مزارِ شریف کے حملہ آور کی تربیت پاکستان میں ہوئی تھی

شمالی افغانستان میں مزارِ شریف میں قائم جرمن سفارت خانے پر حملے کو ایک سال گزرنے کے بعد اس واقعے کے بارے میں کچھ تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مبینہ حملہ کو پاکستان میں تربیت فراہم کی گئی تھی۔

جرمن اخبار بلڈ ام زونٹاگ کے مطابق انہیں ایک ایسی ویڈیو سننے اور دیکھنے کا موقع ملا ہے، جو اس حملے کے دوران بچ جانے والے واحد ملزم سے دوران تفتیش بنائی گئی ہے۔ اس ویڈیو میں ہبت اللہ نامی ایک شخص بتا رہا ہے کہ اس نے طالبان کے ساتھ شمالی افغان صوبے لغمان کے ذریعے پاکستان کا سفر کیا۔ پاکستان پہنچنے پر طالبان کے ایک رہنما نے اسے بتایا کہ اللہ کو راضی و خوش کرنے  کی خاطر ایک خود کش حملے کے لیے اس کا انتخاب کیا گیا ہے۔

ہبت اللہ نے اس دوران مزید بتایا کہ پہلے اس مذہبی تعلیم دی گئی اور پھر اسے ہتھیار چلانا سکھائے گئے۔ ایک ماہ گزرنے کے بعد اسے دکھایا گیا کہ اسے کس مقام پر خود کش حملہ کرنا ہے یعنی مزارِ شریف میں واقع جرمن قونصل خانہ۔ بلڈ اخبار کے مطابق یہ تفتیشی ویڈیو کسی جیل میں بنائی گئی ہے۔

دس نومبر 2016ء کو مزار شریف میں واقع جرمن سفارت خانے خود کش کار بم حملے میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم اس دوران کسی جرمن شہری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ مزار شریف میں سفارت خانے کی یہ عمارت اب جرمن فوج کے ایک مرکز کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔

خیال رہے کہ سال 2017 کے شروع میں افغانستان میں طالبان کی جانب سے شدید ترین حملے کیے گئے تھے جس میں کئی سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اور افغان صدر اشرف غنی ان حملوں کا ذمہ طالبان کو ٹھہراتے ہیں جن کی سرپرستی پاکستانی ریاست کررہی ہے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی جن کا جھکاؤ پہلے پاکستان کی طرف تھا مگر طالبان کے مسلسل حملوں کی وجہ سے انہوں نے بھارت سے دو طرفہ تجارت اور سٹرٹیجک نوعیت کے کئی معاہدے کیے ہیں۔

DW/News Desk

Comments are closed.