اچھا بننے کا گر

فرحت قاضی

آپ نے بھی میری طرح یہ سنا ہوگا
’’
کسی کے برے باپ کو بھی برا مت کہو تاکہ آپ کے اچھے باپ کو برا نہ کہا جائے‘‘
اس میں اگرچہ دھمکی کا عنصر بھی شامل ہے بہر حال کہنے یا سمجھانے والا آپ کے ساتھ ایک سودا کرنا چاہتا ہے اس کا باپ برا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آپ اسے برا ہوتے ہوئے بھی برا نہ کہیںیعنی انگریزی کے اس محاورے پر بالکل عمل نہ کریں جس میں کہا گیا ہے:
to call a spade a spade
اپنا باپ کسے عزیز نہیں ہوتا کون بھلا چاہے گا کہ اس کے اچھے باپ کو برا کہا جائے یا برے نام سے پکارا جائے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ لوگ تو اپنے برے باپ کو بھی کسی کے منہ سے برا کہنے پر برا مناتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ چونکہ یہ اس کا باپ ہے لہٰذا کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے باپ کو برا کہے اور ایسی صورت میں تو کسی کے باپ کو برا بالکل نہیں کہنا چاہئے جب آپ کے باپ کی جانب انگلی اٹھنے کا اندیشہ ہو
چونکہ یہی مشورہ یا نصیحت میں نے محمدا جان، محلے کے چوکیدار گل دراز اور سول سکرٹریٹ کے قاصد غلام محمد سے بھی سنی ہے اس لئے درست اور معقول لگتی ہے سچ بات یہ ہے کہ اگر مجھے کوئی یہ نہ بھی کہتا کہ کسی کے برے باپ کو برا مت کہو تو شاید میں پھر بھی اس مشورے پر صدق دل سے عمل کرتا کیونکہ ایک انسان کو اس کا ماحول سکھا دیتا ہے اور اگر اس کی سمجھ دانی چھوٹی ہے تو تجربہ سکھا دیتا ہے
ایک روز ہمارے محلے کے منہ پھٹ اور شرارتی لڑکے گل محمد جسے ہرکوئی گلے کہہ کر بلاتا ہے گلی میں گلی ڈنڈا کھیل رہا تھا شاد خان کے باپ کے منع کرنے پر اس کے منہ سے گالی نکل گئی شاد کو پتہ چلا تو پھر کیا ہوا یہ بتانے کی ضرورت نہیں لہٰذا ایک ایسے انسان کے باپ کو تو میں کبھی بھول کر بھی برا نہیں کہہ سکتا جو قد وبت میں ہی بڑا نہ ہو بلکہ تکڑا اور جوان بھی ہو اور جس کا ایک ہاتھ گردن پر پڑے تو معلوم ہو کہ کسی نے ہتھوڑا ماردیا ہے
خیر میں بات کررہا تھا کہ یہ مشورہ مجھے درست اور معقول لگتا ہے اس میں جو سودا کیا گیا ہے وہ برا نہیں اور اس کی یہی شرط یا سودا مجھے معقول لگتاہے جب سکرٹریٹ کے چوکیدار سے لیکر گاؤں کے چوہدری تک ہر بندہ یہ کہتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس میں ضرور کوئی معقولیت ہوگی ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ ہر بات کو من و عن قبول کرنے کے عادی ہوں بہر حال اس میں ایک گنجائش اور بھی موجود ہے بالفرض اگر وہ آپ کے اچھے باپ کو برا نہیں کہتا ہے تو کیا اس کے برے باپ کو برا کہنا چاہئے؟ اس کا انحصار آپ کے ذوق اور اس بات پر ہے کہ آپ کا تعلق کس جماعت اور پارٹی سے ہے آپ کا طبقہ اور مسائل کیا ہیں
جیسا کہ ان دنوں پی پی پی کی حکومت ہے چنانچہ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے ہمیں اجازت ہے کہ چاہئے اس کو برا کہیں یا ان کے باپ کو ایسا لکھیں ہمیں چونکہ ان کی طرف سے کوئی ڈر اور خطرہ نہیں کہ وہ بھی جواب میں برا کہیں گے لہٰذا اس چھوٹ سے کچھ لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں اور کچھ اس نصیحت پر عمل پیرا ہیں کہ باپ باپ ہوتا ہے اور اگر وہ برا بھی ہو تو برا نہیں کہنا چاہئے اس کے برعکس اگر حکومت فوج کے ہاتھوں میں ہو توپھر برے کو بھی برا نہیں کہہ سکتے ہو کم از کم میں نہیں کہہ سکتا اس لئے کہ مجھے فوراً تکڑا شاد خان یاد آجاتا ہے جس نے گلے بیچارے کو گالی دینے پر دن کو تارے دکھا دئیے تھے اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بات محمدا جان اور غلام محمد کہتا ہے اور مولوی اور ملک کہتا ہے تو ایسا ہی نہیں کہتا ہے
کسی کے برے باپ کو برا مت کہو ہماری ملکی ،سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے منشور میں بھی شامل ہے اور ان جماعتوں کے رہنماء صرف برسراقتدار جماعت اور اس کے لیڈر کے باپ کو برا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں یا پھر بھارت کو برا کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کو برا کہنے کی اجازت ملی ہوتی ہے سرکاری، سیاسی اور صحافتی زبان میں اس کو آزادی اظہار بھی کہا جاتا ہے
حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ کسی کے برے باپ کو برا نہ کہا جائے کیونکہ ہر حکومت کا باپ بھی ہوتا ہے اور وہ نہ صرف یہ کہ کہتی ہے بلکہ شادخانوں سے اس پر عمل بھی کرواتی ہے چنانچہ جب حکومت صحافت کے لئے قواعد وضوابط کے اعلانات کرتی ہے تو اس کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ صحافی سرکاری حکام اور اہلکاروں کی برائیاں لکھنے سے گریز کریں یہ اہلکار صحافیوں کو وقتاً فوقتاً نیک مشورے بھی دیتے رہتے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے
برا کو برا مت کہو
کبھی کبھار یہ مشورہ کسی طبیب کی مانند دیا جاتا ہے اگر آپ ایک سپیشلسٹ کے مشورے پر عمل نہیں کرتے ہو تو پھر کیا ہوتا ہے بیماری طول پکڑ لیتی ہے سر پکڑ کر اپنے آپ کو کوستے ہو برا بھلا کہتے ہو اور غریب جان کی طرح راہ چلتے خود سے کہتے ہو اب ہمیشہ اپنے ڈاکٹر کے کہنے پر عمل کروں گا تاکہ کسی مہلک بیماری کا شکار نہ ہوجاؤں ایسی صورت میں جب آپ کی جیب میں چند روپے ہی ہوں یا پھوٹی کوڑی بھی نہ ہو نہ دکان ہو نہ اپنا مکان ہو گاؤں میں جریب زمین بھی نہ ہو تاکہ غلہ یا رقم ملتی ہو اور کبھی کبھار گڑ بھی آتا ہو رشتہ داروں سے بھی کسی مالی فائدے یا سہارے کی امید نہ ہو تو آپ کو چار و ناچار اس مشورے پر عمل کرنا پڑتا ہے حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بچپن میں آپ کا باپ آپ کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا تھا یا محلے کا کوئی بزرگ آپ کو سمجھاتا تھا اسی طرح حکومت بھی آپ کو پیار سے دیکھتی ہے اور آپ کسی کے برے باپ کو بھی برا مت کہو تاکہ آپ کے اچھے باپ کو برا نہ کہا جائے پر ایک اچھے بچے کی مثل عمل شروع کردیتے ہو
یہ یاد رہے کہ اخبار کے مالکان بھی صحافیوں کو اس قسم کا مشورہ دیتے ہیں اگر آپ ماضی میں اپنے بچپن کی جانب سفرکرو تو یاد آجائے گا کہ مسجد پڑھنے جاتے تھے تو استاد جی آپ سے یہی کہتا تھا بلکہ وہ تو یہ بھی کہتا تھا کہ مرنے والے کو بھی برا مت کہو اس کی برائیاں مت بیان کرو ہوسکتا ہے کہ وہ کسی غریب محمد کا باپ نہ ہو بلکہ امیر خان کا باپ ہو اور اس کو بھنک پڑ جائے کہ آپ نے اس کے باپ کی برائی کی ہے توآپ کی پٹائی کرنے کے لئے آپ کے گھر کے دروازے پر پہنچ جائے مولوی جی اپنے کسی شاگرد کی پٹائی نہیں چاہتا تھا لہٰذا یہ مشورہ اور نصیحت کیا کرتا تھا
اگرچہ میرا خیال ہے کہ مردے کوبرا کہنے کی اجازت ملنی چاہئے تھی کیونکہ ایک غریب تو اپنے غریب بھائی پر غصہ اتارلیتا ہے مگر ایک امیر پرفقط اس کی غیر موجودگی میں ہی اسے برا کہ سکتا ہے یا پھر اس کے مرنے کے بعد ہی اسے برا کہہ سکتا ہے کم از کم ایسے امیر کے خلاف تو بولنے کی اجازت ملنی چاہئے تھی جس کے شاد خان کی مانند تکڑے بیٹے نہ ہوں 
آپ کے ماں باپ اور بڑا بھائی، محلے اور سکول کا استاد بھی آپ کو اس قول کی افادیت یاد دلاتا رہتا ہے کیونکہ اس پر عمل نہ کرنے کے اتنے نقصانات ہیں کہ گنوانا شروع کردوں تو کتاب بن سکتی ہے بعض کتابوں کا نچوڑ یا خلاصہ بھی یہی ہوتا ہے بہر طور آپ نقصانات جاننے کے خواہش مند ہیں تو ایک دو مثالیں ضرور پیش کروں گا مرزا اسد اللہ خان غالب کا نام سنا ہوگا ان کی عمر اٹھارہ اور چالیس کے درمیان تھی کسی کے دام الفت میں گرفتار ہوگئے اور اپنے محبوب کے باپ یا ان کو برا کہہ دیا تھا اپنی غلطی کا احساس تب ہوا جب اس نے ملنا جلنا ترک کردیا چنانچہ بعد ازاں تلافی کی غرض سے یہ شعر کہا:
تیرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو 
بے مہر کے وہی معنی ہیں جو کہ برا کے ہیں
یاد رہے کہ محبوب بھی بلی یا بلے کی طرح ہوتا ہے نرم و گداز جو مہربان کہنے پر قریب تو نامہربان یا برا کہنے پر دور چلا جاتا ہے چنانچہ پہلا نقصان تو اس قول پر عمل نہ کرنے کا یہ ہوتا ہے کہ آپ کا محبوب روٹھ جاتا ہے باس کے منہ پر یا اس کے پس پشت برا کہ دیا تو ملازمت سے چھٹی اور اس کا بھی قوی امکان ہے کہ وہ ایسی سند دیدے کہ آئندہ آپ پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہوجائیں اور اگر ایسا نہیں بھی کرتے ہیں تو آپ کی ترقی کے امکانات کم نہیں بلکہ معدوم ہونے کا شدید اندیشہ ہے نتیجہ کیا ہوگا آپ کے پاس پیسہ نہیں ہوگا تو بیوی پھر بچے، محلے کا چوکیدار، رشتہ دار اور دوست حتیٰ کہ بھکاری بھی ناراض ہوگا سماج میں آپ دو کوڑی کے رہ جاؤ گے اور جب کوئی مفلس و قلاش ہوتا ہے تو ہماری سوسائٹی کا یہ اصول ہے کہ وہ برا بھی کہلاتا ہے اور پولیس اہلکار کی مانند ہر ایک آپ کو مشکوک نظروں سے بھی دیکھتا ہے
کسی دوست یا رشتہ دار کی رہائش گاہ جاؤ گے تو یہی سمجھے گا کہ بندہ باتوں باتوں میں پہلے اپنے مصائب یا مہنگائی کا رونا روئے گا اور پھر آہستہ سے کہے گا ہزار روپیہ ادھار چاہئے جبکہ پولیس اہلکار میلا لباس دیکھ کر چور سمجھے گا کوئی دوشیزہ دیکھنا بھی گوارا نہیں کرئے گی تب آپ کا دھیان ادھر جائے گا کہ لوگوں کے باپوں کو برا کہتے کہتے آپ معاشرے کے لئے ’’برا‘‘ بن گئے ہو اب آپ کو اپنے آپ سے گھن آنے لگے گی انڈیا کے پرانے گیت سننے کو جی کرے گا القصہ لایعنیت کے شکار ہوجاؤ گے
آپ دیکھتے نہیں کہ جن کے پاس والدین کو دینے کے لئے پیسہ نہیں ہوتا وہ ان کی دعاؤں سے بھی محروم رہتے ہیں دوست اور شناسا دور دور بھاگتے ہیں دولت مند رشتہ دار آپ کے بیٹھتے ہی اپنی مالی خستہ حالی کا ذکر لے بیٹھتے ہیں یہ کہ ان دنوں ان کی معاشی صورت حال انتہائی پتلی ہے قرض کے بوجھ کے نیچے ان کی کمر دوہری ہوتی جارہی ہے یہ اس لئے کہ آپ ان سے قرض نہ مانگ لیں غریب خاندانوں میں ہر وقت جھگڑوں کی وجہ بھی یہی معاشی بدحالی ہوتی ہے لوگ پیسہ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور پیسہ ایسے انسان کے قریب بھی نہیں پٹھکتا ؟ جو کسی کے برے باپ کو برا کہتا ہو
’’
بری بات‘‘ میاں گل کا کہنا ہے ’’ ہر جگہ بری ہوتی ہے‘‘
بری بات یا برائی کو ادبی زبان میں تنقید کیا جاتا ہے ہمارے ملک میں تنقید کا وہی مقام ہے جو کہ عام زندگی میں برے باپ کو برا مت کہو کا ہے اس چیز کا احساس مجھے تب ہواجب ایک ادبی محفل میں ایک شاعر کی غزل تنقید کے لئے پیش کی گئی اور میں نے ایک دو نہیں بلکہ کئی اشعار کو دوبارہ لکھنے کا مشورہ دیا حقیقت یہ ہے کہ ان کی پوری غزل میں کوئی چیز قابل تعریف نہیں تھی وہ نوجوانوں کو زمانہ قدیم کی جانب گھیسٹتے ہوئے لے جارہے تھے جبکہ سامعین میں اعلیٰ پائے کے شعراء اور ادباء بھی تھے مگر ہر ایک نے ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملادئیے تھے مجھے بہت دیر بعد معلوم ہوا کہ ہمارے معاشرے میں کسی کے برے باپ کو برا کہنے کا کیا ردعمل ہوتا ہے اور اگر برا کہ دیا تو پھر اچھے باپ کی برائی کے لئے تیار رہنا چاہئے وہ صاحب میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑگئے میری تاک میں رہنے لگے کہ میں کن مشاعروں یا ادبی محافل میں جاتا ہوں اور میں کچھ پڑھوں،کچھ لکھوں اور مشاعرے میں پڑھ کر سناؤں اور وہ کلاشنکوف کا رخ میری طرف کردیں اگر ان کو میری تحریر اور خیال پر تنقید کے لئے کچھ ہاتھ نہ آتا تو پروف ریڈنگ اور املا کی غلطیوں کو نشانہ بنانے لگتے
اس قصہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کرنے اور ان کو دوست بنانے کے لئے میں نے اپنی ناک زمین پر تین مرتبہ رگڑنے کے بعد برا کہنے اور تنقید سے توبہ کرلی اب وہ شاعر مجھے اپنے قریبی دوستوں میں شمارکرتے ہیں وہ کسی محفل میں الٹی سیدھی اور بے مقصد غزل یا نظم کہیں تو ان کا موازنہ غالب سے کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ چاچا غالب زندہ ہوتے تو آپ سے ضرور یہ کہتے :
’’
بھئی میرا پورا دیوان لے لو اور یہ ایک، صرف ایک شعر بدلے میں دے دو‘‘
حقیقت یہ ہے کہ یہ بات مجھے بڑی دیر میں معلوم ہوئی کہ جن کو ہم ادبی محفلیں کہتے ہیں وہ ستائش باہمی ہوتے ہیں البتہ ان کے نام اور بورڈ مختلف ہیں
میں نے دوچار محفلوں میں یہ کیا کہدیا کہ ان کی شاعری اسد اللہ خان غالب کی شاعری کی مانند ہے کہ انہوں نے غالب کا دیوان خرید لیا اور ان کے خیالات کو اپنے بھونڈے الفاظ کا جامہ پہناناشروع کردیا لیکن میں اب بھی کہتا ہوں کہ بلند خیالی کو دیکھئے کہ غالب نے بھی ایک ایسا ہی ملتا جلتا شعر کہا تھا چونکہ میں ان کو غالب، کیٹس اور پشکن کا ہم پلہ کہتا رہتا ہوں تو وہ بھی جواب میں دوستوں سے کہتے ہیں قاضی ایک اچھے لکھاری ہی نہیں مخلص دوست بھی ہیں ادب شناس ہیں اگرچہ شعر نہیں کہتے مگر تمام رموز سے بخوبی واقف ہیں وہ دوسروں کو چائے کی دعوت دیتے ہیں جبکہ میرے سامنے لاکر رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں:
’’
قاضی بھائی دودھ پتی ہے‘‘
چنانچہ اگر آپ بھی اچھا بننا چاہتے ہو مالکان کے ’’گڈ بکس‘‘ میں آنے کے خواہش مند اور دفتر میں دوستوں کے منہ سے اپنی تعریف کے تمنائی اور ترقی کی لگن ہے محبوبہ کو سینے سے لگانے اور بیوی سے لیکر حکمران تک ہر ایک کو اپنا دوست، بہی خوا اور بھائی بنانا چاہتے ہو تو کسی کے برے باپ کو بھی برا کہنا چھوڑ دو اور اپنے دفتر میں شیشے کے نیچے لکھو:
اچھا کہو
اور اچھا لکھو
ان الفاظ کو اپنے گھر کی دیوار پر بھی لکھ لو بلکہ ایک عدد لغت لیکر اس سے اچھے اچھے اور تعریفی الفاظ، محاورے اور ضرب الامثال کاپی میں لکھ کر وقتاً فوقتاً دیکھتے رہو یہ درست ہے کہ جن معاشروں میں برے کو برا کہنے کی اجازت ہوتی ہے اس میں برائیاں نسبتاً کم ہوتی ہیں جمہوریت کو آمریت پر اسی لئے فوقیت دی جاتی ہے اسی طرح ادب میں تنقید ہی سے ادب وشاعری کو راستہ ملتا ہے ایک صحافی دیکھتا ہے کہ ایک طاقتور نے دکان پر قبضہ کیا ہے تو اسے سرکار اور عوام کے سامنے لاتا ہے ارباب اختیار اور افسران کے گھپلوں سے شہریوں کو آگاہ کرتا ہے کرپشن کے سدباب کے امکانات پیدا ہوتے ہیں لیکن آپ کو یہ تمام باتیں بھول جانا چاہئیں اور یہ بھی کہ قوم کہاں جارہی ہے ملک کدھر جارہا ہے اس طرف سے آنکھیں بند کرلو بس یہی ذہن میں رکھو کہ آپ کو اچھا بننا ہے اور ایک بندہ اسی صورت اچھا کہلاتا ہے جب وہ کسی کے برے باپ کو بھی برا کہنے سے گریز کرتا ہے

Comments are closed.