تربت کے قریب 15 افراد کا قتل: دہشت گردی یا انسانی اسمگلنگ؟

بلوچستان کے شورش زدہ ضلع تربت میں عسکریت پسندوں نے 15 آبادکاروں کو فائرنگ کر کے قتل کردیا ہے۔ حملے کی ذمہ داری ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی ہے۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان انوارالحق کاکڑ کے بقول تربت کے نواحی علاقے بلیدہ میں عسکریت پسندوں نے آبادکاروں کو جنوب مغرب کی جانب گروک کے مقام پر نشانہ بنایا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، آج تربت میں ٹارگٹ کلنگ کا جو واقعہ پیش آیا ہے، وہ دہشت گردی کے ان واقعات کا تسلسل ہے، جو بلوچستان میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ حملہ آوروں نے تمام افراد کو گھات لگا کر نشانہ بنایا ہے اور اب تک مقتولین کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔

انوارالحق کا مزید کہنا تھا کہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والے تمام افراد کی لاشیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کردی گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے متعلقہ علاقے کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لے لیا ہے۔ وہاں سرچ آپریشن کیا جا رہا ہے تاکہ حملے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا جاسکے،’’ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں دشمن سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنا کر شورش زدہ علاقوں میں حکومت کی عمل داری ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس قسم کے واقعات سے بلوچستان میں جاری ترقیاتی عمل کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

کمشنر مکران ڈویژن نذیر احمد کے مطابق تربت میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والے تمام افراد وہ تارکین وطن تھے، جو غیر قانونی طور پر ایران جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا مزید کہنا تھا، عسکریت پسندوں نے مزدورں کو ایک پہاڑ پر لے جا کر فائرنگ کر کے قتل کیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہےکہ مقتولین کا تعلق سیالکوٹ، منڈی بہاء الدین اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سمیت پنجاب کے دیگر مختلف علاقوں سے تھا۔ تربت میں ٹارگٹ کلنگ کے اس نوعیت کے متعدد واقعات ماضی میں بھی پیش آ چکے ہیں۔

کمشنر مکران ڈویژن نے بتایا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ان مزدوروں کی ہلاکت کے بعد تربت اور دیگر ملحقہ علاقوں میں آبادکاروں کی سکیورٹی مزید سخت کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، غیر مقامی مزدور بلوچستان میں گزشتہ کئی سالوں سے عسکریت پسندوں کے نشانے پر ہیں۔ یہاں پیش آنے والے واقعات میں وہ کالعدم تنطیمیں ملوث ہیں جو بلوچستان کی علیحدگی کے لیے حکومت کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں۔ عسکریت پسندوں کے حالیہ حملے کے بعد تربت گوادر، پنجگور اور دیگر علاقوں میں آبادکاروں کی سکیورٹی مزید بڑھا دی گئی ہے۔ ہم نے لیویز کے ذریعے تمام غیر مقامی افراد کو آگاہ کیا ہے کہ وہ بلاوجہ نواحی علاقوں میں جانے سے گریز کریں تاکہ انہیں آسانی سے نشانہ نہ بنایا جا سکے‘‘۔

بلوچستان میں سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر ندیم بلوچ کے بقول تربت میں مزدوروں کی ہلاکت کا واقعہ ناقص سکیورٹی انتطامات کے باعث پیش آیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، ’’بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں غیر مقامی افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی روک تھام کے لیے ہونے والے اقدمات کسی بھی طور پر تسلی بخش قرار نہیں دیے جا سکتے۔ عسکریت پسندوں کے حملوں میں سینکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں لیکن حکومت نے شہریوں کی سکیورٹی کے لیے ابھی تک کوئی جامع  حکمت عملی مرتب نہیں کی ہے۔

ندیم بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانا حکومت کی اوّلین ذمہ داری ہے لیکن اس ضمن میں کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ انہوں نے مزید کہا، حکومت یہ دعوے کرتی ہے کہ اس وقت ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو دشمن کو شکست دینے کے لیے موثر اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے؟ جب بھی دہشت گردی کے واقعات پیش آتے ہیں حکومتی حلقے اپنی کارکردگی بیانات کی حد محدود کر دیتے ہیں، عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔‘‘۔

بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ ہو گیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے درجنوں واقعات پیش آ چکے ہیں۔ تربت میں آج پیش آنے والے ٹارگٹ کلنگ کے واقعے کی ذمہ داری عسکریت پسندی میں ملوث ایک کالعدم بلوچ تنظیم نے قبول کی ہے۔

خیال رہے کہ بلوچستان پاکستان کا انتہائی شورش زدہ صوبہ ہے جہاں بلوچ پاکستان سے آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ جس کا جواب ریاست کی طرف سے بلوچ نوجوانوں کے جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں دیا جاتا ہے۔

بلوچستان میں پچھلے دس سالوں میں کئی ہزار بلوچ جبری طور پر اغوا کیے گئے ہیں اور خوش قسمت وہ ہیں جن کی لاشیں مل جاتی ہیں۔ مگر قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں ان کی خبر تک نہیں بنتی۔

DW/News Desk

One Comment