‎پیشہ ور قاتلو تُم سپاہی نہیں 

مہر جان 

 

یہ طالبان کون ہیں ؟

بڑے جلاد ہیں ۔۔۔۔

دیکھیں اے پی ایس پشاور میں بچوں کو کیسے مارا

عورتوں کا تو بالکل احترام نہیں کرتے۔۔۔۔ 

یہ اپنے ہر عمل کی قرآن و حدیث سے جواز تراشتے ہیں 

مذہب ان کا ہتھیار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کے وکیل (دانشور) ان طالبان کو بہت سمجھاتے ہیں کہ دیکھیں ایسے واقعات سے بدنامی ہوتی ہے بس ہاتھ تھوڑا ہلکا رکھا کریں ۔۔۔۔۔۔۔

لیکن طالبان کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ ظلم و سفاکیت میں کسی سے کیوں پیچھے رہیں؟آخر پوری دُنیا کو فتح جو کرنا ہے اسلام کو نافذ جو کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

یوں طالبانی وکیل(دانشور) ان کی صفت و ثناء بھی کرتے ہیں اور انہیں اس قدر سفاکیت سے روکنے کی اک آدھ کوشش بھی کرتے ہیں 

یہ طالبان پاک فورسز کی طرح نئی ماہیت کیوں نہیں اپناتے ؟

دیکھ لیں ! حرکات ان (پاک فورسز) کی بھی یہی ہیں 

بچوں کو اُٹھانا۔۔۔۔۔۔ 

گھروں سے عورتوں کو اُٹھانا۔۔۔۔۔۔

بستیاں جلانا ۔۔۔۔۔۔

انہیں بھی روشن خیال دانشور ترقی پسند وکیل میسر ہیں جو انکی وکالت بھی کرتے ہیں کہ ریاست کے یہی محافظ ہیں بس آئین کے تحت اپنا فرض نبھاتے اور ساتھ انہیں سمجھاتے ہیں کہ ہاتھ ہولا رکھا کریں خود بلوچستان ایشو پہ بلوچ مظالم پہ مسلسل آواز نہیں اُٹھاتے تاکہ ان کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن ان کی بھی سمجھ شریف میں کچھ بھی نہیں آتا 

کیونکہ یہ طالبان سے دو ہاتھ آگے ہیں انہیں مذہب کے ساتھ ساتھ ریاست کی بھی دیکھ و بھال کرنی پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہوا جو ریاست کا بندوق کے زور پہ الحاق ہوا؟ 

کیا ہوا جو قرآن کے واسطے دے کر پہاڑوں سے نیچے اُتار کر پھانسیاں دی گئیں؟ 

مِسنگ پرسنز ،مسخ شدہ لاشیں اتنا تو حق بنتا ہے ان کو سفاکیت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔

ریاست پھر مذہب ان ناتواں کندھوں پہ جو آن پڑی ہے ۔۔۔۔۔۔

اب مسخ شدہ لاشوں سے بھی بلوچ بغاوت بڑھتی جارہی ہے مِسنگ پرسنز کی فیکٹری پہ فیکٹری لگانے سے بھی ان کی آواز دبی نہیں جارہی اب بچوں اور عورتوں کو اُٹھانا تو حق بنتا ہے ۔۔۔۔۔۔

تاکہ ریاست اور مذہب کو دوام ملے

اک اک دانشور کی زباں بندی کی گئی ہے. کیمرے کی آنکھ سے چغادری، دانشوری کے نام پہ دکھائی جارہی ہے لیکن پھر بھی سُلگتا بلوچستان سُلگ ہی رہا ہے ۔۔۔۔۔

راکھ ہونے کا نام نہیں لے رہا اس لیے اب بچوں اور عورتوں پہ پنچہ آزمائی کرکے مذہب اور ریاست دونوں ہماری۔۔۔۔ طالبان اور فورسز اک ہی تصویر کے دورُخ ہیں ۔۔۔۔

فراز نے بہت پہلے کہا تھا 

سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے

جن کا خوں منہ پہ ملنے کو تم آئے تھے

مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے

یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے

ان کی تقدیر تم کیا بدلتے مگر

ان کی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے

اس کا انجام جو کچھ ہوا سو ہوا

شب گئی خواب تم سے پریشاں گئے

کس جلال و رعونت سے وارد ہوئے

کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے

تیغ در دست و کف در وہاں آئے تھے

طوق در گردن و پابجولاں گئے

جیسے برطانوی راج میں گورکھے

وحشتوں کے چلن عام ان کے بھی تھے

جیسے سفاک گورے تھے ویت نام میں

حق پرستوں پہ الزام ان کے بھی تھے

تم بھی آج ان سے کچھ مختلف تو نہیں

رائفلیں وردیاں نام ان کے بھی تھے

پھر بھی میں نے تمھیں بے خطا ہی کہا

مرگ بنگال کے بعد بولان میں

شہریوں کے گلے کاٹنے آگئے

ٓاج سرحد سے پنجاب و مہران تک

تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو

اتنی غارتگری کس کی ایما پہ ہے

کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو

کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے

کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو

کیا خبر تھی کہ اے شپرک زادگاں

تم ملامت بنو گے شب تار کی

کل بھی غا صب کے تم تخت پردار تھے

آج بھی پاسداری ہے دربار کی

ایک آمر کی دستار کے واسطے

سب کی شہ رگ پہ ہے نوک تلوار کی

تم نے دیکھے ہیں جمہور کے قافلے

ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں

پپڑیوں پر جمی پپڑیاں خون کی

کہ رہی ہیں یہ منظر قیامت کے ہیں

کل تمھارے لیئے پیار سینوں میں تھا

اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں

آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے

اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں

خون اترا تمھاراتو ثابت ہوا

پیشہ ور قاتلوں تم سپاہی نہیں

اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہیئے

اب فقط مسئلہ تاج شاہی نہیں

 

Comments are closed.