میں ایک احمدی ہوں اور یہ پاکستان میرا بھی ہے


میرا تعلق ایک ایسی کمیونٹی سے ہے جس کو اسی ملک میں جبر و ستم کا سامنا ہے جس کے قیام کیلئے میں نے اس نے اپنا حصہ ڈالا۔ میرا تعلق ایک ایسی کمیونٹی سے ہے جو تمام مشکلات کے باوجود پاکستان سے محبت کرتی ہے، ان وقتوں میں بھی جب اس سے محبت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

جب میں نے سکول جانا شروع کیا مجھے بتایا گیا کہ مذہب پر کبھی کوئی بات نہیں کرنی۔ مجھے بتایا گیا کہ جب بھی میری کمیونٹی کےخلاف بات کی جائے یا میری حب الوطنی پر شک کیا جائے تو میں کبھی بھی جواب میں کچھ نہ کہوں۔

جب میں نے سیکنڈری سکول جانا شروع کیا تو مجھے اس مشورے میں دانشمندی نظر آنا شروع ہو گئی۔ اب مجھے پتہ ہے کہ میری ماں نے مجھے مذہب پر بات کرنے سے کیوں منع کیا تھا۔ جب دوسرے لوگ اپنی شناخت پر فخر کر رہے ہوتے ہیں، تب میرا کام یہ ہوتا ہے کہ ان میں گھل مل جاؤں اور اپنا منہ بند رکھوں۔ میں اپنے آپ کو آزاد نہیں پاتی۔ جب بھی اسلامیات کے مضمون کے دوران میری کمیونٹی کے خلاف باتیں کی جاتی ہیں تو میں اپنے سینے پر ایک بھاری بوجھ محسوس کرتی ہوں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ چلا کر کہوں کہ بات اس طرح نہیں ہے جیسے آپ بیان کر رہے ہیں۔ لیکن میں صرف بیٹھی رہتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ میں کب ایک آزاد ملک کی آزاد فضاؤں میں سانس لینے کے قابل ہو پاؤں گی۔

اگر اسے پتہ چل گیا کہ میں احمدی ہوں تو کیا ہماری دوستی برقرار رہ سکے گی؟، ایک بچی جسے سکھایا گیا تھا کہ جب بھی اس کی کمیونٹی کے خلاف کچھ کہا جائے تو وہ خاموش رہے، اب وہ ایک چوراہے پر کھڑی ہے۔کیا میں اسے بتا دوں شاید اس طرح میرے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہو جائے۔

آخرِ کار اب میں کالج پہنچ چکی ہوں۔ ایک آزاد ملک کی تازہ ہوا میں آزادی سے سانس لینے کا خواب ابھی بھی موجود ہے۔ اور صورت حال کو تبدیل کرنے کی خواہش اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔آخرِ کار میں آج اسے بتانے جا رہی ہوں۔ کہ میں ایک احمدی ہوں اور میں اس پر شرمسار نہیں ہوں۔ کہ میں ایک احمدی ہوں اور ہم غدار نہیں ہیں۔ کہ میں ایک احمدی ہوں اور ہم پاکستان مخالف نہیں ہیں۔

اور ہاں، میں نے اسے بتا دیا۔ ” تم قادیانی ہو، تمہارے ساتھ کھانا حرام ہے“۔ ایک تعلق جو برسوں پرانا تھا وہ چند لمحوں میں ٹوٹ گیا، اور یہ اس وجہ سے ٹوٹا کہ میں احمدی ہوں۔

قبول کئے جانے اور چاہے جانے کا خواب اب آہستہ آہستہ دھندلا رہا ہے۔ اب میں یونیورسٹی کی طالبہ ہوں۔ میں ایک منتشر معاشرے کا حصہ ہوں جس کے پاس منقسم ہونے کیلئے بہت کچھ اور ساتھ مل بیٹھنے کیلئے بہت کم ہے۔ میں ایک احمدی ہوں اور کاش تمہیں پتہ چلے کہ کیا محسوس ہوتا ہے جب کسی پر اعتماد کرنے کیلئے آپ کو دوبار سوچنا پڑے۔ جب تمہیں سلام کہنے کی بجائے ہائے کہنا پڑے تو جذبات کیسے مجروح ہوتے ہیں۔

کاش تمہیں پتہ چلے کہ کیا محسوس ہوتا ہے جب تمہارے عقیدے کے متعلق جان کر لوگ تمہاری مسجد کو عبادت گاہ کہیں۔ اور تم مسکرانے کے سوا کچھ نہ کر سکو۔ تمہیں پتہ چلے جب تم دیواروں پر لکھے ہوئے فقرات پڑھو ”قادیانی کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے“۔ تم اپنی کار سے نکل کر انہیں مٹا دینا چاہو لیکن تمہارے پاس صرف مسکرا کر پاس سے گزر جانے جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو کیونکہ تم ایک احمدی ہو۔

میں ایک احمدی ہوں اور ہر بار جب تم میری حب الوطنی پر سوال اٹھاتے ہو، تو میں اپنے ملک سے اور زیادہ پیار کرنے لگتی ہوں۔ میں اس سےمحبت کرتی ہوں اور مجھے اس کا یقین ہے کیونکہ جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ میں احمدیوں کو شامل نہ کرنے کے مطالبے کو یہ کہہ کر سختی سے رد کر دیا تھا۔ ”اگر احمدی کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں تو سوائے مسلمان ہونے وہ کچھ اور نہیں ہیں اور ایک آزاد قانون ساز ادارے کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس کو رد کرے“۔ 

ہر بار جب میرے عقیدے کو ٹھیس پہنچتی ہے جو جناح کے الفاظ اسے بحال کر دیتے ہیں۔ میں ایک احمدی ہوں اور یہ مضمون لکھتے وقت میں نے سوچا کہ میں قلمی نام استعمال کروں۔ لیکن نہیں، اب اور نہیں۔

میں خوفزدہ ہونے سے انکار کرتی ہوں۔ میں وہ ہونے سے انکار کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں کہ مبادا اس سے جذبات کو ٹھیس پہنچتے۔میں جب تک زندہ ہوں خاموش رہنے سے انکار کرتی رہوں گی۔ اور مجھے امید ہے کہ اس کے بعد بھی میری آواز نہیں مرے گی۔ عبدالسلام کی چاہتوں، ملالہ کے خوابوں، مشال خان کی جدوجہد، آسیہ بی بی کی امید، تاثیر کی ثابت قدمی والا یہ میرا ملک ہے۔ ۔ میں ایک احمدی ہوں اور یہ پاکستان میرا بھی ہے۔

۔۔انیلہ۔۔

انگریزی سے ترجمہ:خالد تھتھال

انگریزی میں پڑھیں

Comments are closed.