جبری گمشدگی:پاکستان کو اصل حقائق بتانے چاہییں

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے حکومت کو اقوامِ متحدہ کے نظر ثانی اجلاس میں پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق کی صورتحال میں کے حوالے سے رپورٹ میں رد و بدل کرنے کی کوشش سے خبر دار کردیا۔

ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ خواجہ محمد آصف کی سربراہی میں پاکستان کا 14 رکنی وفد اقوامِ متحدہ کے یونیورسل پریوڈک ریویو (یو پی آر) کے اجلاس میں شرکت کے لیے سوئٹزرلینڈ کے شہر جینوا جائے گا جہاں وہ اجلاس کے دوران انسانی حقوق کی صورتحال پر قومی رپورٹ کو پیش کریں گے اور اس کا دفاع بھی کریں گے۔

اقوامِ متحدہ کے یو پی آر اجلاس میں ممبر ممالک اپنے اپنے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے رپورٹ پیش کریں گے اور ملک میں گزشتہ اجلاس کے دوران کیے جانے والے وعدوں کے مطابق انسانی حقوق کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کی وضاحت بھی دیں گے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ یو این پی آر کا گزشتہ اجلاس پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ہوا تھا جس میں پاکستان نے ملک میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے پر رضامند ظاہر کی تھی تاہم اس مرتبہ خواجہ آصف کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں یہ مسئلہ موجود ہی نہیں ہے۔

تاہم انہوں نے تجویز دی کہ یہ بہتر ہوگا کہ اس اجلاس میں پاکستان دوٹوک اعلان کرے کہ وہ رواں برس کے اختتام تک ملک میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دے دے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یو این پی آر اجلاس کے دوران پہلی مرتبہ پاکستان کا نو تشکیل شدہ نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) اور انسانی حقوق کے آزاد ادارے بھی موجود ہوں گے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ رپورٹ میں رد و بدل ماضی کے مقابلے میں انتہائی مشکل ہے، تاہم اس وقت حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری بین الاقوامی سطح پر بالخصوص یورپی ممالک کے ساتھ تجارت میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب انہوں نے کہا کہ ملک میں یہ دعوے کرنا کہ پاکستان میں توہین مذہب کا قانون غیر امتیازی ہے اور اس کے ذریعے اب تک کسی کو سزا نہیں ہوئی، ’واضح جھوٹ‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایمان داری کے ساتھ قبول کرنا ہوگا کہ منصفانہ طریقے سے توہین مذہب کے قانون کا نفاذ ایک چیلنج ہے جسے ریاست حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

جبری گمشدگیوں کی سب سے بڑی تعداد صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھتی ہے جہاں ریاستی ادارے پچھلے کئی سالوں سے بلوچ سیاسی کارکنوں کے اغوا میں ملوث ہیں۔ وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے مطابق لاپتہ افراد کی تعداد 8000 کے قریب ہے جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کی تعداد چند سو کے قریب ہے۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے مسنگ پرسنز کیس کی سماعت کے دوران کئی دفعہ ڈی جی فرنٹیر کانسٹیبلری کو عدالت میں طلب کیا تھا مگر وہ کبھی بھی حاضر نہ ہوئے۔

Dawn/News Desk

Comments are closed.