اہل مشرق نے نظریہ دان کیوں پیدا نہیں کیے ؟

پائند خان خروٹی

یہ بات پور ے مشرق میں رہنے والے اہل علم وسیاست کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ مشرقی ممالک میں وافر افرادی قوت ، عظیم آسمانی اور زمینی مذاہب اور جامع مشترکہ خاندانی نظام کی موجودگی کے باو جود اِکادُکا استثنیٰ کے علاوہ کوئی قابل ذکر نظریہ دان یا مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اعلیٰ آفاقی معیار کے مطابق پوری انسانیت کیلئے کامن ہیروز آف ہیومنٹی گذشتہ کئی صدیوں میں پیدا نہیں کیے ۔ دنیا کی بڑی قدیم زبانوں میں اس خطے سے سنسکرت ، فارسی اور عربی وغیرہ جیسی زبانوں میں نہ کوئی سائنسی ، علمی اور ادبی نظریہ سامنے آیا اور نہ ہی کوئی نابغہ روز گار شخصیت کااُبھار ہوا ۔

ادب اور سیاست کے شعبوں میں جن لوگوں نے کارنامے سرانجام دیئے وہ بھی اپنے زبانوں ، فرقوں اور علاقوں تک محدود رہے ۔ خاص طو رپر مسلم دنیا میں علم ودانش کے ساتھ حکمرانوں کارویہ مسلسل دشمنی پر مبنی رہا اور مشرق کے بعض مسلم اور غیر مسلم اقوام میں غیر معمولی شخصیات پیدا ہوئیں تو اپنے ارباب اختیار واقتدار نے ان پر جبر و ظلم کااستعمال روا رکھا ، ا نہیں پنپنے سے روکا اورا کثر بزور قوت انہیں معاشرتی زندگی سے نکال باہر کیا ۔ اس طرح مسلسل کئی صدیوں سے عوام پر علم وشعور خاص کر سائنسی ایجادات کے دروازے قصداً بند رکھے گئے کیونکہ روایتی بالا دست طبقہ کے حکمران سادہ لوح عوام پر اپنی بالا دستی اوراجارہ داری کو برقرار رکھنے کیلئے سسٹم اینڈ اسٹس کو کو نہ بدلنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں ۔ 

جہاں تک مضمون کے موضوع کاتعلق ہے اس سوال کا مناسب جواب وہی لوگ بہتر دے سکتے ہیں جو دنیا کے دیگر خطوں میں ایسے جبر واستحصال سے نجات حاصل کرتے ہوئے علم ودانش اور خاص طور پر معیشت کے شعبے میں حقیقی ترقی کے مراحل طے کرچکے ہیں ۔ سردست ہمیں ان کے ارتقا ء اور ترقی کے نتیجے میں سامنے آنے والے سوشل اینڈ سائنٹفک نظریات کے ادراک اور اپنے معروض کے مطابق ان کاتخلیقی اطلاق کے حوالے سے اپنے قلم اورقدم کو حرکت میں لانا ہوگا۔ اس ضمن میں مارکسی مکتبہ فکر کابنیادی نظریہ قابل غور ہے کہ کسی بھی معاشرہ کی معاشی اساس اپنے مفاد اور تحفظ کے مطابق ہی بالائی ڈھانچے کوفروغ دیتی ہے۔

عملاً انسانی تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جن قوموں اورخطوں نے معاشی ترقی کے مدارج اور ادوار طے کیے ہیں ۔ انہوں نے علم و عقل، سائنس اور دیگر شعبوں میں ترقی حاصل کی ۔ گویا معاشی غلامی سے سیاسی ،سماجی اور ثقافتی ڈھانچے بھی بری طرح سے متاثر ہوجاتے ہیں اور غلام معاشرہ میں فکر وقلم کی آزادی کے خوا ب ادھورے رہ جاتے ہیں ۔ سماج میں معاشی طریقہ پیداوار بدلنے سے ہی انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں تبدیلی کو حقیقی بنیادیں فراہم کی جاسکتی ہیں ۔ ترقی یافتہ دنیا میں جو جدید نظریات اور ایجادات سامنے آئے ہیں ان کی اہمیت وحیثیت آفاقی ہے ۔ وہ دنیا بھر کے انسانوں کیلئے یکساں موثر ومفید ہیں لیکن افسوس کہ پورے مشرق کے فرسودہ اور استحصالی حکمرانوں نے اپنے حقیر مفادات کوتحفظ دینے کیلئے اپنے عوام کے ذہنوں کو اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ وہ انٹرنیشنل نوعیت کے نظریات وحقائق سے استفادہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ واضح رہے کہ تھیوری اورآیڈیالوجی میں فرق جاننا اور بورژوااور پرولتاری نظریات میں تفریق کاصحیح ادراک حاصل کرنا اشد ضروری ہے۔(1)۔

مشرق کے تمام ملکوں میں خاص طور پر مسلم دنیا میں فرسودہ اور ناکارہ ہوجانے والے معاشی نظام کو برقرار رکھنے کی وجہ سے سیاست کے شعبے میں بھی کسی قسم کی پیش رفت نہ ہوسکی ۔ موجودہ مسلم ممالک میں ا کیسویں صدی کے جدید معاشرے نے بھی بد ترین ڈکٹیٹر شپ یہاں تک کے بادشاہت اور ملائیت کانظام رائج ہے۔ جمہور کی جمہوریت،خلق خدا سے جڑی ہوئی خلقی قیادت اور پرولتاری اقدار تو ماسوائے چند غیر مسلم ممالک کے پورے ایشیا میں اجنبی پودے تصور کیے جاتے ہیں ۔ اس صورت میں معاشرے میں کسی فکری تنوع اور سائنسی ترقی کاخواب مجذوب کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔ سیاست ، حکومت، ادب اورتصوف میں وراثت ،بادشاہت اور گدی نشینی کے تسلسل میں اجتماعیت کے احساس کو مفقود کررکھا ہے لہذا تمام سرگرمیوں چاہیے وہ سیاسی سطح پر ہو یاسماجی سطح پر ان میں ظاہری جاہ جلال او رشخصی حکمرانی کارنگ جھلکتا ہے ۔

ہمارے ہاں بادشاہ اور امراء نے اپنے ذاتی عیش وعشرت یہاں تک کہ جنسی لذت کو قومی وملکی سرگرمی کے طور پر اختیا ر کیا ۔ کسی بادشاہ نے اپنے محبوبہ کے مرنے پر اس کی یادگار تعمیر کرنے کیلئے پوری قوم کا خزانہ لوٹا دیا، کسی نے اپنے باغ اور محل کو کنیزوں اور لونڈیوں کی رونق بخشنے پر قومی وسائل صرف کردیئے ۔ کسی نے اپنے محافظین کے طو رپر شاہی خیمے میں صرف خواتین کادستہ تعینات کرنے کی پابندی لگائی ۔ مختلف جنگوں میں مخالف فریق کے خواتین کی عزت تار تار کرنے کے علاوہ انہیں مال غنیمت کے طور پر اٹھا ئے جانے کی روایت عام رہی بلکہ آج بھی کچھ مسلح قوتیں ایسی گھناؤنی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔ اس کے علاوہ آج کے اس جدید دور میں بھی مسلم بادشاہان ، معاشی غنڈے اور کرایہ کے قاتلین پورے آب وتاب کے ساتھ بیک وقت کئی درجن بیویوں پر مشتمل حرم رکھتے ہیں ۔

انسانی سماج کی ترقی کے مختلف مراحل ہوتے ہیں اور تاریخ کسی کی خواہش یا بادشاہ کی فرمائش پر نہیں بلکہ اپنے قوانین کے مطابق آگے بڑھتی ہے ۔لہذا ہر انسانی معاشرہ کیلئے ترقی کے مقررہ مراحل کو طے کرنا ضروری ہے ۔ معاشی ادوار طے کرنے میں چھلانگ لگانے کاتصور حقیقت کے برعکس ہے ۔ آج بھی مشرق میں بسنے والے عوام جدید سہولتوں سے استفادہ کرنے اور ترقیافتہ معاشروں کے مساوی آنے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن وہ اندرونی کمزوریوں کا خاتمہ کرنے اور ترقی کے مختلف مدارج اور مراحل طے کرنے کو تیار نہیں جبکہ ایشیا کے مقابلے میں’’یورپ کے معاشرے میں تبدیلی کوقبول کرنے اور پھر نئے حالات میں خود کوڈھالنے کی صلاحیت ہے ۔‘‘(2)۔

مشرق کے مختلف ممالک میں موجودبورژوا قومی تحریکیں بظاہر تبدیلی اور ترقی کے دعویدار ہیں لیکن تمام کی تمام اپنے اپنے حکمرانوں کے زیراثر ہیں ۔لہذا تبدیلی کاعمل ان کے بنیادی منصب سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قومی تحریکیں تبدیلی کی قوت متحرکہ، ار تقاء اورمزاحمت کا ا ٹل قانون یعنی طبقاتی جدوجہد کوماننے سے انکاری ہیں ۔ عرب شیوخ سے لیکر ایرانی آخوندیوں تک اور عدم تشدد کے پیش روسے لیکر جنوبی کوریا کے’’ سینگ مین ری ‘‘کی چوہدراہٹ تک محکوم ، مظلوم اور مغلوب طبقات واقوام کی وابستہ امیدیں بھی خاک میں مل گئیں ۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ مذکورہ تمام تحریکیں بھی سسٹم اینڈ اسٹیٹس کو کوبرقرار رکھنے پر متفق ہیں اور کسی حقیقی تبدیلی کیلئے نہ صرف تیار نہیں بلکہ کسی حد تک تبدیلی کی راہ میں خود رکاوٹ بھی ہے ۔

اہل مشرق کے مسلم وغیر مسلم ممالک میں مذہبی لبادے میں اقتدار پر قابض ہوجانا اور نسب وقبیلے کے نام پر مشتعل میلے لگانابہت عام رواج ہے ۔ اس کے علاوہ مذہبی قوتوں نے حکمران طبقے کے مفاد میں ہر نئے رجحان ،سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی کی تبدیلی کو خلاف مذہب قرار دیکر عوام کے مذہبی جذبات کا استعمال کرتے ہوئے پرانے طرز معاشرت کو بر قرار رکھنے میں اہم کردا ادا کیا ہے ۔ اس حوالے سے انہوں نے جدید ترقی کے ثمرات (پرنٹنگ مشین سے لیکر لاؤڈ اسپیکر تک) کے خلاف فتوے جاری کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ مشرق اورخاص طو رپر مسلم معاشروں میں مسلسل مذہبی پیشوائیت اورآمرانہ قوتوں کی بالا دستی کی وجہ سے عوام کی بھاری اکثریت بالخصوص عو رتیں اُمور مملکت وحکومت سے آج بھی علیحدہ اور لاتعلق ہیں ۔ عام آدمی کو سوال ا ٹھانے ،جائز تنقید کرنے اور متبادل سوچنے کی آزادی سے محروم رکھا گیا ہے ۔

اس مقصد کیلئے علم وادب کی محفلوں کو بھی حکمرانوں کی تعریف وتوصیف تک محدود کردیا گیا ہے ۔ جس معاشرے میں مختلف شعبوں کے اہم اور حساس نوعیت کے موضوعات پر آزادانہ مباحثین نہ ہوں، اختلاف رائے کا احترام نہ ہو ، عدم برداشت اس حد تک بڑھ جائے کہ ایک شخص خود سے مختلف مسلک یامکتب فکر کے افراد کو قتل کرنے پر آمادہ ہو ۔وہاں علم وادب اور فکر ونظریہ کی آزادانہ نشو ونما ممکن نہیں لہذا ایسے معاشرے میں اعلیٰ علمی وادبی اہداف حاصل کرنا یا نظریہ دانوں کا اُبھار کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ۔آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ آج سے سوبرس قبل انقلابی لیڈر ولاد میر لینن نے استقلال کے ہیروریڈ پرنس غازی امان اللہ کے نام اپنے خط میں افغانستان کی مکمل خود مختاری کو تسلیم کرنے اور اپنا پہلا سفیر بھیجنے کے موقع پر شاندار توقعات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت پھلتا پھولتا افغانستان دنیا کی واحد خود مختار مسلم ریاست ہے اورآج افغانی عوام کے سامنے یہ تاریخی فریضہ ہے کہ وہ تمام محکوم ومغلوب مسلم قوموں کو متحد کریں اور انہیں آزادی اورخود مختاری کے راستے پر لے جائیں۔‘‘(3)۔

معاشی طورپر پسماندگی کاشکار معاشرے میں علمی وادبی شعبوں میں بھی نمو وترقی کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے ۔ ہمارے شعر وادب کی تاریخ مختصر بھی ہے اور جو کچھ ہے وہ بادار اور در بار سے متعلق نظر آتی ہے ۔ آج بھی اردو زبان میں قصیدہ گوئی ایک اہم ادبی صنف تصور کی جاتی ہے ۔ اردو کے بڑے اساتذہ میں سے مغلیہ دور کے ملک الشعراء خاقانی ہند شیخ محمد ا براہیم ذوقؔ کی شہرت ہی قصیدہ گوئی سے وابستہ ہے ۔ دوسری جانب یہی ادیب وشاعر حضرات بے مقصد اور بے معنی ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیں ۔ مثلاً کسی شاعر نے اپنی تمام توانائی اور صلاحیت ضائع کرکے محبوبہ کی اداؤں اور انداموں کو بیان کرنے کیلئے دیوان کے دیوان لکھ ڈالے ۔ فارسی ادب کے معروف شخصیت حافظ محمد شیرازی نے د ربار کے اندر اور باہر ساٹھ ہزار اشعار لکھے جبکہ محض اس ر یکارڈ کو توڑنے کیلئے پشتو کے معروف شاعر سمندر خان سمندر نے اپنی نظم میں اشعار کی تعداد پینسٹھ ہزار کردی ۔

اردو کے تیسرے درجے کے ناول نگار محی الدین نواب نے اپنے ناول ’’دیوتا‘‘ میں ایک کروڑ سے زائد الفاظ استعمال کرکے نیا ریکارڈ بنانے کی کوشش کی ۔ بامقصد فکری موضوعات سے خالی ، غیر منقوط نظم ونثر ،مسدس شکل کی شاعری وغیرہ جیسے بوسیدہ ادبی تجربوں نے عوام کو گمراہ کرنے اور انہیں مجہول آئیڈیلز کے پیچھے لگا کر حقیقی جدوجہد سے دور کرنے کی کوشش کے سوااور کچھ نہیں ۔ ان بے مقصد ، نظریاتی جدوجہد سے عاری ، عوام دشمن ادبی اور شعری سرگرمیوں سے ہم نہ تو کسی بڑے ادب پارہ کی توقع رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی اعلیٰ ادبی وعلمی شخصیت کاظہور ممکن ہوسکتا ہے ۔اردومزاحمتی شاعر ی کے سرخیل اور شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی(شبیر حسن خان آفریدی) کی ترجمانی کچھ یوں ہے ۔

مجھے اندھوں کی محفل میں نچایا
مجھے بہروں کی محفل میں گوایا
جہاں سوسال بعد آنا تھا مجھ کو
وہاں سوسال پہلے کھینچ لایا 

عرب دنیا کے ایڈورڈ سعید جیسے دانشور مشرق کی اس محرومی اور پسماندگی کاذمہ دار مغرب کو قرار دیتے ہیں ۔ مسلمان حکمرانوں کے ہاتھ مسلمانوں کااستحصال اور صرف تین خاندانوں (بنو امیہ ، بنو عباس اور عثمانیہ) کی تیرہ سو سال تک خاندانی حاکمیت پر اپنی آنکھیں بندکردیتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوآ بادیاتی دور میں افریقہ ، لاطینی امریکہ ، برصغیر اور عر بیہ کے ممالک اور اقوام کی پسماندگی میں مغرب کے چند سامراجی ممالک کاظالمانہ وجابرانہ کردار ہے مگر یہ قصہ سوسال کے برطانوی دورتک ہرگز محدود نہیں۔ اس سے بہت پہلے اور اس کے بعد بھی مشرقی ممالک اور خاص طو ر سے مسلم ممالک میں عوام دشمن حکمرانی ، معاشی ناآسودگی اور سماجی پسماندگی کی حالت یکساں ہے ۔ لہذا اس کی تمام تر ذمہ داری انگریزوں ، فرانسیسیوں یامغرب پرعائد کرنا نہ صرف غلط ہے بلکہ اپنے حکمرانوں کے فرسودہ طرز حکمرانی ، یک صنفی سیاست، قبائلی و جاگیردانہ ذہنیت، خاندانی حاکمیت ، دانشوروں کی تعصبانہ فکر ونظر اور داخلی خرابیوں پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے ۔

علی عباس جلالپوری نے عرب دنیا کو ابن خلدون کی عینک سے دیکھنے کی وضاحت یوں کی ہے کہ ’’ ابن خلدون کاانداز نظر سائنٹفک ہے ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ خود عرب نژاد تھا اور اپنا شجر نسب ماہ قبل اسلام کے عربوں تک پہنچاتا تھا ۔ اس کے باوجود کہتا ہے کہ عرب تہذیب وتمدن کے دشمن ہیں اور دنیا اسلام میں اہل عجم علوم وفنون کے حائل ہوئے ہیں ۔‘‘(4)۔

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مشرق میں علم وادب کے فروغ کو رُکنے اور نقصان پہنچانے میں جو حصہ مقامی حکمرانوں او رخاندانی حاکمیت کارہا ہے ۔ اس کاموازنہ کسی بھی بیرونی قوت سے نہیں کیاجاسکتا ۔ مسلم دنیا تو آج بھی حکمران کے انتخاب اور انتقال اقتدار کے فارمولے سے محروم ہے۔ اہل مشرق کی تاریخ میں اقتدار اور اس کے پھیلاؤ کیلئے ایک دوسرے کے خلاف جنگ وجدل ، قتل وغارتگری ، لوٹ مار کے واقعات مشرقی تاریخ کاحصہ ہے ۔ وسطیٰ ایشیا ء سے لیکر ہندوستان تک ، ایران سے لیکر عربیہ تک علمی مراکز کومسمار کرنے ، عجائب گھروں کولوٹنے ، نت نئے سائنسی ایجادات پر فتوے جاری کرنے، اولسی وخلقی دانشوروں کو ذلیل کرنے ، لائبریریوں کو جلانے کے افسوسناک واقعات شاید دنیا کے کسی دوسرے خطے میں وقوع پذیر ہوئے ہوں ۔

واضح رہے کہ میں ذاتی طورپرانسانی دنیا کو مشرق اورمغرب کے نام سے منسوب کرنے ، سائنس وفلسفہ کو مسلم اور غیر مسلم میں تقسیم کرنے ، مغرب کی اندھی تقلید اور نقالی کرنے کے سخت خلاف ہوں تاہم دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ٹکڑے بالخصوص براعظم یورپ کی لائق تحسین پیش رفت کو کسی صورت بھی جھٹلایانہیں جاسکتا۔ مغرب کے استحصالی اور سامراجی ملکوں کے سو سال پہلے کے ترقیاتی منصوبوں کے ثمرات سے آج بھی ان کی پر انی کالونیوں کے لوگ مستفید ہورہے ہیں جبکہ اس سوال کا جواب میں اپنے قارئین پر چھوڑتاہوں کہ مسلمان براعظم ایشیا ، افریقہ اور یورپ وغیرہ کے جن علاقوں اور ملکوں پر قابض رہیں ان میں آج ترقی اور انسان دوستی کے کونسے نقوش باقی ہیں ؟ یا کونسی معاشی وسائنسی بنیادیں فراہم کیے جن پر بحیثیت مسلمان ہم ناز وفخر کرسکیں؟

آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ سماجی ومعاشرتی ترقی میں دلچسپی رکھنے والے فکر وقلم کے مالک فوری طور پر بالا دست حکمران طبقے سے الگ ہوکر زیرکشوں سے جڑ کر آزادی کے ساتھ علمی وفکری بحثوں کاآغاز کریں ۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ معاشی ترقی کے مختلف تاریخی معاشی مراحل کو طے کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ۔ فکری ا ور علمی کاوشوں کے ذریعے معاشرے کی عظیم اکثر یت کو بنیادی تبدیلیوں کیلئے جدوجہد پر آمادہ کرنا اور انفرادیت کے بجائے خلقی سوچ اور عمل کو فروغ دیاجائے ۔ نظریہ دان اور سائنسدان پیدا کرنے کے خواب کی سچی تعبیر دینے کیلئے اور تبدیلی کااصل عمل کویقینی بنانے کیلئے بالا دست کو زیر دست بنانا اولین شرط ہے ۔
حوالہ جات
۔1۔ حمیرا اشفاق ترتیب وتدوین، ترقی پسند تنقید ، پون صدی کا قصہ(1936-1911)فکری ونظری مباحث ، 2012سانجھ پبلی کیشنز لاہور ، ص429
۔2۔ ڈاکٹر مبارک علی ، یورپ کاعروج، تاریخ پبلی کیشنز لاہور ، 2012، ص12
۔3۔ولاد میر لینن ، اقوام مشرق کی تحریک کی آزادی،ترجمہ صابرہ زیدی، فکشن ہاؤس لاہور ، 2011، ص280
۔4۔ علی عباس جلالپوری ، روح عصر ، تخلیقات لاہور ، 2013، ص92

6 Comments