پرانے خیالات اور نئی خواہشات سے چھٹکارہ

بیرسٹر حمید باشانی

اگر مسرت کی بنیاد خوشگوار احساس پرہے تو خوش رہنے کے لیے ہمیں اپنے بائیو کیمیکل نظام کو از سر نو ترتیب دینا ہو گا۔ اگر زندگی کا کوئی مقصد ہونا خوشی کی بنیاد ہے تو خوش رہنے کے لیے ہمیں مزید کئی سرابوں کی ضرورت ہو گی ، وہ سراب جنہیں ہم مقصد زندگی کہتے ہیں۔ خوشی کے بارے میں یہ دوالگ الگ طرز فکر ہیں۔ مگردونوں اس بات پر متفق ہیں کہ خوشی ایک موضوعی یا نفسی چیز ہے۔ 

بہت سارے لوگوں کے لیے یہ ایک منطقی بات ہے، کیونکہ ہمارے دور کا غالب رحجان لبرل ازم ہے۔ اور لبرل ازم افراد کی نفسی یا موضوعی احساس کو مقدس قرار دیتا ہے۔ وہ اسے صریحی اختیار کا اعلی ترین زریعہ مانتا ہے۔ کیا اچھا ہے، کیا برا ہے، کیا خوبصورت ہے، کیا بد صورت ہے۔ کیا ہونا چاہیے، اور کیا نہیں ہونا چاہیے، ہمار احساس ہی اس کا تعین کرتا ہے۔ 

لبرل سیاست کی بنیاد یہ ہے کہ ووٹر سب جانتا ہے۔ ہمارے لیے کیا اچھا ہے؟ یہ بتانے لے لیے ہمیں کسی بڑے بھائی کی ضرورت نہیں ہے۔ لبرل معاشیات کی بنیاد یہ ہے کہ گاہک ہمیشہ صحیح ہوتا ہے۔ لبرل آرٹ کا دعوی ہے کہ خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ لبرل سکول اور جامعات میں طلبہ کو اپنے لیے سوچنے کا درس دیا جاتا ہے۔ اشتہارات ہمیں خرید اری پر مجبور کرتے ہیں۔ فلمیں ڈرامے، ناول اور گانے ہمیں مستقل کوئی نہ کوئی تلقین کرتے رہتے ہیںیاکوئی عقیدہ سیکھاتے رہتے ہیں۔ اپنے آپ سے سچ بولو۔ اپنے آپ کو سنو۔ ہمیشہ وہ کرو جو آپ کا دل چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

ان ہی خیالات کااظہاربہت پہلے جان جیک روسو نے زیادہ کلاسیک انداز میں کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس چیز کو میں اچھا سمجھتا ہوں ، وہ اچھی ہے۔ جس چیز کو میں برا سمجھتا ہوں ، وہ بری ہے۔ جو لوگ اپنے بچپن سے یہ نعرے سنتے آئے ہیں، وہ اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ خوشی موضوعی چیز ہے۔ ہر فرد یہ خود جانتا ہے کہ وہ خوش ہے یا دکھی۔ یہ لبرلز کا منفرد نقطہ نظر ہے۔

تاریخ میں بیشتر مذاہب اور نظریوں کا خیال رہاہے کہ اچھائی اورخوبصورتی کا ایک معروضی پیمانہ ہے۔ وہ عام آدمی کے احساسات اور ترجیحات کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ عام آدمی ان پڑھ ہے، اپنے اندر کے اصل انسان سے نا واقف ہے، اس لیے وہ مسرت سے بھی نا واقف ہے۔ سینٹ پال اور سینٹ آگسٹائن اچھی طرح جانتے تھے کہ اگرعام آدمی پر چھوڑ دیاجائے تو ان کی اکثریت جنسی تسکین کو عبادت کرنے پر ترجیح دے گی۔ 

تو اس سے کیا یہ ثابت ہوتا ہے کہ مباشرت خوشی کی کنجی ہے ؟ سینٹ پال اور آگسٹائن کے مطابق تو ایسا نہیں۔ ان کے نزدیک اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان فطری طور پر پاپی ہے۔ اور شیطان لوگوں کو آسانی سے بہکا دیتا ہے۔ عیسائیت کے نقطہ نظر سے لوگوں کی اکثریت کی کم و بیش وہی حالت ہے ، جو ہیروئین کے نشے میں مبتلا لوگوں کی ہوتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی ماہر نفسیات ان کی مسرت یا خوشی پر تحقیق کرے۔ وہ ان سے خوشی کے بارے میں اس وقت رائے لے جب وہ ہیروئین پی کرنشے سے جھوم رہے ہوں، اور پھر ریسرچ پیپر چھاپ دے کہ خوشی کی کنجی تو دراصل ہیروہین کے نشے میں ہے۔ 

انسان کے احساس پر شک صرف عیسائیت تک ہی محدود نہیں۔ جب احساس کی قدرو قیمت کی بات آتی ہے تو ڈارون اور ڈاکنز بھی سینٹ پال اور سینٹ آگسٹائین سے اتفاق کر سکتے ہیں۔ خود غرض جینز تھیوری کے مطابق انسان اپنے جینز میں موجود خصوصیات کی دوبارہ پیداوار پر مجبور ہوتا ہے۔ اکثر لوگ خوشی و مسرت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے مزدوری کرنے، مقابلہ بازی، لڑنے جھگڑنے میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ ان کو ایسا کرنے پر ان کا اپنا ڈی این اے ہی مجبور کرتا ہے۔ شیطان کی طرح ڈی این اے بھی لوگوں کو عارضی خوشی اور لطف سے اکسا کر ان پر قابو پاتا ہے۔ 

بیشتر مذاہب اور فلسفے مسرت کے بارے میں لبرل ازم سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ بدھ ازم کا نقطہ نظر خاص طور پر دلچسب ہے۔ بدھ ازم نے مسرت کے سوال کو باقی تمام مئقدات سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس سوال پر انہوں نے دو ہزار پانچ سو سال تک غور کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی برادری کو ان کے فلسفے اور ودیان میں بہت دلچسپی ہے۔ بد ھ ازم بھی مسرت کے بارے میں اپنی بات بائیولوجیکل نقطہ نظرکی پرکھ سے شروع کر تا ہے، مگر آخرمیں بالکل مختلف نتا ئج نکالتا ہے۔ وہ مانتا ہے کہ خوشی انسان کے اندر ہوتی ہے ۔ 

بدھ ازم کے مطابق بیشتر لوگ خوشی کی شناخت خوشگوار احساس سے اوردکھوں کی شناخت نا خوشگوار احساس سے کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک اہم بات یہ ہے کہ ان کے احساسات کیا ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ خوشی اور مسرت کی آرزو رکھتے ہیں اور دکھ دردسے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زندگی میں ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ خوشگوار احساس کے لیے ہوتا ہے۔ بدھ ازم کے مطابق ہمارا حساس ایک ارتعاش سے زیادہ نہیں ہوتا۔ یہ سمندر کی لہروں کی طرح ہر لمحہ بدلتا ہے۔ ہم ایک لمحہ خوش رہتے ہیں ، دوسرے لمحے اداس۔ چنانچہ خوش رہنے کے لے ہمیں ہمہ وقت خوشی کا تعاقب کرنا پڑتا ہے۔ دکھ کی وجہ درد، اداسی یا یا بے معنی زندگی نہیں ہے۔ دکھوں کی اصل جڑ ہماری عارضی خوشی کی نہ ختم ہونے والی تلاش ہے۔

یہ تلاش ہمیں بے آرامی اور بے اطمنانی دیتی ہے۔ جب ہم اداس ہیں تو خوشی کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ جب ہم خوش ہوتے ہیں تو خوشی کھو دینے کا خوف لگا رہتا ہے۔ تو راستہ یہی ہے کہ انسان کو اپنے احساسات کو سمجھنا ہو گا، ان کی اہمیت سمجھنی ہو گی اور ان کی شدید اور اندھی آرزو ترک کرنی ہو گی ، ان کی شدت میں کمی لانی ہو گی، ان پر قابو پانا ہو گا۔ بدھ ازم میں مراقبہ کا بھی یہی مقصد ہے۔ مراقبے کے دوران اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی تلاش کتنی بے معنی ہے۔ اور جب آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ آپ کی خواہشات حقیقت میں اتنی اہم نہیں ہیں، خوشی کے لیے ان کا پورا ہونا اتنا بھی ناگزیر نہیں ہے تو آپ کا دماغ صافٖ اوردل مطمئن جاتاہوتا ہے۔ اور آپ خواہشات پوری کیے بغیر بھی پر مسرت زندگی گزارسکتے ہیں۔

نوح ہاریری کی کتاب نوع انسان کی مختصر تاریخ کے انیسویں باب سے اکتسابات اور خیالات کو اپنے الفاظ میں اس کالم میں پیش کیا گیا ہے۔ بحث سمیٹتے ہوئے عرض ہے کہ اس باب میں خوشی اور مسرت کے بارے میں معروف نظریات، خیالات اور فلسفوں کو پیش کیا گیا ہے۔ پرانے اور معلوم خیالات کو ایک نئے انداز سے دیکھنے دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کوئی نئی بات نہیں کہی گئی اور نہ ہی کوئی نیا خیال پیش کیا گیا ۔ اور بقول شخصے، ہمارا اصل مسئلہ بھی کوئی نئی بات کرنا یا نئے خیالات ڈھونڈنا نہیں ، بلکہ پرانے خیالات سے چھٹکارا پانا ہے۔ اس باب میں ہاریری نے لبرل ازم کو مذہب کہا ہے۔ کئی اور مارکسزم کو بھی مذہب قرار د یتے تھے، اس اہم موضوع پر کسی الگ کالم میں مفصل بات ہو گی۔

One Comment