فیض آباد کا دھرنا اور سلیمانی قوتیں

ارشد بٹ ایڈووکیٹ

فرشتوں کو مبارک ہو۔ جادو کی چھڑی نے کیا کمال دکھایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے کمال ہنرمندی اورمنصوبہ بندی کے ساتھ ایک فرقہ پرست مذہبی گروہ کو ایک موثراورطاقتورسیاسی قوت میں ڈھالنے کا”مقد س مشنبڑی کامیابی سے سرانجام دے دیا۔

حکومت فیض آباد دھرنے والوں کو اٹھانے کی جرات کیا کر بیٹھی۔ چند گھنٹوں میں پنجاب، سندھ اورملک کے ہر بڑے چھوٹے شہر میں ڈنڈا برداروں کے لشکر برآمد ہونا شروع ہوگئے۔ ایسا لگا جیسے نامعلوم کنٹرول روم میں بیٹھے کسی نے بٹن دبایا جس کے بعد مسجدوں کے سپیکر گونج اٹھے، مدرسوں، گلیوں اور محلوں سے باریش ڈنڈا بردار روبوٹس فلک شگاف نعرے بلند کرتے نکلے اور چشم زدن میں اہم شاہراہوں پر قابض ہو گئے۔

پنجاب میں سلیمانی قوتوںکی مدد سے لوکل ٹرانسپورٹ، انٹرسٹی ٹرانسپورٹ، ریلویز، موٹرویز، تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز بند، حتیٰ کہ مسافروں کے ائرپورٹ پر نہ پہنچنے کی وجہ سے ہوائی سروس بھی متاثر۔ تعلیمی اداروں نے امتحانات منسوخ کر دئے۔ لبیک والوں نے تو عمران خان کی راتوں کی نیند حرام کر دی ۔ تمام کوششوں کے باوجود عمران خان اسلام آباد دھرنے کے دوران ایک لمحہ کے لئے بھی ملک میں شہری زندگی کو درہم برہم نہ کر سکے۔ لبیک کا ابھارحکومت کے لئے درد سر تو ہے مگر مستقبل میں پی ٹی آئی، جے یو آئی، جماعت اسلامی اور طاہرالقادری، کے لئے بھی چیلنج بن سکتا ہے۔

اس سے ملتا جلتا منظر 1977 کو دیکھنے کو ملا۔ مگر اس وقت یہ سب کچھ چند گھنٹوں میں رونما نہیں ہوا تھا بلکہ ملک کواس حال سے دوچار کرنے کے لئے دس سیاسی جماعتوں کو متحدہ محاذ بنا کر تین مہینے مسلسل تحریک چلانے کے بعد یہ مقصد حاصل ہوا تھا۔ بعد ازاں دس جماعتوں کی اس تحریک کے پیچھے سرمایہ، اندرونی اور بیرونی خفیہ ہاتھ بھی بے نقاب ہوئے۔ اچھنبے کی بات کہ ایک غیرمعروف مذہبی سیاسی گروہ اتنا بڑا کارنامہ چند گھنٹوں میں سرانجام دینے میں کیسے کامیاب ہو گیا۔ جہاں فرشتے سلیمانی قوتوں کو بروئےکار لائیں وہاں یہ سب ممکن ہو جاتا ہے۔

حکومت ہوا میں معلق ہو چکی ہے۔ عدالتیں حکومت کو حکم دیتی ہیں کہ فیض آباد سے دھرنا ختم کرو۔ عسکری چیف کہتے ہیں افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرو اوراپنے لوگوں پرتشدد نہیں ھونا چاہے۔ نیوکلیرپاور کی نمایندہ بے اختیار حکومت بے بسی کی تصویر بنی دو تین ہزار افراد پرقابو پانے میں بے اختیار ہو چکی ہے۔ منتخب پارلیمنٹ، جمہوری حکومت اورسول ادارے درشنی پہلوان کی طرح طاقت اور اختیار سے محروم ہو چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے اب حکومت کے پاس سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ ایک آدھ کیبنٹ منسٹر کی قربانی پیش کر کے لبیک والوں کو فتح کا پرچم بلند کرنے کا موقعہ فراہم کرئے۔

فرشتے لبیک والوں کو ہر حال میں کامیاب و کامران دیکھنا چاہتے ہیں۔ خصوصا پنجاب اور کراچی میں لبیک والوں کو طاقت بخشنا چاہتے ہیں۔ اگر حالات بہت زیادہ نہ بگاڑ دیے گئے تو آیندہ سال الیکشن کے نتا ئج پر لبیک والوں کی طاقت سے پنجاب کا مینڈیٹ تقسیم کرانے کی صورت حال بنانے کی کوشش کے امکانات ہیں۔

حالات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مقتدر حلقے نواز لیگ، پی ٹی آئی یا پی پی پی کو فیصلہ کن طاقتور مینڈیٹ سے محروم رکھنا چاہتے ہے۔ شاید نواز لیگ اور پی پی پی ایسی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوں مگر ایسی صورت حال عمران خان کے لئے کسی بڑے صدمے سے کم نہیں ہو گی۔ یاد رہے صوبہ کے پی کے میں ایم ایم اے کی بحالی بھی عمران خان کے لئے چیلنج بننے والی ہے۔

Comments are closed.