اسرائیل:دشمن ملک سے اتحادی ملک تک کا سفر

جب سے ایران پر عالمی پابندیاں نرم ہوئی ہیں تب سے ایرن اور سعودی عرب میں چپقلش بہت زیادہ نمایا ں ہوگئی ہے۔ ایران مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتا ہے جس کی سعودی عرب شدت سے مخالفت کررہا ہے۔ ایران  مشرق وسطی میں شیعہ دہشت گرد گروہوں حزب اللہ اور  حماس کی مالی امداد کر رہا ہے جو اسرائیل کے خلاف اپنی کاروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

اسی تناظر میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے اور دونوں اپنے مشترکہ دشمن ایران کے خلاف فوجی اتحاد بنانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

اسرائیل جسے کبھی اسلامی دنیا کا بدترین دشمن قراردیاجاتا تھا اب وہی اسلامی ممالک اسے اپنا اتحادی بنارہے ہیں۔اسرائیلی فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ اُن کا ملک ’مشرق وسطیٰ کو کنٹرول‘ کرنے کے ایرانی منصوبے کا سد باب کرنے کے لیے سعودی عرب سے تعاون کے لیے تیار ہے۔

ایلاف نامی خبروں کی سعودی ویب سائٹ کے مطابق اسرائیل کے چیف آف آرمی اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل گادی آئسن کوٹ نے ایک انٹرویو میں کہا، ’’ہم ایران کے مقابلے کے لیے اعتدال پسند عرب ممالک کے ساتھ اپنے تجربات اور خفیہ معلومات کے تبادلے کے لیے تیار ہیں‘‘۔

اس سوال پر کہ کیا حال ہی میں سعودی عرب کے ساتھ کسی قسم کی خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا گیا ہے، آئسن کوٹ کا کہنا تھا،’’ اگر ضروری ہوا تو ہم معلومات کے تبادلے کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے بہت سے مفادات مشترک ہیں‘‘۔

اسرائیلی فوج نے اس انٹرویو کے مواد کی تصدیق کی ہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین کوئی سرکاری سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ سنی اکثریتی عرب ملک سعودی عرب اور اور شیعہ اکثریتی غیر عرب ملک ایران میں تعلقات عرصے سے کشیدہ ہیں اور یہ کشیدگی حالیہ کچھ ہفتوں میں بڑھ گئی ہے۔

رواں ماہ کے آغاز میں لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ملک کے معاملات میں ایران کے عمل دخل کا الزام عائد کیا تھا۔ چار نومبر کو اپنے ایک نشریاتی خطاب میں انہوں نے ایران اور اس کی اتحادی سمجھی جانے والی لبنانی شیعہ انتہا پسند تنظیم حزب اللہ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

حزب اللہ نے بھی سعودی عرب پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ لبنان میں اس شیعہ ملیشیا پر حملوں کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی ریاض حکومت پر اسی نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں۔

حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین سن 2006 میں ایک خونریز جنگ ہو چکی ہے۔ آئسن کوٹ نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا،’’ ہم لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ کوئی نیا تنازعہ شروع نہیں کرنا چاہتے لیکن ہم وہاں اسرائیل کے لیے کسی قسم کے عسکری خطرات بھی مول نہیں لے سکتے‘‘۔

DW/News Desk

One Comment