یہ تیرا لہو، یہ میرا لہو

لٹ خانہ

بلوچستان میں صرف گوادر کا سمندر ہی نہیں ہے یہ خود بھی ایک سمندر کی مانند ہے ، کبھی جوار بھاٹا ،کبھی چیختی چنگاڑتی موجیں کبھی سونا میتو کبھی بالکل شانت ۔۔۔ اتنی خاموشی کہ بہتے ہوئے جھرنے کی آواز بھی سنائی نہ دے۔

جس طرح سے کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا ہمارے ترقی پسند اور کمیونسٹوں کے لیے واسکوڈے گاما اور کولمبس کی طرح بلوچستان بھی 2000میں دریافت ہواہے ۔۔۔ گویا اس سے قبل نہ کوئی بلوچستان تھا۔۔۔ نہ کوئی ہمدردی کے دو بول اور نہ ہی کبھی سرپرست بن کر ڈانٹ ڈپٹ کر چپ کر ادینے والے کامریڈز۔

اب ہمارے مارکسزم کی نقالی کرنے والوں کو پتہ چلا ہے کہ کوئی بلوچستان بھی ہے۔۔، جہاں استحصال نام کی کوئی چڑیا بھی پائی جاتی ہے۔۔ جہاں سونے اور چاندی کی اینٹیں دن کے اجالے میں ایسے ہی اٹھا لی جاتی ہیں جس طرح کوئی جاگیر دار کسی مزارعہ کی آبرو کو اٹھا لیتے ہیں اور ہمارے غم میں گھل گھل کر مرنے والے ان ترقی پسندوں کو اب جا کر معلوم ہوا ہے کہ بلوچستان جس سے ہمارا صنعتی ، اقتصادی ، ثقافتی، سماجی اور سیاسی پہیہ چلتا ہے وہاں ایک کیڑے مکوڑے نما مخلوق بھی رہتی ہے جسے عرف عام میں بلوچ کہا جاتا ہے اور یہ حشرات الارض جنہیں بلوچی کہا جاتا ہے ۔ کبھی کبھار اندھے ہوکر (سنا ہے چیونٹیاں بھی اندھی ہوتی ہیں )کسی غیر بلوچ یا حکمران طبقات کی قوم کے فرد کو یا افراد کو کاٹ بھی لیتی ہیں۔۔

جس پر داس کیپیٹل پڑھنے والے دنیا کو مارکسزم کا سبق پڑھانے والے کشور ناہید، کسی زمانے میں وجاہت مسعود،اور اجمل کمل اور اب شاداب مرتضیٰ جیسے اساتذہ بہت ناراض ہوتے ہیں اور سنا ہے کہ آج کل شاداب مرتضیٰ کا بلڈ پریشر بھی بڑھ چکا ہے ۔ ان کے نزدیک یہ مٹھی بھر بلوچ جن کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں اپنی اوقات سے بڑھ رہے ہیں اس لیے وہ ایک سرپرست، ایک فاشسٹ استاد کی مانند ان پر برس رہے ہیں۔ اور ان کو جتلا رہے ہیں ۔۔۔ کہ یہ جو تم چند ہو۔۔۔ شرپسند ہو۔۔۔ تم لوگوں کی یہ مجال کہ نسل پرستی کی حدتک آگے آنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ نسل پرستی پر کامریڈ شاداب مرتضیٰ اور ان کی غالب و حاکم قوم کا حق بنتا ہے۔

شاداب مرتضیٰ درست طور پر بگڑ رہے ہیں ۔۔۔ ان کے منہ سے جو جھاگ نکل رہی ہیں ۔۔۔ وہ بالکل اصلی ہے اور مجھے کم ازکم اس میں کوئی ملاوٹ نظر نہیں آتی ہے۔ ان کی تنبیہ کو بلوچوں (یعنی کیڑو مکوڑوں) کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ اس لیے یہ اس سے قبل نجم سیٹھی ، جاوید چوہدری نے جو تنبیہ کی اس کا مزہ بلوچوں نے چکھا اور کوب چکھا ۔۔ 

شاداب کامریڈ ۔۔۔ ہاتھ میں مولا بخش لیے سمجھا رہا ہے کہ کامریڈ ماؤزے تنگ نے کہا ہے کہ ’’ آدمی کو کتابوں کا کیڑا نہیں بننا چاہیے‘‘۔

۔(ویسے ہنسی آتی ہے )بلوچ اور اس کا کتابی کیڑا بننا۔۔۔ یہ جاہل۔۔۔ احمق۔۔۔ بے وقوف۔۔۔ جھک مارنے والے۔۔۔ قرون وسطیٰ کے وحشی لوگ۔۔۔ بھلا ان کا کتابوں سے کیا لینا دینا۔۔۔ 

ہم بھی کامریڈ سے یہی کہنا چاہتے ہیں لیکن کیا کریں جب محکوم و مغلوب قوموں میں ذوالفقار زلفی جیسے چند کتاب پڑھنے والے پیدا ہو جائیں ۔۔۔ اور مکالمے کی بھیک مانگیں تو ان کی سرزنش کامریڈ شاداب ہی کی طرح کرنی چاہیے بھلا زلفی تمہاری کیا اوقات۔۔

مانا کہ چند کتابیں پڑھی ہوں گی تم نے۔۔۔ کچھ مانگے تانگے کافلسفہ بٹورا ہوگا۔۔۔ کچھ ادھر ادھر کے اردو جملے سیکھے ہوں گے۔۔۔ کچھ انقلابی قسم کی فلمیں بھی دیکھی ہو ں گی ۔۔۔ لیکن تمھاری اوقات نہیں کہ مارکسزم کے ملاؤں اور جاگیر داروں کے سامنے مکالمے کی بھیک مانگنے کی جرات کر سکو۔۔۔

جس ریاست کےلبرل حضرات مثلاً وجاہت مسعود خاکی و سبز ہلالی رنگ سے چاند پینٹ کر تے ہوں اور ادبی اساتذہ جیسے اجمل کمال ۔۔۔ بلوچوں کی جدوجہد کو گالی سے تعبیر کریں ۔ ان کی تاریخ و تہذیب کو ڈاکو اور لٹیروں کی تاریخ کا نام دیں وہاں کے حکمران طبقات جو اصل حاکم ہیں ان کی رعونت اور فرعونیت کا کیا عالم ہوگا ۔۔۔ اب تو جنرل مشرف کی طرح بات تین سرداروں سے تین لڑکوں تک پہنچ گئ بقول فرنود عالم کہ تین لڑکے فقط پہاڑوں پہ چڑھ کر آذادی مانگ رہے ہیں(ہنسی آتی ہے

اور دوسری طرف بلوچ قوم پرست لکھاری مہر جان بار بار سارتر ‘ فرانزفینن ‘ ترقی پسندی سے متعلق اکابرین ‘ جون ایلیا ۔۔۔ کی مثالیں دیتے ہیں وہ نرہ احمق اور بیوقوف ہے اور کامریڈ شاداب کی طرف سے جب انہیں شٹ اپ کال آتی ہے کہ احمقو ! یہ لوگ کوئی اتھارٹی نہیں ہیں کہ ان کی بات مانی جائے ۔۔۔ کسی قسم کا کتابی حوالہ اس لئے مت دو کہ تم میں سوچنے ‘ سمجھنے اور غور ‘ فکر اور تدبیر کی صلاحیت ہی نہیں ہے ۔ کتابوں کو چاٹنے سے ‘ لینن اور ماؤزے تنگ کی مثالیں دینے سے بھلا بلوچوں کی اوقات بدل جائے گی ۔۔۔ 

میں کامریڈ شاداب مرتضیٰ ۔۔۔ کی حالیہ تمام تحریروں ‘ جس میں وہ بلوچوں پر برس پڑے ہیں ‘ دل سے قائل ہوں ۔۔۔ اگر وہ بلوچوں کو نسل پرستی کا طعنہ دیتے ہیں گرچہ انہیں نسل پرستی کا الف ب کا نہیں پتہ ۔۔۔ تو یہ بلوچوں کی عزت سے کچھ زیادہ ہی ہے جب وہ یہ احسان جتاتے ہیں کہ بلوچ ‘ پاکستان کے دیگر علاقوں میں کیوں روزگار کرتے ہیں بلوچ طلباء بلوچستان سے باہر کیوں پڑھنے جاتے ہیں ؟ وہ ریاست کی نوکری کیلئے کیوں بے چین رہتے ہیں ؟ تو کیا ان سب کو غدار نہیں کہنا چاہئے ؟ 

اور پھر جب کامریڈ کھل کر ‘ سچائی کے ساتھ اپنے دل کی بات بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔’’آخر میں ایک بالکل صاف اور سیدھی بات ۔۔۔ کمیونسٹ صرف اور صرف مزدور طبقے کے نمائندے ہوتے ہیں کسی قوم ‘ کسی نسل ‘ مذہب ‘ فرقے وغیرہ کے نمائندے نہیں ۔ کوئی بھی قوم پرست کمیونسٹوں سے یہ توقع نہ رکھے کہ وہ مزدوروں کو قتل کرنے والی یااس کی حمایت کرنے والی کسی بھی قومی تحریک کی حمایت کریں گے ہم صرف اس قومی تحریک کی حمایت کریں گے جو مزدور دوست ہو اور مزدور دشمن ہر قومی تحریک کی مخالفت کریں گے کیونکہ مزدور دشمن ہرقومی تحریک اپنی قوم کے حکمران طبقے کے اقتدار کیلئے ہوتی ہے کمیونسٹوں کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ مزدور دشمن قومی تحریک کے حکمران طبقات کی آزادی کی تحریک کی حمایت کریں ‘‘ بات صاف ہو جاتی ہے ۔ 

یہ بات تو آج سے سات دہائیاں قبل بھی صاف تھی لیکن اب زلفی جیسے قلم گیروں کو کون سمجھائے کہ آپ میں اور ان میں بڑا فرق ہے تو کیا تیری اوقات کیا ۔۔۔ تو ان سے مارکسزم پر مکالمہ کرنا چاہتا ہے ۔۔۔ جنہوں نے اس موضوع پر کتابوں کے دفتر لکھ ڈالے ہیں تو اور تیری قوم ابھی (کل ہی ) تو الف ‘ ب پڑھنے سے آگاہ ہوئی ہے ۔ 

جو مڈل کلاسیے طالب علم بلوچ یا قلم گیر ‘ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کے زخموں پر کم از کم پڑھے لکھے پنجابی یا کمیونسٹ کا دم بھرنے والوں کی جانب سے پھاہا رکھا جائے گا ۔۔۔ ان کو اب سمجھ لینی چاہئے کہ ایسا ہونے والا کچھ بھی نہیں ۔۔۔ کیونکہ کمی کمین کی جگہ پاؤں میں ہوتی ہے ۔۔۔ دل یا سر پر نہیں ۔ 

زلفی صاحب ۔۔۔ آپ کو مکالمہ کیلئے گریہ و زاری کرنے سے قبل یہ سوچ لینا چاہئے تھا کہ آپ سے زیادہ پڑھے لکھے تو بنگالی تھے جنہیں یہ لوگ آدھے مسلمان کہا کرتے تھے ۔ 

اس پورے خطے میں بنگالیوں سے زیادہ سیاسی طور پر باشعور اور بھلاکون ہو سکتے تھے جب ان کو مار مار کر الگ کیا گیا ۔۔۔ تو میری جان آپ کس باغ کی مولی ہیں ۔ 

اور آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ آپ آقاؤں کے دربار میں روتے ہوئے فریاد کریں کہ جی ۔۔۔ وہ دراصل بلوچ اپنے زخموں کی وجہ سے فرسٹریشن کا شکار ہیں ۔۔۔ وہ اس لئے تنہائی کا شکار ہیں کہ اہل پنجاب لفاظی کی حد تک بھی ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہیں کر پاتے ۔

جب کوئی کمزور اپنی کمزوری کا اعتراف زلفی کی طرح کرنے لگتا ہے ۔۔۔ تو دوسری جانب سے کوئی شاداب ۔۔۔ خواہ وہ کوئی نام کا کامریڈ ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔ سر پر جوتی تو مارے گا ۔۔۔ اس کا تماشہ تو بنائے گا اب اگر زلفی اور اس قبیل کے لوگ تماشا بنے ہیں تو اب مجھے شاداب سے لے کر اوریا مقبول جان تک کسی کا کوئی قصور نظر نہیں آتا کیونکہ طاقت کی زبان یہی ہوتی ہے اور یہی ہونی چاہئے ۔ 

ہاں البتہ۔۔۔ کامریڈ شاداب کے حالیہ سرپرستانہ ملفوظات پڑھ کر یہ دل بہت شاد ہے کہ چلو دیر سے ہی سہی ۔۔۔ کسی نے زلفی ‘ ڈاکٹر شاہ محمد مری وغیرہ کو ان کی اوقات سے مطلع کر دیا ہے کیونکہ درست قسم کی مارکسزم وہی ہوگی جس کی تشریح غالب اور حاکم قوم کے ترقی پسند کریں گے یہ تشریح کیڑے مکوڑوں کے نمائندوں کو پسند آئے یا نہیں آئے ۔ 

اس سے قبل یہی کہا جاتا رہا کہ اصل میں بلوچوں کے دشمن ان کی ترقی و خوشحالی کے دشمن کوئی اور نہیں ۔۔۔ سردار ہیں ۔۔۔ سن سن کر بلوچوں کے کان پک گئے اور پھر عقل و دانش ‘ ترقی پسندی اور مارکسزم کے نام پر ( جس میں نام نہاد متوسط طبقہ کو ) گڈمڈ کرنے والے بلوچ نام نہاد لکھاریوں اور سیاسی رہنماؤں نے بھی قوالی یا مصرع کا یہی ٹیپ دہرانے لگے ۔۔۔ جی ہاں سردار ۔۔۔ ظالم ۔۔۔ سردار ترقی دشمن ۔۔۔ استحصال کرنے والا سردار لیکن اب جبکہ سو فیصدی سردار ۔۔۔ سرکاری ہیں اب کیا شور مچایا جائے ۔۔۔ تو اب ’’نسل پرستی ‘‘ کا نیا وظیفہ ان کے ہاتھ لگ چکا ہے ۔ 

اصل میں پوری بات کوئی نہیں کرتا کہ بلوچوں کے استحصال اور بلوچوں کو یہاں تک اس مقام تک لانے میں سرکار ‘ سردار اور ملا کا برابر کا ہاتھ رہا ہے اور جب ملا کی مزید تشریح کی جائے تو اس میں ایک سبز جھنڈے والا ملا نظر آئے گا ایک سرخ جھنڈے والا ۔۔۔ دونوں کے نعرے مقدس ہیں ۔۔۔ سبز جھنڈے والوں نے دو قومی نظریہ کے نام پر جتنا عرصہ نکال لیا ‘ سو نکال لیا ۔۔۔ اب سرخ جھنڈے والوں اور ترقی پسند والوں کی باری ہے اس میں کامریڈ شاداب ہوں ‘وجاھت مسعود ہوں ، ڈاکٹر لال خان ہوں یا لال سلام والے کوئ اور فرقہ لالیہ ۔۔۔ سبھی کو بلوچ نیشنلزم میں کیڑے تو بہت پہلے سے دکھائی دے رہے تھے لیکن اب ان کی خورد بین نگاہوں نے ’’نسل پرستی ‘‘ کا بہت بڑا کیڑا ڈھونڈ نکالا ہے اور اب یہ پوری طاقت اور توانائی سے حملہ آور ہونگے اور میرے خیال میں یہ کوئی انہونی بات نہیں ان لوگوں کیلئے ( جن میں زلفی شامل ہیں ) شاید کوئی خوش فہمی ہو ‘ جنہوں نے اس خطہ کی ‘ اس ریاست کی تاریخ نہیں پڑھ رکھی ہو بقول کامریڈ کہ وہ کتابی کیڑے ہوں ۔ کامریڈ ۔۔۔آپ نے اپنے دل کی بات بیان کر کے بہت اچھا کیا ‘ تاکہ سہانا بھرم ٹوٹ جائے ۔ 

اصل میں آپ کا غصہ بجا ہے ۔۔۔ لیکن آپ سے کس نے یہ کہہ دیا کہ بلوچ اہل پنجاب یا کمیونسٹوں سے خیر کی توقع رکھتا ہے ؟ یا پڑھے لکھے ‘ دانشوروں اور لبرلز سے اسے کوئی امید ہے ؟ ۔۔۔ ایسی توقع کا اظہار کس نے کیا ہے ۔۔۔ کب کیا ہے ؟ ہاں اگر چند پارلیمنٹرینز کو ہو ۔۔۔ تو ہو ۔۔۔ جنہوں نے تاریخ کو اپنے اوپر بھوگا ہے ۔۔۔ جھیلا ہے ۔۔۔ ان کو آپ سے کوئی توقع نہیں کسی قسم کی بھی نہیں ۔۔۔ 

یہ مزدور ۔۔۔ محنت کش کا شوشا ہے ۔۔۔ اب اس نعرے میں کوئی دلکشی باقی نہیں رہی ۔۔۔ 

بلوچ کس کمیونسٹ یا ترقی پسند سے امید رکھیں جبکہ پاکستان میں کوئی کمیونسٹ یا ترقی پسند ہے ہی نہیں ؟ اگر ہے ۔۔۔ تو آپ رہنمائی کر دیجئے ( نمونہ کیلئے ہی سہی ) اس سے قبل کہ آپ سے مزدور کے معنی پوچھے جائیں ۔۔۔ کامریڈ ۔۔۔ کیا یہ نادانی ہوگی ۔۔۔ بھولپن ہوگا ۔۔۔ طفل تسلی یا بیوقوفی ہو گی کہ کوئی بھی محکوم قوم اپنے انسانی اور پیدائشی حق کیلئے آپ جیسے گھمنڈی ‘ اور تعفن بھرے خیالات رکھنے والوں سے حمایت کی امید رکھیں ۔ 

یہ اچھا لطیفہ ہے کہ جن لوگوں کو مزاحمت کرنی چاہئے تھی جن کو انقلاب لانا تھا ۔۔۔ وہ تماشائی بن کر تالیاں پیٹتے رہیں ۔ 

حمایت کا کیا مطلب ؟ آپ ٹھہرے کمیونسٹ اور ترقی پسند ۔۔۔ یہ آپ کی ذمہ داری نہیں تھی کہ آپ مزاحمت کا علم بلند کرتے آپ انقلابی ہر اول دستے کا کام کرتے انقلاب لاتے ۔۔۔ حمایت کا فریضہ تو محکوم اقوام یعنی بلوچوں ‘ سندھیوں کو کرنا تھا لیکن آپ بھلا مزاحمت کیوں کریں ۔۔۔ اس لئے کہ آپ کا تعلق حکمران طبقات سے ہے ۔۔۔ جس طرح سے اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے ملا کی ضرورت ہوتی ہے آج کے اس دور میں کامریڈ کی بھی ضرورت پڑتی ہے آپ حضرات فقط وہی ریاستی بیساکھی کے سوا اور ہیں کیا ؟ 

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل ترقی پسندی کا آغاز ہندوستان سے ہوتا ہے کمیونسٹ پارٹی بنتی ہے ۔۔۔ ترقی پسند ادب لکھا جانے لگتا ہے ۔۔۔ لیکن تقسیم ‘ تقسیم کے بعد فسادات ‘ پاکستان کے قیام ۔۔۔ اور قیام کے ابتدائی زمانے میں اقتدار اعلیٰ کو ملاؤں کی مرضی کے مطابق چلانے اور بعد کے واقعات ہیں کہیں بھی نام نہاد کمیونسٹ پارٹی کا کوئی کردار نظر نہیں آتا بنگلہ دیش بننے تک انتظار حسین سے لے کر فیض تک ( اس باب میں خاموشی نظر آتی ہے ) اگر کشور ناہید کے کالمز ‘ عبداللہ ملک کی چند ایک کتابوں کو الگ رکھا جائے تو عملی طور پر پاکستان میں کہاں کوئی کمیونسٹ جماعت وجود رکھتی ہے ؟ ہاں ۔۔۔ زیب داستان کیلئے ۔۔۔ نیشنلزم کے خلاف بند باندھنے ‘ محکوم اقوام کے طلباء کو گمراہ کرنے کیلئے یہ اوزار اتنا برا بھی نہیں جو تبلیغی جماعت کا حصہ نہ بن سکے اس کیلئے لال خان اور کوئ فرقہ لالیہ حاضر ہیں ۔ 

میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ مارکس ‘ لینن ‘ ماؤزے تنگ ‘ گرامچی ‘ فرانزفینن ‘ کاسترو ‘ قومی تحریکوں کے بارے میں کیا لکھتے ہیں ؟ کیا کہتے ہیں ؟ میں تو اس جاہل ‘ وحشی قوم ( جسے اب نسل پرستی کا خطاب مل چکا ہے ) سے تعلق رکھتا ہوں جس نے مارکسزم کو پڑھا ‘ دیکھا اور سمجھا ہے ۔۔۔ تو اس بلوچ ماں کی آنکھوں میں ‘ جس میں اس کے سجیلے ‘ جوان بیٹے کا انتظار لکھا ہوا ہے وہ ہر روز نئے سورج کے ساتھ ایک نئی آس باندھے ‘ اپنے لخت جگر کی منتظر ہے میں نے کبھی کامریڈ ماؤزے تنگ کی سرخ جلدوں والی لیکچرز کی کتاب نہیں پڑھی ۔۔۔ لیکن ان سوختہ لاشوں کے قصے سنے ہیں ۔۔۔ جن کو زندہ جلایا گیا ۔۔۔ جن کی ڈرل کر کے آنکھیں نکالی گئیں ۔۔۔وہ لاشیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ مقتول کے ہاتھ پاؤں باندھے تھے اور اس کو بہت قریب سے گولیاں ماری گئی تھیں اس کے ہاتھ اور پاؤں میں کھینچاتانی اور بندھی ہوئی رسی کے نشان بھی تھے جب اس نے آخری بار تڑپتے ٹرپتے رسی سے نجات پانے کی کوشش کی ہوگی ۔ 

میری تعلیم کسی یونیورسٹی ‘ کسی بڑے اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے سے نہیں ہوئی ہے ۔ 

میری تعلیم کی ڈگریاں میرے گھر سے شروع ہوتی ہیں اور کھلے میدانوں ‘ صحراؤں اور پہاڑوں تک پھیل جاتی ہیں ۔ 

اس تعلیمی کیریئر کے دوران میں نے بزرگ ماؤں اور جوان بہنوں ‘ بیٹیوں کو حکمرانوں کے چمچوں کی منت وزاری کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔۔۔ ان کو روتے ہوئے فریاد کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ 

معمولی معمولی باتوں پر نوجوانوں کو ہمیشہ کیلئے غائب کرتے ہوئے دیکھا ہے ذلت کو اور ذلت کے مارے لوگوں کو روز دیکھتا ہوں ۔ میری نسل کتابیں پڑھ کر ‘ یونیورسٹی اور کالج میں داخل ہو کر پڑھی لکھی نہیں بن رہی ۔۔۔ بلکہ میرا چرواہا بھی اسی تعلیم سے بہرہ مند ہو رہا ہے جو شاید کتابوں میں کسی کے تجربات ‘ مشاہدات یا تخیل کی صورت میں ہوں تو ہوں لیکن میری قوم ان کو اپنی کھال پر جھیل کر سیکھ رہی ہے ۔ 

اس بھائی کو ‘ جس نے اپنے مسخ شدہ بھائی کی لاش کو ایسی صورت میں اٹھایا ہو کہ جب اس کی کھال بھی ہاتھ لگنے سے پگھل رہی ہوتی ہو ‘ مارکسزم پڑھنے ‘ لینن کے فرمودات پر سر کھپانے کی کیا ضرورت ہے اسے لفظوں کے داؤ و پیچ سے کیا مطلب ؟ اسے دلائل کے انبار لگانے سے کیا فائدہ ؟ اس کا شاعری کی ندرت اور تغزل پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے سے کیا واسطہ ؟ اسے کسی کی تقریر کے زیر وبم ‘ کسی کی انشاپر دازی سے کیا لینا دینا ۔

جب زندگی مرنے مارنے کا کھیل ہو ۔۔۔ وہاں فلسفہ ‘ دلائل ‘ ذہنی عیاشی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ؟ اور غریب ‘ بے بس ‘ لاچار ‘ جاہل ‘ گنوار لوگ بھلا ایسی عیاشی کے متحمل بھی ہو سکتے ہیں ؟ کامریڈ ۔۔۔ آپ کمیونسٹ بن کر کمیونزم کا لطف لے سکتے ہیں ۔۔۔ لیکن کمیونزم کیا ہے ؟ مزدور دراصل ہوتا کیا ہے ؟ استحصال کی برہنہ شکل کیا ہوتی ہے ؟ اسے ہم سے زیادہ اور کون جانے گا۔ 

زندگی کیا ہے ؟ اس کی قدر و قیمت کیا ہے ؟ زندگی گزارنے کا فن کیا ہے ؟ زندگی کا کیاراز ہے ؟ یہ آپ جیسے کتابی کیڑے ‘ خوش پوش ‘ خوش خوراک ‘ ذوق سخت رکھنے والے کیا جانیں ۔ ہم تو وہاں رہتے ہیں جہاں پل پل زندگی کو جیا جاتا ہے ۔۔۔ ہمارے ہاں زندگی ماؤزے تنگ کی سرخ جلد والی کتاب یا لینن کی نیلی نوٹ سب سے زیادہ ایک امرت ہے جس کا ایک ایک رس ‘ سوم رس ہے جو قسمت والوں کو پینے کو ملتا ہے ہم آپ کی طرح زندگی گزارتے نہیں‘ دن گنتے نہیں ‘ کیلنڈر رکھتے نہیں ۔ ہم جیتے ہیں ۔۔۔ ہمارے لئے زندگی کا ہر ایک پل ۔۔۔ دراصل اپنے اندر ایک زندگی ہوتی ہے ہم اپنے آنسوؤں کی قیمت بھی جانتے ہیں غم میں بہنے والے اور خوشی میں بہنے والے آنسو ؤں آپ کے آنسوؤں کی طرح مگرمچھ کے نہیں ۔۔۔ جیتے جاگتے ‘ انسان کی کھال رکھنے والوں کے آنسو ہوتے ہیں ۔ 

ہم زندگی کی قیمت زندگی کے سودا سے چکاتے ہیں ایسی زندگی آپ نے بھلا کہاں دیکھی ہوگی جب آپ نے دیکھی نہیں تو کتاب کیڑے خاک زندگی کو اور جینے کو سمجھیں گے ۔ 

جینا کیا ہے ۔۔۔ زندگی کیا ہے ۔۔۔ خوشی کے آنسو کیا ہوتے ہیں ۔ سینے میں سلگتا‘ ناسور بنتا زخم کیا ہوتا ہے اس کیلئے آپ کو سرخ یا نیلی نوٹ بکوں کی ضرورت ہے جبکہ ہمارے ہاں قصبوں ‘ صحراؤں ‘ میدانوں اور پہاڑوں میں یہ راز کھلا پڑا ہے جہاں بارش کا پانی ( جسے ہم نوکاپ کہتے ہیں ) ہمارے لئے آب حیات سے کم نہیں ہم اور ہمارے جانور اس آب حیات سے اکھٹے مستفید ہوتے ہیں ۔ آپ کی اور ہماری زندگیوں میں صدیوں کا فاصلہ ہے ہماری زبان آپ کیلئے اور آپ کی زبان ہمارے لئے اجنبی ہے ۔ 

آپ کی نیلی ‘ پیلی ‘ لال کتابوں سے ناواقف بلوچ جو سرخ مرچ کو پیس کو پانی میں بھگو کر اپنے پیٹ کی دوزخ کو بجھاتا ہے ۔۔۔ وہ جانتا ہے کہ انکار کی طاقت کیا ہے ؟ اس کا علم آپ کے علم کی طرح مصنوعی نہیں ہے بلکہ وہ فطرت کی آغوش میں رہ کر فطرت سے ہم کلام ہو کر حکمت کی باتیں سیکھتا ہے ۔۔۔ وہ فطرت سے طاقت کے فلسفے کا بھید پالیتا ہے ۔۔۔ وہ کیا جانے ‘ کہ مارکسزم کیا ہے ؟ کامریڈ کے کیا معنی ہیں ؟ اور یہ مسڑ شاداب مرتضیٰ ۔۔۔ کون ہیں جو لال پیلے ہوخواہ مخواہ میں ان کے سرپرست بننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ 

ہمارے درد کی عمر آپ کے غم سے بہت بڑی ہے ہمارے استحصال کا حدود اربعہ بہت پھیلا ہوا ہے ہمیں زندہ رہنے کیلئے جنگل کے درندوں سے لے کر شہروں کے درندوں تک ہر قسم کی شیطانی قوتوں سے نبرد آزما رہنا پڑتا ہے ہم اتنے نازک مزاج نہیں کہ زکام سے بستر سے لگ جائیں یا ایک گریڈ کی خاطر اپنا جینا حرام کریں یا کسی سیمینار میں شرکت یا کسی ملک کے سیر کیلئے منتیں کرتے پھریں ۔ 

چمچہ گیری ‘ خوشامد ‘ جھوٹ سے ہمارا کوئی ناطہ نہیں ۔۔۔ اور اب جو یہ نئی نئی بیماریاں ہم میں آ رہی ہیں ۔۔۔ وہ ان کے طفیل ہیں ‘ جن پر آپ نے سرکاری ملازمت اور تعلیمی اداروں میں پڑھنے کی طعنہ زنی کی ہے ۔ 

ہم اس لئے جاہل ہیں کہ ہم چور اور زانی کو اپنی برادری کا نہیں سمجھتے ہیں یہ اس لئے وحشی اور شاید نسل پرست ہیں کہ ہم اپنے قول و اقرار پر آج بھی اپنی جان دینے کو تیار ہیں ہماری روایات وہی پرانی ہیں جتنی ہماری تہذیب پرانی ہے ( باقی آپ کی فقرے بازی اور طعنے ہمارے مڈل کلاسیوں کے حوالے سے درست ہو سکتے ہیں ) اور انہی مڈل کلاسیوں پر آپ لوگ جان چھڑکتے ہیں ۔ 

اور ہاں ۔۔۔ آپ کے درد اور ہمارے درد میں کچھ نہیں بہت بڑا فرق ہے ۔ 

یہ تو آپ بھی مانتے ہونگے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا سب سے زیادہ تعلق بلوچوں سے (بلوچستان سے ) ہے ۔ 

اور جو ایک بار غائب ہو گیا ۔۔۔ سو غائب ہو گیا ۔۔۔ اگر ایک آدھ بازیاب بھی ہو جائیں تو سوشل میڈیا میں مبارکباددینے والوں کی آراء سے لبریز ہو جاتا ہے لیکن یہ جرات کوئی نہیں کر سکتا کہ یہ غائب کیوں ہوا تھا ؟ کس نے غائب کیا ؟ اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ؟ اسی طرح جس طرح مقتول اپنے قاتل کو جاننے کے باوجود بلوچستان میں اس کا نام نہیں لے سکتا ۔ 

آپ کو یہ سہولت تو حاصل ہے کہ آپ اپنے قاتلوں کا اپنے میڈیا کے ذریعے 24گھنٹوں کا اشتہار بن سکتے ہیں جی لگا کے اس پر لعن طعن کر سکتے ہیں ۔ 

ہمارے ہاں ایک اور فرق بھی ہے ۔۔۔ جو آپ کے لئے شاید اتنی اہمیت کا حامل نہ ہو ۔ 

ہمارے ہاں اول تو کسی کی لاش نہیں ملتی اور جو ملتی ہے وہ ناقابل بیان حد تک مسخ ہو چکی ہوتی ہے اور ایسے میں بھی لوگ کسی کی لاش کی پہچان ہو جائے تو وہ خاندان خوش قسمت کہلاتا ہے ۔۔۔ واقعی میں ۔۔۔ لوگ اس خاندان کے ساتھ تعزیت کرنے کی بجائے اسے مبارکباد دیتے ہیں کہ دیکھو تم لوگ کتنے خوش قسمت ہو کہ تمہیں اپنے پیارے کی لخت جگر کی لاش تو مل گئی اور ایک ہم ہیں کہ اس کی لاش کیلئے بھی منتظر آنکھیں لئے بیٹھے ہیں ۔ 

ہمیں نسل پرستی یا سرداروں یا طبقاتی تقسیم کا طعنہ دینے والے کامریڈو ! سنو آج بھی بلوچوں کا ایک مقتدر سردار ۔۔۔ جو سیاست میں بین الاقوامی سطح پر جانا پہچانا جاتا ہے ۔۔۔ جو بلوچستان کی تاریخ کا پہلا وزیراعلیٰ ہے ۔۔۔ اور جسے اپ کا اسلام آباد شروع دن سے غدار قرار دیتا چلا آ رہا ہے اس نے جانے کتنی مرتبہ جیل کی صعوبتیں برداشت کی ہیں اس نے نو ماہ کے اقتدار کی قیمت جلاوطنی کی صورت میں بھی چکائی ہے اب وہ 86 یا 87 برس کی عمر میں ‘ آج بھی اپنی زندگی کی ڈھلتی ہوئی شام میں گوشہ نشینی کے عالم میں سوچ رہا ہوگا کہ سن ستر کے عشرے میں اس کے بیٹے اسد مینگل کو اس کے دوست کے ہمراہ کیوں غائب کیا گیا اور اب 45سال گزر جانے کے باوجود اس بوڑھے بلوچ سردار کو یہ معلوم نہیں کہ اس کا پیارا لخت جگر اسد کن حالات میں مارا گیااور اس کی لاش کہاں ہے ؟ اس بوڑھے بلوچ سردار کا نام عطاء اللہ مینگل ہے ۔۔۔ جو آپ کے بقول اپنی تمام تر طاقت کے باوجود اسلام آباد والوں سے یہ بات معلوم کرنے میں ناکام رہا کہ اسد مینگل کی لاش کس قصبے ‘ کس ویرانے میں ہے ؟ یہ ہیں وہ بلوچ سردار جنہوں نے بلوچوں کا استحصال کر رکھا ہے جو ترقی کے مخالف ہیں اور ان کی قوم نسل پرست ہے

Comments are closed.