کیا ایران پاکستان پائپ لائن مکمل ہو سکے گی؟

ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ایک بار پھر پاکستان میں زیرِ بحث ہے اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی اس منصوبے کے حوالے سے سوال و جواب کیے گئے ہیں۔

حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ منصوبہ بروقت مکمل نہ ہونے پر پاکستان کو جرمانہ ادا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ تاخیر ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے ہوئی۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے بینکنگ چینلز ضروری ہیں۔ منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے ایران کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔

پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے ۔ اس بحران کو دور کرنے کے لیے ہمسایہ ملک پاکستان کی مدد کرنے کو تیار بھی ہیں مگر پاکستانی ریاست ،دہشت گردوں کی حمایت کی پالیسی کی وجہ سے اس خطے میں تنہائی کاشکار ہےجس کا خمیازہ پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں۔

ایران پاکستان پائپ لائن منصوبے پر بات چیت نوّے کی دہائی میں شروع ہوئی تھی، بعد ازاں افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے سے یہ معاملہ سردخانے میں ڈال دیا گیا۔ تاہم پیپلز پارٹی کے پچھلے دور میں صدر آصف علی زرداری کی خصوصی دلچسپی سے اس منصوبے پر تیزی سے کام کرنے کا اعلان ہوا مگر وزیر اعظم نواز شریف نے برسراقتدار آتے ہی اسے دوبارہ سرد خانے میں ڈال دیا کیونکہ وہ اس منصوبے پر عمل کرکے سعودی عرب کو ناراض نہیں کرسکتے تھے۔

کچھ حلقوں کی طرف سے یہ توجیح بھی کی جاتی ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد اس لیے نہیں ہوسکا تھا کیونکہ ایران پر عالمی پابندیاں عائد تھیں۔ حالانکہ یہ استدلال غلط ہے۔ بھارت نے ایران کے ساتھ مل کر چاہ بہار بندرگاہ پر کام شروع کیا تھا جو اب تکمیل کے مراحل میں ہے اور بھارت نے تجارت کا آغاز بھی کر دیا ہے۔

توانائی کے ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس مسئلے کو صرف سیاسی عوامل کی وجہ سے طول دیا جا رہا ہے۔ اس ماہر توانائی نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا، ’’پاکستان کا موجودہ مالیاتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ہمیں سعودی عرب کے پاس مالیاتی امداد کے لیے جانا پڑے گا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے پچھلے دورہ سعودی عرب میں سعودی حکومت سے ڈیفرڈ پے منٹ پر تیل کی فراہمی کی گزارش کر دی ہے اور اگر ہمیں سعودی مالی مدد چاہیے تو ہم ایسا کوئی کام نہیں کریں گے ، جس سے وہ ناراض ہو ‘‘۔

سینیٹر میر کبیراحمد نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے، ’’پاکستان بین الاقوامی برادی کے کچھ ممالک کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اور یہ عمل نہ صرف ایران پاکستان پائپ لائن کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ایران کے ساتھ ہونے والے کچھ اور معاہدے بھی اس کی زد میں آرہے ہیں اور ہم ان پر تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘

کبیر احمد نے مزید کہا، ’’ایران کے ساتھ سو میگا واٹ بجلی کا معاہدہ ہوا تھا اور وہ مکران کو بجلی فراہم کر رہا تھا۔ حالیہ ہفتوں میں جب اس معاہدے کی معیاد پوری ہوئی تو اس میں بہت زیادہ توسیع نہیں کی گئی۔ ایک اور معاہدہ تین سو میگا واٹس کا ہے، جس کے لیے ایران نے پسنی کے قریب تک بجلی کے کھمبے بھی لگا دیے تھے لیکن ہم نے اس پر بھی تاخیری حربوں سے کام لیا اور یہ بھی مکمل نہیں ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم پابندیوں کا بہانہ کر کے ایران کو کپاس اور چاول کی شکل میں ادائیگی کر رہے ہیں اور وہ پھر بھی ہم سے تعاون کرنا چاہتا ہے لیکن ہماری طرف سے کوئی گرم جوشی نہیں ہے‘‘۔

کبیر احمد کا یہ بھی کہنا تھا، ’’ایران پاکستان پائپ لائن خطے کے ممالک میں تعاون کو فروغ دے سکتی ہے اور ہمارے مستقبل کو محفوظ کر سکتی ہے،ہمارے گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہور ہے ہیں۔ جس طرح ہم نے ماضی میں لوڈ شیڈنگ سے نمٹنے کی تیاری نہیں کی تھی اور اس کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح آج ایران پاکستان پائپ لائن کا پراجیکٹ اگر ہم نے مکمل نہیں کیا تو کل ہم گیس کے بھی بہت بڑے بحران کا شکار ہوجائیں گے‘‘۔

ماہرین کے خیال میں یہ پراجیکٹ ایل این جی اور تاپی سمیت کئی دوسرے معاہدوں سے مالی طور پر بہت فائدے مند ہے۔ ماہرِ توانائی ڈاکٹر وقار احمد نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مالی اعتبار سے یہ پراجیکٹ دوسرے کئی پراجیکٹوں سے بہتر ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایل این جی سے آپ کی ٹرانسپورٹیشن کی قیمت کتنی بڑھ جاتی ہے۔ اب ہم ملائیشیا سے ایل این جی درآمد کرنے کی باتیں کر رہے۔ اس میں بھی ہمیں ٹرانسپورٹیشن جارچز آئی پی کے مقابلے میں بہت زیادہ دینے پڑیں گے‘‘۔

وقار احمد کا کہنا تھا کہ اس پراجیکٹ کی وجہ سے پاکستان خطے میں ’انرجی حب‘ بن سکتا ہے، ’’مغربی چین کی توانائی کی مانگ میں آنے والے وقتوں میں اضافہ ہوگا۔ بھارت کو انرجی کی اشد ضرورت ہو گی۔ روس ایک ایرانی پائپ لائن بھارت لے کر جانا چاہتا ہے اور اس میں وہ پاکستان کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان خطے میں انرجی حب بن جائے گا۔ جس سے یقینی طور پر ملکی معیشت کو بہت فائدہ ہو گا‘‘۔

Comments are closed.