انسانی حقوق کی تشویشناک صورتحال

نبی داد بلوچ

آج کی اس دنیا کو انسانی حقوق کے علمبردار مختلف کیٹگریز میں تقسیم کرتے ہیں ان میں بہت کم ممالک ایسے ہیں جہاں انسان امن کی ہوا میں سانس لے رہے ہیں،اور انہوں نے اُن ممالک کی بھی نشاندہی بھی کر رکھی ہے جن کا ریکارڈ انسانی حقوق کے حوالے سے تسلی بخش نہیں ہے ،مگر ان میں سے بیشتر ممالک میں وہاں میڈیا اور وہاں کے انسان دوست حضرات انسانی اقدار کی بحالی کے خاطر اپنے پُرامن ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے وہاں کے اقتدارِ اعلیٰ کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرواتے ہیں ،اپنے لوگوں کی آواز کوپوری دنیا میں وسعت دیتے ہیں ،چاروں طرف سے آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہے،حکومتِ وقت خود کو سدھار لیتی ہے۔

وہ تصویر کے دوسرے رُخ کے متعلق زیادہ پریشان ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔انکے مطابق آج بھی چند ایسے ممالک وجود رکھتے ہیں ،جو انسانیت کی دشمنی میں بہت نام کما چکے ہیں ،اُن ممالک میں شہریوں سے انکی بنیادی حقوق چھین لیے جاتے ہیں ،اگر کہیں کوئی واقعہ رونما ہو ،وہاں سرکار کی انسان دشمن پالیسوں کی وجہ سے کوئی بھی اجتما ع دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔اگر کہیں پر بھی کوئی آواز سننے میں آتی ہے تو دوسرے دن آواز اُٹھانے والے کی باز گشت دو جگہوں میں مل جاتی ہے،ایک نامعلوم گولی کا شکار بن جاتا ہے ،اوردوسرا نامعلوم افراد کے ہاتھوں لاپتہ ہو جاتا ہے ۔یہیں سے قصہ تمام کیا جاتا ہے۔

اگر ان ممالک کاشمار کیا جائے تو مسلمان ممالک کی واحد ایٹمی طاقت ملک پاکستان کا نام سرفہرست ہوگا۔ جب سے یہ ملک وجود میں آیا ہے آج تک یہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ دوسروں کی آوازکی بنا پر ہمیشہ کیلئے خاموش کرا دیئے گئے ہیں ۔2011سے لے کر آج تک ایک درجن سے زائدانسانی حقوق کے کارکناں مارے جا چکے ہیں جن میں آٹھ ایسے ہیں کہ جن لوگوں نے پاکستان کی دو ٹکے کے میڈیا کی کوریج حاصل کر لی تھی۔

ان میں انسانی حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والی سبین محمود اپنے پہلے ہی پروگرام کے چند گھنٹوں بعدپاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نامعلوم افراد کی گولی کا نشانہ بن کر ہمیشہ کے لیے خاموش کرادی گئی ہے،خرم ذکی جو ایک انسانی حقوق کے کارکن تھے ،مار دیئے گئے ۔ ان کے ساتھ ساتھ علاوہ محمد زمان ،انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل راشد رحمان ،او پی پی کے ڈاریکٹر اور سماجی کارکن پروین رحمان ،وکیل اور انسانی حقوق کے نمائندہ ملک جرار ،بلوچستان سے انسانی حقوق کے کارکن اور صحافی صدیق عیدو،ایچ آر سی پی خضدار کے ڈاریکٹر نیم صابر،ان دونوں کا جرم یہ تھا کہ یہ بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ کئے ہوئے لوگوں کی بازیابی کی بات کرتے تھے ۔انکے علاوہ زرطیف آفریدی اورپروفیسر توصیف احمد خان شامل ہیں ۔

بلوچستان جو گزشتہ ایک دہائی سے ایک مقتل گاہ بن چکاہے ،ہزاروں کی تعداد میں سیاسی ورکر،ڈاکٹرز،وکیل ،اسٹوڈنس جبری گمشدگی کا شکار ہیں،انکے لئے گزشتہ چند سالوں سے ایک موثر آواز وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ساتھ ساتھ بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیش رہی ہے دو دن پہلے اُسے کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری نواز عطا بلوچ دوسرے مسنگ پرسنز کی کیسوں کو اکٹھا کرتے ہوئے آج خود ایک مسنگ پرسن کاکیس بن چکا ہے۔

پاکستان میں نہ صرف انسانی حقوق کے کارکن ریاستی جبر کا شکار ہیں ،بلکہ یہاں دوسرے طبقہ فکر کے لوگ بھی محفوظ نہیں ہیں،جن میں صحافی حضرات ،سماجی کارکناں کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکن بھی شامل ہیں۔

یہاں کئی صحافی حضرات انہی نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں جن میں صرف حامد میر ہی خوش قسمت ہی رہا ،جو متعددگولیاں کھا کر بھی بچ گیا تھا مگر آج کا حامد میر کل والا حامد میر نہیں رہا،انہی گولیوں کا نشانہ ارشاد مستوئی سمیت دو دیگر صحافی بھی بن چکے ہیں۔سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکنوں کو منظر نامے سے غائب کرکے کچھ مدت بعد انکی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہو تی ہیں ،جن میں صحافی حاجی رازق،رازق گل،عبدالحق شامل ہیں ،بہت سے لاپتہ ہوکر زینت شہزادی جیسے خوش قسمت دو سال بعد ایک نیم انسان ہو کر بازیاب ہو گئے ہیں ۔

پاکستان میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے ،یہاں سے کہیں سماجی کارکن بھی جبری گمشدگی کا شکار ہوکر مسخ شدہ لاش بن کر واپس آچکے ہیں ،سینکڑوں میں سے چند ایک واحد بلوچ جیسے خوش نصیب انسان اذیت سہنے کے بعد بازیاب ہوئے ہیں ،کوئی تو اب تک نامعلوم افراد کے ہاں اذیت سہہ رہے ہیں۔

ان حالات مقابلہ کرنے کا ایک ہی راستہ ہے، وہ ہے معاشرے کے تمام طبقات کو مشترکہ طور پر یکجا ہو کر ہر واقعہ کے خلاف ایک منظم انداز میں جدوجہد کر یں اور ریاست اور اسکے پروردہ خفیہ اداروں کو اس عمل کی مذمت کریں اور وہ ان حرکات سے باز آجائیں ۔ کل سبین اور دوسرے انسانی حقوق کے کارکنان ان کا نشانہ بنے ،آج نواز عطا بلوچ بناہے، کل کوئی اور ہوگا ،ایسے ہی چلتا رہے گا ۔اس جنگل کا بے تاج بادشاہ ایک ایک کرکے سار ی آوازوں کو کھا جائے گااور ہم دیکھتے ہی رہیں گے۔

Comments are closed.