پاکستان اور کرپشن:تصویر کا ایک اور رخ

لیاقت علی ایڈووکیٹ

 
قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی کابینہ سیکرٹریٹ کی ذیلی کمیٹی نے کہا ہے کہ دیگر اداروں کے ملازمین کی طرح اراکین پارلیمنٹ کو بھی پلاٹس دیئے جائیں اور سی ڈی اے اراکین پارلیمنٹ کے لئے ایک الگ کالونی بنائے۔ذیلی کمیٹی کا اجلاس رکن قومی اسمبلی رشیداحمد کی صدارت میں منعقد ہوا۔اجلاس کے دوران اراکین نے کہا کہ مسلح افواج،ججوں اور بیورکریٹس کو پلاٹس الاٹ کئے جاتے ہیں لیکن اراکین اسمبلی کے لئے کوئی سکیم نہیں ہے

قیام پاکستان کے ساتھ ہی پلاٹوں، پرمٹوں اورغیرمسلم تارکین وطن کی جائدادوں پر ہاتھ صاف کرنے کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ریاستی وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہمارے سیاسی رہنماوں کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ قیام پاکستان کےبعد جومڈل کلاس بنی اس میں غیرمسلم پراپرٹیزپر قبضہ نے بنیادی رول ادا کیا تھا۔

جنرل ایوب خان نے اپنی سیاسی حمایت کے حصول کے لئے روٹ پرمٹ، امپورٹ ایکسپورٹ پرمٹ اور پلاٹوں کو استعمال کیا۔جنرلایوب نے صنعتی اوررہائشی پلاٹ سیاسی رہنماوں،بیوروکریٹوں اورجنرلوں میں دل کھول بانٹے۔ جب بھٹو برسراقتدارآئے تو انھوں نے قومی اسمبلی کے ارکان بالخصوص پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کو انتہائی سستے داموں( صرف ڈویلپمنٹ چارجز کے عوض) اسلام آباد میں پلاٹ الاٹ کئے جوبعدا زاں انھوں نے اوپن مارکیٹ میں بیچ دیئے۔صوبائی اسمبلی کے اراکین کو صوبائی دارالحکومت میں پلاٹ دیئے گئے۔ ریواز گارڈن، علامہ اقبال ،گلشن راوی، شادمان سکیم میں پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی، صحافیوں،ادیبوں اور پیپلز پارٹی کے ہمدرد وکلا میں برائے نام قیمتوں پر پلاٹس تقسیم کئے گئے۔

جب نواز شریف 1985 میں وزیر اعلی پنجاب بنے تو انھوں نے اپنی سیاسی حمایت پیدا کرنے کے لئے ایل ڈی اے کے پلاٹوں اور سرکاری نوکریوں کی لوٹ سیل لگادی۔ انھوں نے ایل۔ڈی۔اے سکیموں میں تھوک کے حساب سے پلاٹس اراکین قومی اسمبلی، مسلم لیگی کارکنوں اورصحافیوں میں تقسیم کئے۔ ہررکن صوبائی اسمبلی کے کسی ایک رشتہ دار کو نائب تحصیل دار،اےایس آئی یا ایکسائز آفیسر بھرتی کرانے کا آپشن دیا گیا۔

سبھی ارکان صوبائی پلاٹوں اور ان پرکشش نوکریوں کی گنگا میں ہاتھ دھوئے تھے۔ بعدازاں جب نواز شریف 1988 میں دوبارہ وزیر اعلی پنجاب بنے تو وزیر اعظم بے نظیر سے سیاسی مقابلہ کے لیے ایک بار پھر انھوں نے ایل ڈی اے سکیموں کے پلاٹوں کو استعمال کیا۔صرف ایک سکیم سبزہ زار میں ایک ہزار پلاٹس وکلا میں تقسیم کئے گئے۔ صحافیوں کو جو پلاٹس سزہ زار اور ایل۔ڈی۔اے میں دئے گئے وہ ان سے الگ تھے۔

شاذ ہی کوئی صحافی ایسا ہوگا جسے نواز شریف نے پلاٹ نہ دیا ہو۔ بے نظیر بھی اس کام میں پیچھے نہیں رہی تھیں۔انھوں نے بھی پیپلزپارٹی کے ان کارکنوں کو جنھوں نے ضیا کے مارشل لا میں قید بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں انھیں مختلف سائز کے پلاٹ اسلام آباد میں الاٹ کئے تھے جو بیشتر نے بیچ دیئے تھے۔

نواز شریف نے بیوروکریسی میں حمایتی حلقہ پیدا کرنے کے لئے گریڈ بائیس کے ہر بیوروکریٹ کو اسلام آباد میں دو پلاٹس الاٹ کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا اور یہ پلاٹس جو کروڑوں کی مالیت کے تھے دے بھی دیئے۔ اسی طرح صحافی کالونی لاہور چوہدری پرویز الہی نے وزیر اعلی کی حیثیت سے بنائی جس میں لاہور پر یس کلب کے اراکین کو پلاٹ الات کئے گئے جن کی بڑی تعداد بک چکی ہے۔صحافی کالونی میں ان صحافیوں نے بھی پلاٹ حاصل کئے جو اس سے پہلے متعدد مرتبہ حکومت سے ایک سےزائد پلاٹس لےچکے تھے۔

جرنیلوں کی کرپشن کی اپنی کہانی ہے۔ سرکاری زمین پر سرکاری وسائل سے  ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز بنا کر افسروں میں پلاٹوں کی بندر بانٹ کی جاتی ہے۔ جب چیف آف آرمی سٹاف ریٹائر ہوتا ہے تو اس کو  نہ صرف چار کنال کا تیار شدہ گھر ملتا ہے۔ اسی طرح میجر جنرلز اور بریگیڈئیر کو انتہائی سستے داموں کینٹ کے پر کشش ایریاز میں بنے بنائے مکان انتہائی ارزاں نرخوں پردیئے جاتے ہیں جو بعد ازاں فروخت کے لئے اوپن مارکیٹ میں پہنچ جاتے ہیں،۔

پلاٹس کی لوٹ کھسوٹ ہماری سیاسی اور حکومتی اشرافیہ کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے ۔ اپنی اس لوٹ کھسوٹ کو تحفظ دینے کے لئے وہ سماج کی ان پرتوں کو بھی رشوت دیتے رہتے ہیں جو زیادہ بولتے یا تنقید کرتے ہیں اور ان کے لئے کسی نہ کسی حوالے سے خطرہ بن سکتے ہیں وکلا اور صحافی ان میں سر فہرست ہیں اس لئے وہ اپنے دستر خوان سےان کی طرف بھی ٹکڑے پھینکتے رہتے ہیں۔

Comments are closed.