“اُن” میں سے ایک لڑکی


میں مسئلہ ساز ہوں

میرا ایسا بننے کا کوئی ارادہ نہ تھا، میں بس ایسی ہی ہوں، کبھی کبھار میں چاہتی ہوں کہ میں ایسی نہ ہوتی۔

میں ایک مصری کینڈین ہوں جس کا تعلق مقابلتاً ایک لبرل گھرانے سے تعلق ہے۔ مقابلتاً کا لفظ عرب مسلمان گھرانوں سے تقابل کےسلسلے میں استعمال کیا ہے۔ مجھے وہ آزادی حاصل رہی ہے جسے کچھ عرب لڑکیاں نعمت گردانتی ہیں۔ میں اکثر اپنی مرضی کا لباس پہنتی ہوں، اور اپنے دوست خود چنتی ہوں، جب جی چاہے باہر جاتی ہوں اور دوستوں کے ہاں سو بھی سکتی ہوں۔ میں ایسا نہیں کہتی کہ سب عرب لڑکیاں مظلوم ہیں۔ زیادہ تر لڑکیوں کو کافی آزادی میسر ہے جیسی کہ ہونی چاہیئے۔ لیکن کچھ عرصہ سے مجھے لگ رہا ہے کہ اس آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے۔ 

ہم عرب مسلمانوں کا تعلق ایک ایسی ثقافت سے ہے جس کا سارا زور ظاہر داری پر ہے۔ آپ کی آزادی کی حدود متعین ہیں۔ گو اس کا اظہار نہیں کیا جاتا لیکن ہر کسی کو ان کا پتہ ہے۔ آپ انہیں ریت پر کھینچی ہوئی لکیریں بھی کہہ سکتے ہیں لیکن وہ پختہ اینٹوں کی دیوار اور خاردار باڑ کی طرح بھی ہو سکتی ہیں۔ جو اچھی لڑکیوں اور ”اُن“ لڑکیوں کے درمیان کھنچی ہوتی ہیں۔ جوان عمری/ بیس سال سے اوپر آپ ان کہے قواعد کے مجموعے کی غلام ہوتی ہیں۔

آپ کیلئے حجاب پہننا ضروری نہیں ( خبردار نیکر، منی سکرٹس اور چھوٹے ٹاپس نہیں پہننا) ؛ تم جہاں جانا چاہو جا سکتی ہو (سوائے دس بجے کے بعد، سوائے کسی بار یا ایسی چھٹی منانے کی جگہ پر جہاں شراب پی جاتی ہو جیسے نئے سال کی شام یا سینٹ پیٹرک ڈے)؛ تم جس سے چاہو دوستی کر سکتی ہو ( لیکن انہیں ”بہت زیادہ مغربی“ یا مرد نہیں ہونا چاہیئے)۔ تمہیں کبھی کس لڑکے ساتھ اکیلے نظر نہیں آنا چاہیئے، پارٹی پر نظر آنے کو تو بھول ہی جائیں، بوائے فرینڈ کا ہونا، گھر سے باہر کسی کے ہاں سونا یا یونیورسٹی کیلئے گھر سے منتقل ہونا سب شجر ممنوعہ ہیں۔

اس قسم کے باتیں ہر عرب گھرانے کا ایک ڈراونا خواب ہے: ان کی بیٹی ”ان“ لڑکیوں جیسی ہو گئی۔

اُن“ لڑکیوں جیسی لڑکی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کیلئے آنے والے رشتے غائب ہو جائیں گے ( جو عرب گھرانوں کیلئے طاعون کی بیماری کی مانند ہے) کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ عربوں میں شادی دو خاندانوں کی آپس میں شادی ہوتی ہے۔ اور اگر ماں کسی رشتے کو ناپسند کرتی ہے کیونکہ اس نے سُن رکھا کہ مریم 16 سال کی عمر میں ایک پارٹی میں گئی تھی تو بس کھیل ختم۔

اگرچہ ہم دنوں سے آگے نکل آئے ہیں جب آپ کیاپنے ”منگیتر“ سے ملاقات کے تین ماہ بعد شادی ہو جایا کرتی تھی۔ والدین (خصوصاً ماں) ابھی تک بچوں کے رشتے تلاش کرنے اور چننے میں بہت زیادہ ملوث ہیں۔

یہ ایسے ہوتا ہے، بیٹا ماں کے پاس جا کر کہے گا ”ماں، میں لڑکی ڈھونڈ کر گھر بسانا چاہتا ہوں“۔ اس کے بعد ماں اپنی نزدیک ترین سہیلی سے کہے گی۔ ” احمد لڑکی تلاش کرنا چاہ رہا ہے، کیا تم کسی ایسی لڑکی کو جانتی ہو جو اس کی ہم عمر ہو؟“۔ تب سہیلی شہر میں موجود ان لڑکیوں کی ایک فہرست دے گی جو اس کی عمر سے پانچ سال کے اندر ہو۔ عموماََ لڑکیوں کا نام منظور کر لیا جاتا ہے۔ ” اوہ ماشاء اللہ، یہ لڑکی ذہین ہے، یہ سائنس پڑھ رہی ہے“، ” میں اسے مل چکی ہوں بہت مہذب ہے“ اور اس کی ماں کو سنو، ” یہ بہت خوبصورت اور خوش مزاج لگتی ہے“۔

تاہم ہمیشہ ایک ایسی لڑکی ہوتی ہے جس کا نام سن کر تعریف نہیں نکلتی، اس کیلئے ماشاء اللہ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ بیشک کوئی یہ بھی نہیں کہے گا کہ وہ ایک کنجری ہے، شراب و سگریٹ پیتی ہے، فلرٹ کرتی ہے، ڈرگ استعمال کرتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ اس کی بجائے ایسے فقرہ کہیں گے ”اللہ تمہاری بیٹی کو محفوظ رکھے“۔

ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا، چمکتا، سرخ خطرے کا نشان ہے۔ کیونکہ وہ ”اُن“ لڑکیوں میں سے ایک ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کتنے سال پہلے اُس نے وہ ”بہت بڑی اور بری حرکت“ کی تھی۔ جو ہمیشہ اس کا پیچھا کرتی رہے گی۔ ایک ایسی کمیونٹی جس میں نہ صرف ہر کوئی بلکہ آپ کی بہنیں، ماں، کزن اور آپ کا ڈاکٹر بھی آپ کو جانتا ہے، وہاں اپنے ماضی سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہے۔ وہ بیچاری لڑکی 16 سال کی عمر میں ایک پارٹی میں گئی، اس کا رشتہ کبھی نہیں ہو گا، اس کی ماں ہر گزرتے سال میں مزید دکھی ہو تی جائے گی

یہ قابل قبول ہے۔
لوگ سوال نہیں اٹھاتے۔
یہاں میری کہانی شروع ہوتی ہے۔

حال میں ہی میرے والدین نے اشارتاََ مجھے کہا کہ مجھے اپنی سہیلی کے ہاں کم سونا چاہیئے، مجھے اپنے لباس کے سلسلے میں مزید محتاط ہونا چاہیئے۔ اور اصرار کیا کہ میں یونیورسٹی کے سلسلے میں گھر پر ہی رہوں۔ شروع میں مجھے لگا کہ وہ مجھ پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں، لیکن پھر ایک دن میرے باپ نے مجھے راز بتا ہی دیا۔ اس نے کہا ” تمہیں پتہ ہے کہ چند سالوں بعد لوگ تمہارا رشتہ مانگیں گے، اس لئے تمہاری شہرت بُری نہیں ہونی چاہیئے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ میں کسی ایسے انسان کے ساتھ کیوں شادی کروں جو مجھے پرکھے۔ میں ایسے خاندان میں کیوں شادی کروں۔ کیا میں اپنی شادی کے استحکام کی خاطر اپنی زندگی پر پابندیوں کا عائد کیا جانا قبول کر لوں۔

مجھے ریت میں کھینچی گئی لکیریں نظر آ رہی ہیں جنہیں میں مٹا دینا چاہتی ہوں۔ میرے جسم کا کوئی بھی حصہ اسے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ میں نے تب بھی کسی کی پیروی نہیں کرتی جب میرے خیالات غیر ناپسندیدہ سمجھے جائیں۔ میں ایک ایسے متعصبانہ اور مجھے پرکھنے والے کلچر کو خوشی خوشی قبول نہیں کر سکتی۔ خصوصاََ جب ان میں سے کوئی بھی قاعدہ لڑکوں پر لاگو نہیں کیا جاتا۔ ایک لڑکا، جو چاہے، جس کے ساتھ چاہے، جب چاہے، کر سکتا ہے اور جونہی وہ گناہ سرزد ہوا اسی لمحے اس کے گناہ بھلا دیا گیا۔

میں نہیں جانتی کہ اپنے والدین کو کیسے بتاؤں کہ میں رشتوں کے اسے الجھی رسم کو نہیں مانتی۔ میں کسی ایسے انسان کو تلاش کرنا چاہتی ہوں جو میں جیسی بھی ہوں وہ مجھ سے پیار کرے۔ جو اس وجہ سے نہ بھاگ جائے کہ میں گھر سے باہر سوتی رہی ہوں۔ یہ خیالات ایک مسئلہ بن گئے ہیں جو میرے والدین کے نزدیک میرے اور میری ایک کامل عرب زندگی کا جو انہوں نے منصوبہ بنایا ہے ، کے درمیان رکاوٹ بن گئے ہیں۔ کبھی کبھی میں چاہتی ہوں کہ میں ایسی نہ ہوتی، کہ میں ان قواعد کی پابندی کر سکتی، کوئی سوال نہ اٹھاتی اور صورت حال کو جوں کا توں قبول کر لیتی۔

لیکن مجھے اپنے آپ کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ وہ لڑکیاں جو ایسے گھروں میں پلی بڑھیں جہاں میرے گھر کی نسبت کم آزادی تھی۔ تمام وہ لڑکیاں جنہیں ایسی باتوں پر بحث کرنا تو درکنار انہیں ایسے سوچنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ مجھے اپنی امتیازی حالت کو تسلیم کرنا ہو گا اور اس استعمال کرنا ہوں تاکہ وہ بھی اس سے بہرہ مند ہو سکیں۔ میری جنگ صرف میری نہیں ہے؛ یہ میری بہنوں کیلئے بھی ہے، میری کزنز، میری سہیلیاں اور تمام اُن لڑکیوں کیلئے بھی ہے جنہیں کبھی بتایا گیا کہ فلاں لباس نہ پہنو کیونکہ خالہ یہ سوچے گی کہ تم ”اُن“ لڑکیوں میں سے ایک ہو۔

مجھے کبھی سمجھ نہیں آئے کہ ان چیزوں کی اس قدر اہمیت کیوں دی جاتی ہے۔ آپ کی جنسی تاریخ اور بچپن میں پارٹیوں میں حصہ لینے کی عادت کا ایک اچھی بیوی اور ممکنہ طور پر ماں بننے کی اہلیت سے کیا لینا دینا ہے؟۔

کیا ماضی میں آپ کے بوائے فرینڈز کی تعداد آپ کے اپنی ازدواجی زندگی کو قائم رکھنے کی اہلیت کو متاثر کرتے ہیں؟۔
مجھے اس کی سمجھ نہیں آتی
مجھے سمجھ آئے گی بھی نہیں۔
میں سمجھنا چاہتی بھی نہیں 
میں مسئلہ ساز ہوں، لیکن کوئی بات نہیں کیونکہ جنہوں نے بھی تاریخ کو تبدیل کیا ہے وہ ایسے ہی تھے۔ 
۔۔اسماء مبروک۔۔
(
انگریزی سے ترجمہ:خالد تھتھال)

Comments are closed.