوالی خدا کا فضل تھا نہ کہ حرام خور کی کمائی۔

دوالی آئی ہے سب دے دلائیں گے اے یار

خدا کے فضل سے ہے آسرا دوالی کا

نکل تو یاں سے تراکام یاں نہیں بھڑوے

خدا نے تجھ کو تو شہدا کیا دوالی کا

یہی تہذیب قلعہ معلیٰ کی تہذیب تھی،مغل بادشاہوں کی تہذیب۔جو دیوالی کے پہلے،دوسرے اور تیسرے دیئےکی تقاریب الگ الگ بڑے اہتمام سے منایا کرتے۔منشی فیض الدین دہلوی نے شاہی محل میں منعقد ہونےوالی تیسرے دئیے کی تقریب کا حال کچھ یوں لکھا ہے :۔

تیسرے دیئے کو دیکھو۔آج بادشاہ سونےچاندی میں تُلیں گے۔ایک بڑی سی تراز وکھڑی ہوئی۔ایک طرف پلڑے میں بادشاہ بیٹھے،دوسری طرف چاندی سونا وغیرہ بادشاہ کے برابر تول کے محتاجوں کو بانٹ دیا۔ایک بھینسا،کالا کمبل،کڑوا تیل،ست نجا،سونا،چاندی نقد وغیرہ بادشاہ پر سے تصدق ہوا۔قلعے کی برجوں کی روشنی کاحکم ہوا،کھیلیں بتاشے۔کھانڈ اورمٹی کےکھلونے،ھٹڑیاں اور ہاتھی مٹی کے اور گنوں کی پھاندیاں،نیبو ،کہارنیاں سر پہ رکھے جسولنیاں ان کے ساتھ ساتھ گھر بہ گھر بانٹتی پھرتی ہیں۔رات کو بیٹوں کے ہاتھی،بیٹیوں کی ھٹڑیاں کھیلوں بتاشوں سے بھری گئیں۔ان کے آگے روشنی ہوئی۔نوبت،روشن چوکی اور باجا بجنے لگا۔رتھ بان بیلوں کو بنا سنوار،پاؤں میں مہندی لگا،رنگ برنگ کی اس پر نقاشی کر،سینگوں پہ قلعی اورسنگوٹیاں،ہاتھوں پر کارچوبی پٹے اور سنکھ،گلوں میں گھنگرو،اوپر کارچوبی بناتی جھولیں پڑی ہوئیں،چھم چھم کرتے چلے آتے ہیں،بیلوں کودکھا،انعام اکرام لے ،اپنے کارخانوں میں آئے،دوالی ہو چکی۔“(بزمِ آخر)۔

پاکستان کےسابق وزیراعظم نواز شریف نے 2015 میں کراچی میں دیوالی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ ان کی خواہش ہے کہ وہ ہولی میں بھی مدعو ہوں اور ان پرپاکستان کے ہندو رنگ پھینکیں ۔شاید وہ یہ بھول گئے تھے کہ پاکستان کے ہندو تو کیا عیسائی،پارسی،احمدی،اسمٰعیلی،شیعہ،سنی سبھی کے ہی خون کی ہولی مل جل کر ان کے ملک میں برسوں سے کھیلی جارہی ہے،اگر خون کے سرخ چھینٹے ان کے سفید لباس اور بادامی اچکن تک پہنچنے سے پہلے ہی دھودئے جاتےہیں تو اس میں قصور کس کا؟۔

پاکستان کاموجودہ ایوان اقتدارمتفقہ طور پر انتخابی اصلاحات کے نام پرصرف کرپٹ حکمرانوں کے دوام اور استحکام کی ترامیم اور تجاویز کی منظوری دیکر خوش ہے کہ اس نےایک فوجی آمر کا دیا ہوا تحفہ اسے واپس لوٹا دیا ہے لیکن ایک فوجی آمر کے دئیے ہوئے بقیہ تحفے اس کی تاریک لحد میں اتار کرملک میں امن وسکون کی جگمگ جگمگ،چھم چھم کرتی دیوالی کب منائی جائے گی؟کوئی پتانہیں ۔

مجھ کو خواہش ہے اسی شان کی دیوالی کی

Comments are closed.