شاہ احمد نورانی سے خادم حسین رضوی تک

یوسف صدیقی

ایک وقت تھا کہ پاکستان میں بریلوی فرقہ کو ایک اعتدال پسند فرقے کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور ان کا سیاسی کردار بہت کم تھا کیونکہ ریاست روسی کمیونزم کو روکنے کے لیے دیوبندی فرقے کی پشت پناہی کررہی تھی۔

بریلوی فرقے کے بانی ’اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی (1857-1921)‘ ہیں۔ جو برطانوی ہند کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے۔اَحمد رضا خان کی تعلیمات اَور کرامات اَپنی جگہ بجا ہیں ،مگر اُن کی سب سے بڑی ’’کرامت‘ ‘یا’’شخصی خصوصیت ‘‘یہ ہے کہ اُنھوں نے 15سال کی عمر میں ہی ’فتوے ‘ لگانا شروع کر دیے ۔احمد رضا نے تصوف اَور شریعت کی نئی گرہ بندی کی، اَور ایک مستقل ’فرقہ ‘ تشکیل دے دیا۔ جو اِس وقت ’ملتِ بریلویہ ‘ کی شکل میں پاکستانی سماج میں موجود ہے ۔

قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی دیگر مذہبی جماعتوں کی طرح بریلوی جماعت نے بھی سیاسی صف بندی کا فیصلہ کیا ۔ بریلویوں نے اپنے قائد کے ایک ’مرید ‘ کے بیٹے کے ہاتھ پر بیت کی، اور ایک سیاسی جماعت ’ جمعیت علمائے اسلام ‘ بنائی ۔ پاکستان میں بریلوی طبقے کا باضابطہ سیاسی اظہار ’جمعیت علمائے اسلام ’نورانی گروپ ‘ رَہا ہے ۔شاہ احمد نورانی (1926-2003)پاکستان کے بریلوی طبقے کا سیاسی اور مذہبی حوالوں سے ’اِمام ‘ مانے جا تے ہیں۔

مولوی عبد العلیم صدیقی( میرٹھ ۔انڈیا1892-1954) شاہ اَحمد نورانیکے والد تھے ۔عبد العلیم صدیقی اَحمد رضا خان بریلوی کے ’خادمِ خاص بھی ‘ تھے ۔اِس وجہ سے اَحمد نورانی کا پاکستان بھر کے بریلوی طبقے کی نظروں میں عقیدت و احترام تھا ۔اِس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اَحمد نورانی نے اَپنی سیاست کا آغاز ’کفر ‘ کے فتوؤں سے کیا ۔اِس مولوی نے سب سے پہلے اَپنے سیاسی مخالفین اَور پھر مذہبی مخالفین پر کفرو ارتداد کے فتوئے لگائے ۔اَحمد نورانی اَپنی خودنوشت میں جہاں اَور کئی قسم کے ’اِنکشافات ‘ کرتے ہیں ۔وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ’اَحمدیوں کو کافر ‘ قرار دلوانے اَور تہتر کے آئین میں سرمایہ دارانہ شقیں شامل کروانے میں اُس کا مرکزی کردار تھا ۔

احمد نورانی پاکستانی بیورو کریسی کا انتہائی ’پسندیدہ ‘ لیڈ ر رَہا ہے ۔پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی اِتحادوں اَور سیاسی تحریکوں میں’’ نورانی میاں ‘‘کو اُن کا حصہ ضرور ملتا تھا ۔حکومتی اقتدار میں تو ابھی تک اَ حمد نورانی کا خاندان کسی نہ کسی طرح شریک ہے۔پاکستانی رِیاست کا اَحمد نورانی یا پھر بریلوی طبقے کی طرف جھکاؤ کی کیا وجہ ہے ؟؟۔ شاید اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بریلوی مسلک میں کچھ’’ احکامات ‘‘ ایسے ہیں کہ ان کی دلکشی اَور سادگی کی وجہ سے ’بریلویت‘ اَب ’’پاکستانی اشرافیہ ‘‘کا مذہب بن چکا ہے ۔مثال کے طور پر بریلوی مسلک میں ’جہاد ‘ کو ریاستی رضا مند ی کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے ۔اسی طرح بریلویوں کی کتابیں پیروں اَور فقیروں کی اہمیت کو دوچند کرنے کے لیے کئی توہماتی اَور دیومائی واقعات سے بھری پڑیں ہیں ۔

اِس طرح ضعیف و قو یٰ واقعات پر مشتمل ایک دلچسپ ’’حکایتی اِسلام ‘‘ کے وجود میں آنے سے ہمارے سماج میں ’بے توقیر ‘ طبقہ ملنگ بن کر بریلویت کا پرُچار کر رہا ہے ۔اَحمد نورانی کے بعد بریلوی طبقے کا دوسرا بڑا نام ہے ’’سلیم قادری ‘‘!! ۔یہ شخص ’ُسُنی تحریک ‘ کا بانی تھا ۔اِس نے 90ء کی دہائی میں سپاہ صحابہ نامی تنظیم کو ختم کرنے کے لیے ’’جنگ ‘‘ شروع کی ۔اِس کی شعلہ افشاں تقریروں کی وجہ سے کراچی اَور ملک کے دیگر حصوں میں بریلوی طبقے میں کافی ’جوش و خروش‘ پیدا ہوا ۔پاکستان کا بریلوی طبقہ ملک میں ’’خلافت‘‘ نافذ کرنے کے لیے پرتولنے لگا ۔ذرائع کے مطابق سنی تحریک کو ایران کی حمایت بھی حاصل تھی ۔اَب اِس تنظیم کی سربراہی ایک بریلوی ملاں ’ثروت اعجاز قادری‘کے پاس ہے ۔یہ صاحب بھی آئے روز پاکستانی ریاست کو آنکھیں دکھاتے رِہتے ہیں ۔

اِس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر 90ء کی دہائی تک عوام کے ذِہنو ں میں یہ بات ہی سمائی ہوئی تھی کہ ’’بریلویت‘ ‘ محض طریقت اَور نیم طاقتور سیاسی قوت ہی ہے، اِس سے بڑھ کر کچھ نہیں!!۔لیکن سلیم قادری کی ’’سرکشی ‘‘کے بعد پاکستان کے حساس شہریوں نے بریلویت کو محض ’ایک مسلک ‘ سمجھنا ترک کر دیا ۔’سنی تحریک‘ پر جہاں تشدد کے الزمات لگتے رہے ہیں،وہاں اس پر بھتہ خوری کا الزام بھی لگ چکا ہے ۔سپاہ صحابہ اَور سنی تحریک کے کارکنوں نے پچھلے دس سالوں میں کراچی کا امن و امان غارت کر کے رکھ دیا ۔ان کے آپس میں جنگ و جدل کی وجہ سے پاکستانی عوام کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے ۔

بریلوی طبقہ سیاسی حوالوں سے شدت کے ساتھ 2011 میں زیرِ بحث آیا ۔ اس طبقے کے ایک ’مجاہد‘ ممتاز قادری نے خود ساختہ ’فتوے ‘ کی بنیاد پر صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو قتل کردیا ۔اس کے بعد یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ بریلوی طبقہ اپنے ’وہابی بھائیوں‘ جیسا ’پرتشدد‘ ہے ۔ممتاز قادری تقریباََ دو سال جیل میں رہا ،ممتاز قادری کے کیس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح لکھا کہ کسی بھی فرد کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ،اسی طرح اُس وقت چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں یہ بات بھی لکھی کہ محض اختلافِ رائے کی وجہ سے کسی بندے کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر منور حسن سمیت کسی بھی مذہبی جماعت کے سربراہ نے سلیمان تاثیر کے قتل کی مذمت نہیں کی ۔ممتاز قادری کو سزائے موت کا اعلان ہوا تو مذہبی جماعتوں نے ’یومِ سوگ ‘ منایا اور سلمان تاثیر کو ’’گستاخ‘‘ قرار دیا ۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے کچھ عرصہ بعد نواز حکومت نے ان کے قاتل کو پھانسی دے دی۔اس ریاستی اقدام پر مذہبی جماعتوں نے احتجاج کرنا شروع کر دیا ۔اُس احتجاج کی وجہ سے کئی دن لوگوں کے معمولاتِ زندگی متاثر رہے ۔

چند ہفتے پہلیپاکستانی ریاستی ایوان زیریں اور ایوانِ بالا نے ’ختمِ نبوت ‘ کے حوالے سے ایک ’لفظ ‘ تبدیل کر دیا ۔ابھی تک واضح نہیں ہے کہ یہ دانستہ ہوا ہے یا غیر دانستہ ۔لیکن ریاستی ادارے خاص طور پر ابلاغی ذرائع چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ’’حکومت ’’ ملاؤں‘‘ کے ساتھ ہے۔ اور ختمِ نبوت کے قانون میں کسی قسم کی ترمیم نہیں کی جا رہی تھی اور نہ کی گئی ہے ۔‘‘ ان وضاحتوں کے باوجود پاکستان کا ایک خود ساختہ مذہبی رہنما ’’ خادم حسین رضوی ‘ ‘ لوگوں کو تشدد کے لیے بھڑکا رہا ہے ۔اس شخص نے اسلام آباد کے لوگوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے ۔جھوٹی شہرت کا خواہشمند یہ شخص مذہب کو بطور ڈھال استعمال کر کے ’ذاتی فوائد ‘ حاصل کر نا چا ہتا ہے ۔

مولوی خادم حسین رضوی کے ارشادات سن کر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب مذہبی فنِ تقریر میں ایک نئی صنف کا اضافہ کر لیا جائے ۔مذہبی ظرافتی تقریر،گالم گلوچ،جگتیں،پھبتیاں اور فحش کلامی پر مبنی ان کی تقاریر سے دھرنے میں موجود ’مجاہدین ‘ کو کس قسم کا اسلام سکھایا جا رہا ہے ؟۔ مجھے عرب کے ایامِ جہالت کے شاعروں اور عہدِ حاضر کے مولوی خادم حسین رضوی میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آ رہا ۔عرب شاعرخود پسندی ،نسلی اور قومی افتخار میں رطب السان تھے ۔اَپنے دشمنوں کی ولدیت اور عورتوں کے کردار پر پھبتیاں کستے تھے ۔

افسوس کا مقام ہے کہ خادم حسین رضوی میں بھی جاہل عرب شعراء جیسی صفات نظر آ رہی ہیں ۔اس بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خادم حسین رضوی ’شاعرانہ صفات ‘ سے متصف ہیں ۔ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ ’پاکستانی ملاں مافیا ‘برصغیر کے مذہبی ظرافتی کلچرکا ترجمان ہے ۔ملاں طبقے کو زبان و بیان پر قدرت حاصل نہیں ہے ۔باعثِ افسوس یہ بات ہے کہ جعلی تقدیس کے جال میں پھنسے نہ جانے کتنے مستقبل کے ممتاز قادری اسلام آباد کی سڑکوں پر ایندھن اکھٹا کر رہے ہیں ۔

یہ بات اپنی جگہ سچ ہے کہ محترمہ عائشہ گلالئی صاحبہ نے (جو پاکستان کی ’ایلٹ‘ کلاس کی نمائندہ ’خاتون ‘ ہیں ) خادم حسین رضوی پر ’الزام ‘ لگایا ہے کہ یہ شخص سارا ڈرامہ عمران خان کے کہنے پر کر رہا ہے ۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک ایٹمی اَور خودمختار مملکت میں ایک شخص چند لوگوں کو ساتھ لے کر سڑک بلا ک کر دیتا ہے ۔اگرچہ اس وقت پاکستانی ریاست اور سیاست دان پانامہ کے کیس کی وجہ سے باہم دَست و گریباں ہیں تاہم اَیسے حساس حالات میں ایک شخص کی سرکشی کی قیمت اِسلام آباد کے عوام ادا کر رہے ہیں ۔

3 Comments