متبادل سچ

ڈی اصغر

لیجیے جناب ابھی انگریزی کے ایک مشہور روزنامے کے ایک اتنے ہی مشہور صحافی پر قاتلانہ حملے کو کچھ ہی گھنٹے گزرے تھے کہ ہمارا ہر دم چوکس رہنے والا میڈیا اور بھی مستعد ہو گیا۔ بھلا ہو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جس نے اپنی انتخابی مہم میں ایک نئی اصطلاح متعارف کروائی، جسے متبادل سچکا نام دیا گیا۔ ہم تو روز اول سے اس متبادل سچ اور مفروضوں اور سازشی تھیوریوں کے دلدادہ واقع ہوئے ہیں۔ رات کے کھانے کے بعد ان ہی کا چورن بنا کر اور بلا ناغہ کھا کر ہی ،ہم سب نیند کی آغوش میں جانے کے قابل ہوتے ہیں۔

سو اسلام آباد نگری کے مشہور اور معروف کہلانے والے ایک صحافی نے یہ کارنامہ بڑے فخریہ انداز میں پیش کیا۔ ویسے یہ جید صحافی ، ویک اینڈ کے تینوں روز اپنا پروگرام کر کے، قوم کو کرپشن اور اس کو پروان چڑھانے والے، بے رحم لیڈران کے بارے میں با خبر رکھ کر ویک اینڈ کا اپنا کوٹا پورا کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں اپنی برادری کے دو اور صحافیوں کے آگے، ایک بے پر کی اندر کی خبرپھوڑی۔ ویسے ان کا پروگرام ہوتا تو اردو میں ہے، پر اس کا نام انگریزی میں ہے، جس کا سیدھا سادہ ترجمہ شاید ہو گا، پھوٹھتے تجزیے۔

جناب فرماتے ہیں کہ ان کی عسکری ذرائع سے بات ہوئی اور ان کے استفسار پر ان کو عسکری ذرائع نے یہ بھی بتلا دیا، کہ اس صحافی پر حملے میں، ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ ہاں البتہ سیاسی انتظامیہ کے ماتحت انٹیلیجنس بیورو کے اس حملے میں ملوث ہونے کے کے غالب امکانات ہیں۔ یہ بیورو یہ حملہ کروا کر یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ عسکری ذرائع آزادی صحافت کے خلاف ہیں اور اس طرح جب یہ ملبہ ان پر جائے گا تو عوام میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہو گی۔ دور بہت دور کی یہ کوڑی لا کر جناب نے اپنے تئیں اپنا صحافتی فرض سر انجام دے دیا۔

خدا اور بھی بھلا کرے ہمارے ہر دل عزیز جناب جنرل پرویز مشرف کا جنہوں نے برسہا برس سے ردی کاغذوں میں قید اخبار کے لوگوں کو چشم زدن میں ٹی وی کی اسکرینوں پر لا بٹھایا۔ ہر وقت قلم کی سیاہی میں لتھڑے ہوے راتوں رات اچھے ڈیزائنر سوٹس اور سرخی پوڈر میں اینکربن کے ہماری شامیں رنگین کرنے ہمارے ڈرائنگ رومز میں آن پہنچے۔ سو اب ان حضرت کی چھوڑی ہوئی پھلجڑی سے لوگ چاہے کوئی بھی تاثر لیں، یہ ان کا معاملہ ہے۔ جناب کے عہدے کے ساتھ سینئربھی لگتا ہے۔ گو کہ بندے کی ناقص رائے میں یہ تجربے والے نہیں ، البتہ صرف عمر والے سینئر ہو تے ہیں۔

سازشی مفروضے ہم جیسی قوم کے لئے شیرینی کا کام کرتے ہیں۔ اب ان کی اس اہم خبر پر آناً فاناً سوشل میڈیا پر عوام میں تبادلہ خیال کا آغاز ہو گیا۔ جو ایک طرف سیاسی حکومت کے حامی لوگ تھے انہوں نے ان کی اس پھڑکتی خبر کو فوراً مسترد کر دیا اور سنانے لگانے ان کو صلواتیں۔ دوسری جانب جو لوگ عسکری قوت کے حامی تھے انہوں نے ان کی سچائی پر آمنا صدقنافی ا لفور یقین کر لیا اور شروع ہو گئے ان کی تعریف اور توصیف کرنے۔ خیال رہے کہ اگر یہ حادثہ نہ ہوتا، کوئی اور بھی بے معنی بے وقعت خبر ہوتی، تو بھی سوشل میڈیا پر ہر، لمحے مقیم دونوں دھڑوں میں ایسے ہی گھمسان کا رن پڑ رہا ہوتا۔

ویسے تو اس کج فہم کی کیا مجال کہ اتنے قد آور اور سینئر صحافی کے آگے کچھ کہنے کی جرات کر سکے۔ پر کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ حضرت جہاں ان کی برادری کے ایک فرد پر اتنا شدید حملہ ہوا، وہاں جائے وقوع پر پہنچتے۔ اگر ایسا ممکن نہ تھا تو اپنے عملے میں سے کسی تحقیقاتی ٹیم کو روانہ کرتے اور وہ ان کو اور ان کے ناظرین کو حقائق سے آگاہ کرتے۔

علاوہ ازیں ڈاکٹر جن کی زیر نگرانی ان کے ایک ہم عصر زیر علاج تھے، ان سے کوئی خبر گیری کرتے۔ بجائے اس کے کہ بھس میں چنگاریاں ڈالیں اور اسی ریاست کے دو اہم اداروں میں مزید غلط فہمیاں پیدا کریں، اس بات کا اعادہ کرتے کہ وه اپنی برادری کے ایک سپوت پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کا اس وقت تک تذکرہ موقوف نہ کریں گے، جب تلک ملزمان گرفتار نہیں ہو جاتے۔ اپنے سیاسی اور عسکری اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے، وہ ان ذمہ داران سے رجوع کرتے جو عوام کو اس کی بر وقت تفتیش اور ملزمان کی گرفتاری کی یقین دہانی کرواتے۔

مگر کیا کریں وہ کیا ہے نا، ان کے آگے بھی، قوم کا سب سے برا مسئلہ کھڑا تھا، نون لیگ کو آنے والے دنوں میں کون سا بھائی چلائے گا، نواز یا شہباز۔ اب آپ ہی بتائیے اس اہم ترین مسئلےکے آگے ایک رپورٹر کی جان کی کیا وقعت؟

Comments are closed.