اپنے سؤر کو بے نقاب کر دو

خالد تھتھال

گو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی خواہش رکھنے والی خواتین کو عملی زندگی کے ہر شعبے میں اپنے افسران بالا کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا رویہ ایک عام سی بات ہے لیکن فنون لطیفہ میں موسیقی اور فلم دو ایسے شعبے ہیں جسے زندہ گوشت کی منڈی کہا جا سکتا ہے۔

کسی فلم میں کردار حاصل کرنے یا کسی میوزک کمپنی میں کانٹریکٹ حاصل کرنے کی خاطر شائد ہی کوئی خاتون بچی ہو جسے ان خاردار راہوں سے نہ گزرنا پڑا ہو، جس کے نتیجے میں کئی خواتین حوصلہ ہار کر اپنے خوابوں کو طاق میں رکھ دینے پر مجبور ہو جاتی ہیں یا وہ اس ناخوشگوار تجربے سے گزرنے کے عمر بھر پچھتاوے اور احساس جرم کے ساتھ زندگی گزارتی ہوں۔

مشرق ہو یا مغرب، دنیا بھر میں مرد حضرات ہی زیادہ تر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، اور انہیں علم ہوتا ہے کہ خواتین کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ عملی زندگی میں اپنا مقام حاصل کرنے یا اپنے خوابوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کی گھناونی خواہشات کا شکار ہو جائیں ۔ 

موجودہ مقام حاصل کرنے کی خاطر اوائل کیریئر میں اس ذلت سے گزرنے کے حوالے سے پچھلے چند دنوں سے بہت بڑے بڑے نام سامنے آ رہے ہیں جن میں ہالی وڈ کی انجلینا جولی، گویتھ پالٹرو، جینیفر لورینس جیسی اداکاراؤں کے علاوہ آئس لینڈ کی نوے کی دہائی کی مشہور گلوکارہ بیورک اور جمناسٹک کی اولمپیئن میکائلا مارونی کی کہانیاں بھی منظر عام پر آئی ہیں۔

ہالی وڈ کے معروف فلم پروڈیوسر ہاروی وائن سٹائن کی کہانی کے منظر عام آنے کے بعد اداکارہ الیسا میلانو نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف ایک عالمی مہم چلائی۔ جس میں خواتین اپنی اپنی کہانیوں کو ”می ٹو“ کے ہیش ٹیگ کے ذریعے سے بیان کرتے ہوئے ان مگر مچھوں کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ اس مہم کے نتیجے میں چند ہی دنوں میں لاکھوں کی تعداد میں خواتین اپنی کہانیاں بیان کر چکی ہیں۔ اور اب یہ مہم ایک عالمی تحریک کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ 

امریکہ اور دیگر ممالک کے  می ٹو ہیش ٹیگ کے مقابلےپر فرانسیسی خواتین نے

#balancetonporc

 کا ہیش ٹیگ متعارف کروایا ہے جس کا مطلب ہے۔ اپنے ”سؤر کو بے نقاب کر دو“ ۔ اس ہیش ٹیگ کو متعارف کروانے کا سہرا نیویارک میں مقیم صحافی سینڈرا مُلر کے سر ہے۔ جنہیں ان کے باس نے یہ الفاظ کہے تھے۔ ”تمہارے پستان بہت بڑے ہیں، تم میری پسندکی عورت ہو، میں تمہیں پوری رات آرگیزم دوں گا“۔

اس ہیش ٹیگ کے آتے ہی ہزاروں فرانسیسی خواتین نے اپنی کہانیاں بیان کرنا شروع کر دی ہیں۔ یہ مہم فرانس میں اس قدر شدت پکڑ گئی ہے کہ فرانسیسی وزیر برائے مساوات نے ایک بل پیش کیا ہے کہ جو مرد خواتین کو ہراساں کریں ان پر پانچ ہزار یورو کا جرمانہ عائد کیا جائے۔

فرانس میں ہی موجود سابقہ سلفی مسلمان خاتون ہند ایاری نے بھی اپنے سؤر کو بے نقاب کیا ہے اور اس سؤر کا نام طارق رمضان ہے۔ طارق رمضان مصر کی اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمین کے بانی حسن البنا کے نواسے اور ان کی بیٹی وفا البنا کے بیٹے ہونے کے علاوہ عالم اسلام کا ایک بہت بڑا نام ہیں۔ جو اسلام کے دفاع میں بہت زیادہ مباحثوں میں حصہ لے چکے ہیں جن میں ایک مباحثے میں انہوں نے کرسٹوفر ہچنز کے سامنے اسلام کا دفاع کیا تھا۔

طارق رمضان اکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامک سٹڈیز کے پروفیسر ہونے کے علاوہ قطر کی فیکلٹی آف اسلامک سٹڈیز ، مراکو کی جامعہ العالمیہ کے علاوہ کئی یونیورسٹیوں کے مہمان پروفیسر ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دوحہ میں واقع اسلامی فقہ اور اخلاقیات کے ریسرچ سنٹر کے ڈائرکٹر بھی ہیں۔ انہیں امریکی ہفت روزہ ٹائم نے 2000ء میں سات بڑے مذہبی مجتہدوں میں سے ایک گردانا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں دنیا کے 100 بااثر ترین دانشوروں کے علاوہ ایک عالمی دانشور قرار دیا گیا ہے۔

سوئٹزر لینڈ میں پیدا ہوئے طارق رمضان ایک متنازعہ شخصیت کے حامل ہیں جنہیں جہاں کچھ لوگ ایک مصلح کے طور پر دیکھتے ہیں وہیں ان کی مغربی معاشروں کے متعلق ان نظریات کو رد کیا جاتا ہے جس کے مطابق جدید اسلام یورپ کی نئی صورت گری کرے گا۔

ہند نے فیس بک پر بتایا ہے کہ وہ کئی سال پہلے ایک بہت ہی گھناونے حادثے کا شکار رہی ہیں، لیکن انہوں نے ذاتی حفاظت کی خاطر اس جنسی حملہ آور کا نام نہیں بتایا۔ انہوں نے 2016ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ”میں نے آزادی کا انتخاب کیا“ میں اس حادثے کاذکر کیا تھا جہاں انہوں نے اس جنسی حملہ آور کا نام زبیر بتایا تھا۔

ہند کے بقول وہ پیرس میں طارق رمضان کو اس کے ہوٹل میں ملیں جہاں طارق نے لیکچر دیا تھا۔ ہند کے بقول ان کے ساتھ جو ہوا وہ اس کی پوری تفصیلات سامنے نہیں لانا چاہتیں۔ بس یہی جاننا کافی ہے کہ اس نے میری کمزوری سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے اپنی کتاب میں بتایا کہ جب انہوں نے احتجاج کیا تو رمضان نے ان سے بہت درشتی سے پیش آیا ان کی بے عزتی کی اور انہیں تھپڑ مارا۔ 

ہند نےکہا، آج میں بتاتی ہوں کہ اپنی کتاب میں جس زبیر کا ذکر میں نے کیا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ طارق رمضان تھا۔ ہند کے وکیل یونس حداد کے بقول ان کی موکلہ اتنا عرصہ ڈر کی وجہ سے خاموش رہیں۔ لیکن پچھلے کچھ دنوں سے جب خواتین اپنے ناخوشگوار تجربات بتا رہی ہیں تو اس سے ہند کو بھی حوصلہ ملا اور انہیں اس کیلئے قانون کا سہارا لیا ہے۔

ہند نے صرف الزام ہی نہیں لگایا اس نے جنسی طور پر ہراساں کرنے، زنابالجر اور زبان کھولنے کی سنگین نتائج کی دھمکی ہے تحت مقدمہ درج کروایا ہے۔فرانسیسی اخبار لے پاریسیان کے مطابق طارق رمضان نے ان الزامات کو رد کر دیا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں پولیس کو اپنی رپورٹ درج کروائی ہے۔

Comments are closed.