سعودی عرب کی واپسی کا کٹھن سفر

علی احمد جان

سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو ملک میں سیاسی مذہبی اصلا حات کے خیالات پر دنیا پھر میں پزیرائی مل رہی ہے۔ تبدیلی کا یہ راستہ ان کے لئے کتنا آسان یا کھٹن ہوگایہ تو وقت ہی بتائے لیکن ہم سعودی تاریخ سے بخوبی یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ واپسی کا مرحلہ مختصر ہوگا نہ آسان کیونکہ سعودی عرب کایہاں تک پہنچنے میں تین صدیوں کا سفر بہت پر پیچ راستوں سے ہو کر گزرا ہے۔ اس سفر میں محمد بن سعود اور محمد بن عبد الوہاب کا1744 میں کیا مذہب اور ریاست کو یکجا کرنے کا معاہدہ بھی ہے جس پرآل سعود اور آل عبدالوہاب تین صدیوں سےکاربند ہیں ۔

سعودی عرب میں میں تبدیلی کی پہلی خواہش تو موجودہ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز کی اپنی تھی۔ ان کے سعودی عرب میں گاڑی چلانے اور ریڈیو کی نشریحات کی اجازت دینے پر سعودی عرب پر قبضے میں ان کا ساتھ دینے والے نجدی بدو، ان کے خلاف مزاحمت پر اتر آئے۔ شاہ عبدالعزیز کو اپنے ہی ساتھیوں کی اس مزاحمت کو کچلنے کے لئے طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔ شاہ عبدالعزیز نے صحراؤں میں گھومتے پھرتے رہنے والے بدوؤں کو مختلف گاؤں آباد کرکے بسایا اور ان کو حجرات کا نام دیا جہاں علما ء کے ذریعے ان کے لئے مذہبی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا گیا ۔ اس کے بعد یہ لوگ اپنے مذہبی عقائد کی بجآوری میں مصروف ہوئے جواب شاہی محلات کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں نہ اعتراض۔

شاہ عبدالعزیز کے پہلے جانشین سعود بن عبدلعزیز بھی سعودی عرب میں اصلاحات کے حامی تھے۔ شاہ عبدالعزیز کے انتقال کے بعدتخت نشین ہوکر وہ چاہتے تھے کہ پورے خطے میں امن قائم ہو اور وسائل عوام کے فلاح و بہبود پر خرچ ہوں ۔ ان کی خواہش تھی کہ قانون کا نفاذ ریاست کے ہر شہری ہر یکساں ہو۔ لیکن جب وہ اپنے علاج کے لئے ملک سے باہر گئے تو ان کے سوتیلے بھائی فیصل بن عبدالعزیز نے ان کو معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کیا۔ واپسی پرسعودی فوج نے سلامی کے بجائے اسلحہ کی نوک پر واپسی کا راستہ دکھایا جس کے بعد وہ پردیس میں در بدر کی ٹھوکریں کھا تا رہا۔

طلال بن عبدالعزیز سب سے باغی شہزادے ہیں جو ملک میں ایک سیاسی نظام اور آئین کی حکمرانی چاہتے تھے۔ اس کو بھی ملک چھوڑنا پڑا ۔ ان کی جان بخشی تو ان کی ماں نے کروادی اور اصل میں ان کی گلو خلاصی فیصل کی موت کے بعد ہی ہوسکی ورنہ یہ ضدی قبائلی ایک دوسرے کو آسانی سے معاف بھی نہیں کرتے، چاہے خونی رشتہ ہی کیوں نہ ہو۔ طلال آج بھی سعودی عرب میں سلمان کے بادشاہ بننے پر خوش نہیں اور نہ ہی وہ محمد بن سلمان کے اقدامات سے خوش نظر آتے ہیں۔

اپنے بڑے بھائی سعودکو معزول کرکے تخت نشین ہونے والے شاہ فیصل کو اپنے بھائی طلال بن عبدالعزیز کو جلاوطن کرنے کے باوجود بھی ملک میں ٹیلی ویژن کی نشریات کی اجازت دینے پر جان دینی پڑی تھی۔ شاہ فیصل کے بعد سعودی تخت پر بیٹھنے والے محتاط ہوگئے اور معاشرتی آزادی کا سفر آگے نہ بڑھ سکا۔

محمد بن سلمان بار بار ۱۹۷۹ سے پہلے کے سعودی عرب کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ واپس اس دور میں لوٹ جائیں گے۔ سعودی عرب کی تاریخ میں یہ واقعہ ناقابل فراموش ہے جس میں سعودی رینجر کے ایک ریٹائرڈ حوالدارجھیمان العتیبی اور اس کے پانچ سو کے قریب ساتھیوں نےاسلامی سال اور چودھویں صدی کی آمد پر قیامت کے آغاز کا اعلان ۲۰ نومبر۱۹۷۹ کو خانہ کعبہ کے میناروں پر لگے لاؤدسپیکر سے زائرین سمیت حرم کے محاصرے کے ساتھ کیا۔

پندرہ دن کے محاصرے کا خاتمہ کعبہ کے اندر بہت بڑی خون ریزی پر ہوا جس میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے۔ جھیمان اور اس کے زندہ بچنے والے ساتھیوں کے سر قلم کر دئے گئے۔سعودی حکومت نے اس واقعے کے بعد ملک میں جھیمان کے ہم خیال لوگوں کو ڈھونڈ کر ختم کرنے کے بجائے انھیں سدھارکر راہ راست پر لانے کے لئے علماء اور مذہبی شیوخ کو اختیارات اور وسائل فراہم کردئے۔ اسی سال افغانستان میں روس کے خلاف جنگ پر سعودی عرب اور امریکہ کا اتحاد ہوا جس میں شرکت کے لئے سعودی نوجوانوں کو ترغیب دی گئی ۔

افغانستان میں روس کے خلاف مزاحمت کے لئے پشاور میں دو طرح کے لوگ جمع ہوئے تھے ۔ ایک تو مالدار سعودی تھے جن کے پاس پیسہ تو بے تحاشا تھا مگر جب آپس میں بیٹھتے تو باتیں گھوڑے ، گاڑیوں اور اسلحے سے آگے نہ ہوتیں اور دوسرے مصری تھے جو سعودیوں کی طرح مالدار تو نہیں تھے مگر ان کے پاس علم اور باتیں زیادہ تھیں۔ غریب مگر اہل علم مصریوں اور مالدار سعودیوں کو ان کی مادری زبان عربی نے یکجا کیا تو سعودی نوجوان مصریوں کی باتیں جو پہلے زیادہ دلچسپ نہیں لگتی تھیں مگر وقت کے ساتھ غور سے سننے لگے اور متاثر ہوئے۔

جھیمان نے کعبہ کے محاصرے سے قبل مختلف لوگوں کو خطوط لکھے تھے جس میں انھوں نے اپنے نظریات کا اظہار کیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ ان خطوط کو سب سے زیادہ پشاور میں پڑھا سمجھا گیا جہاں اسامہ بن لادن جیسے سعودی نوجوان اور مصر ی الاخوان کے ایمن الزواہری جیسے جہاد کے مشترکہ مقصد کے ساتھ اکھٹے ہوئے تھے ، یہاں القاعدہ جیسی تنظیم نے جنم لیا جس نے بعد میں دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔

اسی کی دہائی میں سعودی عرب میں السعود کو بھی اطمینان تھا کہ ان کو اندروانی طور پر مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے اب کوئی خطرہ نہیں رہا۔ سعودی عرب میں افغانستان میں جہاد کے نام پر فنڈ اکھٹے کرنے کو شاہی خاندان کے لوگ بھی قابل فخر کام اور دینی فریضہ سمجھتے رہے۔

جب افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ سے سعودی جنگجو اپنے ملک واپس جاتے تھے تو ان کو مخصوص حلیے میں بہت پسند کیا جاتا جن سے متاثر ہوکر اور نوجوان جہاد کے نام پر افغانستان کی لڑائی میں شریک ہوجاتے تو ان کے والدین فخر محسوس کرتے تھے۔ مگر جب نوّے کی دہائی میں افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد سعودی جنگجو بھی ذہنوں میں مصریوں کے پڑھائے جھیمان کے نظریات لے کر اپنے ملک واپس چلے گئے جہاں انھوں نے مغربی باشندوں کے خلاف خونریز کاروائیوں کا آغاز کیا تو سعودی حکومت کواحساس ہوا کہ ان کا سر درد واپس آچکا ہے۔سعودی حکومت نے اسامہ بن لادن کو ملک سے نکال دیا جہاں سےوہ پھر افغانستان پہنچ گیا ۔

سنہ 1979 کے کعبہ کے محاصرے کے واقعے کے بعد سعودی حکومت نے مذہبی علماء اور شیوخ کو کھلی آزادی دی تھی کہ وہ اپنے سخت گیر مذہبی نظریات کی تبلیغ و ترویج کریں جس میں وہ افغانستان کی لڑائی کو جہاد بنا کر پیش کریں تاکہ نوجوان زیادہ سے زیادہ اس میں شریک ہوں اور ان کو درپیش مزاحمت کا اندرونی مسئلہ ٹل جائے ۔سعودی مذہبی علماء نے اپنی حکومت کے مدد اور تعاون سے اپنے نظریات نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری دنیا میں پھیلادئے بلکہ سعودی الاخوان کی تنظیم اب پوری دنیا میں بالخصوص روس سے آزاد ہونے والی وسط ایشیائی ریاستوں میں بہت تیزی سے پھیل گئی۔

سعودی عرب کے اندر ایک مذہبی پولیس کے ذریعے شرعی قوانیں سختی سے نافذ کئے گئے ۔2002میں مکّہ میں ایک لڑکیوں کے سکول میں آگ لگنے کے واقعے میں لڑکیاں آگ کے شعلوں میں چیختی چلاتی جل کر کوئلہ بن گئیں مگر مذہبی پولیس نےسکول کا گیٹ محض اس لئے نہیں کھولا کہ لڑکیوں کا لباس نا محرم مردوں کے سامنے جانے کے لئے مناسب نہیں تھا۔

سعودی عرب میں سخت مذہبی ضوابط ، عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف مختلف سماجی تنظیمیں ملک کے اندر اور بیرون ملک سر گرم عمل ہیں۔ دنیا بھر سےانسانی حقوق کے علمبردار سعودی حکومت کے اپنے شہریوں کے خلاف سخت گیر روئےاور اقلیتوں کے خلاف تعصب پرآواز اٹھاتے رہے ہیں مگرسعودی حکومت نے ایسی کسی بھی آواز پرکبھی کان نہیں دھرا ۔

اب ولی عہد کی ملک میں تبدیلی لانے کی باتیں تیل کی آمدنی میں خاطر خواہ کمی کے بعدگرتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کے لئے ان کی کاوشوں کا حصہ ہے۔ کیا محمد بن سلمان کی ولی عہدی سے نا خوش موقعے کی تاک میں بیٹھےاس کےحریف چچا زاد ان کو تبدیلی لانے کی اجازت دیں گے؟ کیا شیخ محمد بن عبدالوہاب کی اولاد یں مذہبی اداروں میں اپنے حصے کو قربان کر دیں گی؟

سعودی عرب نے دینا بھر میں لوگوں کی ایک خاصی تعداد کو اپنے عقیدےاور نظریات کی طرف راغب کیا ہے ۔ کیا سعودی عرب کے ولی عہد کے کسی ایسے اقدام کو دنیا بھر میں ان پیروکاروں کی طرف سے پذیرائی مل سکے گی۔

محمد بن سلمان اگر اپنے باپ کے انتقال پر اقتدار پر فائز ہوسکے تو اصلاحات کا سفر بھی جاری رہے گا ورنہ وہ بھی اپنے خوابوں کے ساتھ اپنے سے پہلے ایسا سوچنے والے اپنے چچا سعود اور طلال بن عبدالعزیز کی طرح گمنام ہوجائیں گے۔

Comments are closed.