انحراف کے رحجانات کا شکار انقلابی سیاست

آفتاب احمد 

کافی دنوں سے دماغ میں ایک سوال بار بار گردش کررہا تھا کہ جموں کشمیر میں قوم پرست اور ترقی پسند سیاسی جماعتوں تنظیموں اور ان کی قیادت جن رحجانات کا شکار ہے اس کو کیا نام دیا جائے ۔ کافی لوگوں کو اس ضمن میں پڑھنے کے بعد ایک بات سمجھ آئی انحراف ۔

انحراف کیا ہوتا ہے مختلف کتابوں کو چھاننے کے بعد یہ سمجھ آئی کہ (شاید غلط سمجھا گیا ہو تصحیح کی جاسکتی ہے) طے شدہ مکمل جاری اجتماعی ضابطہ اخلاق یا طر یقے کار سے نکل کر من پسند اور مرضی کےحاشیوں پر بیٹھنا انحراف ہے۔یعنی مکمل او ر جاری اصولوں کی بجائے اپنی مرضی اور خواہشات کامسلط کرنا۔

اصولوں کی حساسیت اور اہمیت سے آگاہ نہ ہونے کے باعث مسلط کردہ مرضی اور من پسندی صرف گروہ بندی یا گروپ بندی کو فروغ دیتی ہے۔اب ہم اس کو دیکھتے ہیں کہ جموں کشمیر میں ہمارا موضوع سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادت کیسے انحراف کرتی ہے اور اس کے باعث کیا نقصانات ہوتے ہیں ۔

ہر سیاسی پارٹی کا ایک آئین و منشور ہوتا ہے ، جس پر کاربند رہتے ہوے اور اس کی روشنی میں اسے اپنے راستوں ، عمل اور ہدف کاتعین کرنا ہوتا ہے ،ایسا نہیں ہوتا کہ شتر بے مہار کی طرح جو جی چائے اسی کو اپنا لیا جائے ۔کبھی مشرق اور کبھی مغرب میں اللے تللے مارے جائیں ۔اور پھر درست نتائج کی توقعات رکھی جائے۔

جموں کشمیر میں تحریر کی حد تک منشور و آئین تو موجود ہیں لیکن پارٹیوں میں شخصیات بالا ہیں ،یہ صورتحال نہ صرف قیادت کی ہے بلکہ ساتھیوں یا کارکنان کی بھی ہے ۔اور حاوی رحجان اصولوں کی بجاے مر ضی اور من پسندی کو مسلط کرنے کا ہے ۔جس کے باعث اکثر ہماری جدوجہد گروہ بندی،گر وپ بندی اور نرگسیت کا شکار رہتی ہیں سیاسی پارٹیاں ۔نام سے قوم پرست اور ترقی پسند ہونے کے باوجود عمل میں غاصبوں کی آلہ کار بن جاتی ہیں ۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ ان سیاسی پارٹیوں کے منشور اور آئین مطلق ہیں ،بلکہ ان میں وقت اور حالات کے مطابق تبدیلی ضروری ہے اور وقت اور حالات کے مطابق فرسودہ اصولوں کو نکال کر باہر پھینکنا چاہیے ،اس میں وقت اور حالات کے مطابق تبدیلیاں کرنی چاہیے لیکن اس کے برعکس ہماری سیاسی پارٹیاں بیت المال کی چراگاہ بن کر رہ جاتی ہیں ۔جیسے کسی گاؤں میں بیت المال کی چراگاہ پر گاؤں کے جس آدمی کا جی چاہتا ہے اپنے ڈنگر کھول کر چھوڑ دیتا ہے چرنے کے لیے۔

ایسے ہی ہماری پارٹیوں کی بھی صورتحال ہے ۔پہلی بات ہے کہ تاحیات قیادتیں ہیں ۔یعنی نمبردار تعینات ہیں ،انھیں سوچ و فکر اور آئین و منشور کے حامی ساتھیوں کی نہیں بلکہ ثناخوانوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔جو نمبردار صاحب کی بلے بلے اور واہ میں مصروف ہوں اور پھر جو اچھا بلے بلے کر لے تو نمبردار صاحب کا نہ صرف خاص ہوتا بلکہ زمانے کا انقلابی بھی ہوتا ہے۔ہماری ناقص معلومات میں جب تک نمبردارصاحب روبصحت رہتے ہیں قیادت انہی کے پاس رہتی ہے ۔اور جب ان کی صحت بگڑ جائے تو وہ پھر بھی سرپرست اعلی ہوتے ہیں۔

یا کسی نہ کسی چپقلش اور خلفشار کے نتیجے میں کوئی جمہوری عمل دوہرا ہی دیا جاے تو جن نئے صاحب کو نمبرداری ملتی ہے وہ سیاسی پارٹی کو بیت المال کی چراگاہ ہی سمجھتے ہیں اور کمزور یعنی فارغ ہونے والے کے ڈنگر بھگا کر اپنے ڈنگر چراگاہ میں چرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں ۔نتیجہ چراگاہ میں گھاس بھی نہیں اگتا۔

ہمارے ہاں ساتھی یا کارکنان بھی اسی رحجان کاشکارہوکر گروپ بندی یا گروہ بندی میں الجھے رہتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ ہم آئین و منشور کی اہمیت و افادیت سے آگاہ نہیں ہوتے اپنے اہدا ف اور عمل کو مقصدیت کے تابع نہیں رکھتے ،اپنے راستوں کا تعین آئین و ضوابط کے تحت نہیں کرتے بلکہ اناء اور ہٹ دھرمی مسلط کرتے ہیں اس مقصد کے لیے حجتی بن کر لفظوں کی کرشمہ سازی میں میں مصروف رہتے ہیں۔

لوگوں کے ذہنوں پر آلودگی طاری کرنے کے جتن کرتے ہیں ۔لیکن تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے ۔وہ ایک نہ ایک دن اصولوں کی میزان سے زنگ اتار دیتی ہے اور عوام کوابہام کی سرحدوں کو پھلانگ کر شعور جیسی نعمت کے استعمال پر مجبور کردیتی ہے ۔جب عوام ابہام کی سرحدیں پھلانک جاتی ہے تو نمبردار اور اس کے ڈنگر تمام ناکامیو ں اور جہالتوں سے لاتعلق ہونےاور اپنے دامن کو داغ سے بچانے کے لیے معصومیت کا لبادہ اوڑھ کر ایسے نچوڑتے ہیں جیسے فرشتوں کی پیاس بجھائیں گئے۔

یہی جموں کشمیر کی معلوم تاریخ کا ننگا سچ ہے۔جب تک چراہ گاہ،نمبردار اور ڈنگر کا کھیل بند نہیں ہوگا۔ جب تک سیاسی کارکن نمبردارصاحب کی ثناخوانوں کی بجاے پارٹیوں کے آئین و منشور کے محافظ نہیں بنیں گئے اس وقت وہ ایندھن بنتے رہیں گئے۔انھیں اصولوں کی میزان سے زنگ اتارنا ہوگا اور خود کو عمل میں انقلابی ثابت کرنا ہوگا۔انقلابی اتنا باشعور ہوتا ہے کہ اسے اپنے دشمن اور دوست میں تمیز ہوتی ہے ۔اس لیے اس کا ہر عمل دشمن کو نقصان پہنچانے والا ہوتا ہے وہ چاہے طبقاتی دشمن ہو یا قومی ان کا ہر عمل ان دشمنوں کے لیے نقصان کا باعث ہوتا ہے ۔

لیکن ہم آج بھی قبیلائی اورفرقہ وارانہ نفسیات کے باعث قومی و طبقاتی تضاد کو واضح کرنے کی بجاے اس پر مٹی ڈالنے کے کام میں مصروف ہیں ۔بلکہ ان دشمنوںکی تاریخ کو لفظوں کی کرشمہ سازی کے ذریعے خوبصورت بنانے بلکہ پرکشش بنانے میں مصروف ہیں ۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سیاست بھی اصولوں کے بغیر لاحاصل ہوتی ہے اور سماج کا تجزیہ بھی تاریخ کے قواعد و ضوابط کو سمجھے بغیر ممکن نہیں اور فطرت کے قوانین جانے بغیر بھی سماج کے ممکنہ راستوں کا تعین ممکن نہیں ہے ۔

سیاسی پارٹی سے لیکر سماج تک بنیادی اصولوں سے نکل کر من پسندی مسلط کرنا انحراف ہے ۔یہ ایک ایسا زہرہے جس نے ہماری کئی نسلیں نگل لی ہیں ۔اس انحراف کے رحجان کو شعوری طور پر کچلنا ہوگا اس کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی ورنہ نمردار،ڈنگر اور بیت المال کی چراگاہ اجڑنے کا کھیل مزید نسلیں نگلے گا۔

Comments are closed.