پاکستان میں کم سن بچوں پر بڑھتا ہوا جنسی تشدد

یوسف صدیقی

اِس وقت پاکستان میں کم سن لڑکوں اُور لڑکیوں پر جنسی تشدد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔سماج دشمن عناصر کی اس ’’جنسی سرکشی‘‘ پر باشعور افراد تشویش میں مبتلا ہیں ۔ پاکستا ن میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں روز بروز جنسی تشدد بڑھ رہا ہے ۔اور اس کے مقابلے میں حکومتی اقدامات نہ صرف نہ کافی ہیں، بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں ۔واضح رہے کہ پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہے ،جہاں حکومتیں بچوں پر جنسی تشدد کو’ معاشرتی معمول ‘سمجھ کر قبول کر رہی ہیں ۔

سماج دشمن عناصر کی وجہ سے پاکستان کے اخبارات میں روزانہ کمسن بچوں سے جبری جنسی تعامل کی خبریں چھپی ہوتیں ہیں۔حکومتی زعماء اُس وقت تک اِس طرح کی خبروں کا ’’نوٹس‘‘ نہیں لیتے جب تک ’وکٹم‘ اپنی زندگی گنوا نہ دے ۔ثقافتی تنزلی کا اِس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں ہر چھوٹی بڑی آبادی میں گلی محلوں کی بنیاد پر اُوباش لوگوں نے اپنے اپنے ’ کریمنل گروپ‘ بنائے ہوئے ہیں جوریاست کے ’مقدس قانون‘ کا انتہائی بے دری سے کھلواڑ کر تے رہتے ہیں ۔ان گروپوں کو سیاسی مافیا کی حمایت اور مدد حاصل ہوتی ہے ۔

افسوس کا مقام ہے کہ ان لوگوں کے پاکستانی قانون نافذ کر نے والے اداروں‘ سے رابطے ہیں ،یہ لوگ جب بچوں کو اغوا کر تے ہیں یا ان پر جنسی تشدد کر تے ہیں تو ان کو کسی کا ڈر نہیں ہوتا ۔تھانے میں ملزمان کو ’’پروٹوکول‘‘ ملتا ہے اور مدعی کی تذلیل کی جاتی ہے ۔بعض جگہ تو دونوں پارٹیوں کو سامنے بیٹھا کر باقاعدہ مدعی سے معافی منگوائی جاتی ہے ۔ اس وجہ سے بہت سے لو گ بچوں پر جنسی تشدد کی رپورٹ درج کروانے سے گریز کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کے ساتھ پولیس کی ملی بھگت نے سماجی منظر نامے کو کو مزید وحشی بنادیا ہے۔

اسی طرح بچوں کے اغواہ کا ’کاروبار‘ بھی اس وقت پورے زور سے چل رہا ہے۔ بدقسمتی سے اغوا برائے تاوان اب ایک مستقل ،منافع بخش اور قابل عزت کاوبار بنتا جا رہا ہے ،اس گھناؤنے فعل کو معزز رتبہ دینے میں ہماری حکومتوں کا بھی ہاتھ ہے ۔سندھ،خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے علاوہ جنوبی پنجاپ اغواہ برائے تاوان کے بڑے بڑے مراکز ہیں ۔یہاں پر کالعدم جماعتیں، سماج دشمن مافیاز اُور کچھ مقامی اوباش قسم کے لوگ بچوں کو اغوا کر تے ہیں ۔اُور اِن پر جنسی تشدد بھی کر تے ہیں ۔اس حوالے سے بھی حکومتی اقدامات نہ ہو نے کہ برابر ہیں ۔

پاکستان کی جیلوں میں قیدی بچوں پر بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے حوالے سے عوامی سطح پر آگاہی نہ ہو نے کے برابر ہے ۔ان قیدی بچوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے کبھی کبھار اخبارات میں کوئی خبر شائع ہو جاتی ہے ،وگرنہ اس حوالے سے کسی کے پاس کوئی انفارمیشن نہیں ہے کہ جیل میں قید بچوں کے ساتھ کیا ’سلوک ‘ کیا جاتا ہے۔پاکستانی جیلوں میں جنگل کا قانون نافذ ہے ۔وہاں پرموجود ’سپاہی‘ چند ٹکوں کی خاطر کم سن بچوں کو جرائم پیشہ لوگو ں کی بارکوں میں رات کے وقت چھوڑ دیتے ہیں ،قیدی اِن بچوں کے ساتھ زبردستی جنسی فعل کر تے ہیں۔

کیا ان مظلوم قیدی بچوں کا بھی کوئی پرسان حال بن سکتا ہے !۔ کیا یہ انسان نہیں ہیں؟ ۔کیا یہ پاکستانی نہیں ہیں؟۔یہ وہ سوال ہیں جو ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے اور حکومتی اکابرین کے پاس اس سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے !!!۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں جب بھی کم سن بچوں پر بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کا معاملہ زیرِ بحث آیا ہے تو  علماء نے معاشرے کی پسماندہ پرتوں میں بڑھتی ہوئی’جنسی پیاس‘ کو ’مغربی تہذیب ‘کے ساتھ نتھی کرنے کی ناکام کوشش کی ہے ۔

اِس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مغرب میں ’ہم جنس پرستوں‘ کو تسلیم کیا گیا ہے ،اُور ان کو حقوق حاصل ہیں ۔مغرب میں ’گے سنٹر ‘بھی بنے ہوئے ہیں اور ’ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ‘ بھی بنے ہوئے ہیں ۔لیکن یہ سب ایک مخصوص علاقے میں ہیں۔ اور اس علاقے میں عام آدمی داخل ہوتے وقت ’محتاط‘ ہو جاتا ہے ۔مگر پاکستان میں سماجی ارتقا بے ہنگم ہے ۔اس کی واضح مثال ہمارے دینی مدرسے ہیں جہاں پر ہم جنس پرستی کے مناظر نظر آتے ہیں ۔دینی مدرسوں میں ملاؤں کی جبری ہم جنس پرستی پاکستان میں ’حساس‘ موضوعات میں شامل ہے ۔پاکستان کے دینی مدرے بچوں اور بچیوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے سرفہرست ہیں ۔بعض دینی مدرسوں میں بچوں کو جنسی تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا ۔

اسی طرح کا ایک واقعہ دو سال قبل چشتیاں شہر کی ’مسجد نور ‘ سے ملحقہ مدرسے میں پیش آیا تھا ۔بریلوی ملاؤں کے زیرِسرپرستی چلنے والے اس مدرسے میں ایک کم سن بچے ’فصیح محمود‘ کو جنسی تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا تھا ۔ اس کم سن معصوم بچے کی لاش ایک رات ویرانے میں پڑی رہی ۔اس قتل کی اگرچہ عوام کی طرف سے بھرپور پر ’مذمت‘ کی گئی تھی ۔مگر حکومت نے اُس مدرسے کو بند نہیں کیا گیا،یہ چیز اس بات کی عکاس ہے کہ پاکستانی حکومت نے مدرسوں میں ملاؤں کی ’جنسی سرکشی‘ کو تسلیم کر لیا ہے ۔یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کسی ’نابالغ ‘ بچے یا بچی کے ساتھ جبری سیکس کرنا جس کو وکٹم پسند نہ کرے ایک ظلم اور جنسی تشدد کے زُمرے میں آتا ہے۔

جبری جنسی تعامل کو دنیا کہ تمام سماجوں میں ’قابل سزا ‘ جرم قرار دیا گیا ہے ۔مہذب سماجوں میں اس چیز کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ۔مغرب میں اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی گئی ہے اور یہ بات قابل غور ہے کہ مغرب میں اس طرح کے جنسی تشدد کے واقعات کی تعداد پاکستان سے کہیں کم ہے ۔پاکستان میں اس وقت جنگ کا قانون نافذ ہے ہر سا ل قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اخراجات کی مد میں لاکھوں روپے کا بجٹ صرف کیا جاتا ہے جبکہ ان کی کارکردگی صفر ہے ۔ایسے حالات میں سب سے زیادہ اثر کم سن اور ناتواں بچوں پر پڑ رہا ہے۔ہر طرف جنسی ہوس رکھنے والے بھیڑیے بچوں کا جنسی استحصال کرنے کے لیے بے چین ہیں ۔

ایسے نظام کا کیا فائدہ جس میں لوگوں کی جان ،مال عزت آبرو اور سب سے بڑ ھ کر تہذیب و ثقافت محفوظ نہ رہے! ۔ بچوں پر جنسی تشدد کے کیسز کے حوالے پولیس کا رویہ روزِ ازل سے ہی ’مشکوک ‘ ہے ۔ یہ لوگ چند ٹکوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں اسی طرح فرانزک سائنس لیباٹری لاہور کا رویہ بھی ظالمانہ ہے اس ادارے میں بیٹھے لوگ ضمیر فروش راشی ہیں ۔یہ لوگ چند پیسوں کی خاطر ڈی ۔این ۔اے ٹیسٹ میں ہیر پھیر کر کے جنسی بھیڑیوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں ۔

عدالتوں کا تو کہنا ہی کیا ۔عدالتی نظام پر انگلی اٹھانے والے کو ’غدار‘سرکش،باغی ،گستاخ اور بے ادب کے لقب سے ملقب کر دیا جاتا ہے ۔اس لیے عدالتوں کو اپنے حال پر چھوڑنا اور ان پر تنقید نہ کرنا ہمارا اجتماعی رویہ بن چکا ہے ۔ اگر پاکستان کے ریاستی اداروں نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو پھر عوام کا سمندر اُٹھے گا اور حکمرانوں کے بتوں کو پاش پاش کر تے ہوئے اپنی تقدیر آپ لکھے گا ۔!!!۔

Comments are closed.