پنجاب مزاحمت اور نفرت کا استعارہ

مہر جان

مزاحمت ہمیشہ مخالف قوت کے رد عمل میں ہوتی آرہی ہے یہ ازل سے اک قانون ہے کہ جہاں طاقت آزمائی اور استحصال ہوگا وہاں مزاحمت ہوگی اور جنگ ہمیشہ سے ڈارک فورسز جو ارتکاز طاقت پہ یقین رکھتی ہیں اُن کے اور محکوم کے درمیان جاری و ساری رہتی ہے۔

تشکیل ریاست سے لے کر اب تک اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان ڈارک فورسز کے خلاف اگر مزاحمت ہوئی ہے تو یہی کچلی ہوئی و محکوم اقوام نے ون یونٹ اور ہر مارشلائی دور کے خلاف سر انجام دی ہے۔ اور انہیں غدار وطن سے لے کر تنگ نظر و قوم پرست کے القابات سے نوازا گیا لیکن ان کے مقابلے میں پنجاب نے ہمیشہ اقتدار کے کھیل میں شریک ہوکر استحصالی کا کردار ادا کیا ہے اور روشن خیالی و ترقی پسندی دوسری اقوام کے دہلیز پہ قدم رکھتے ہی دم توڑ دیتی ہے۔

آخر سوال یہ ہے کہ پنجاب نے آج تک مزاحمت کا رستہ کیوں نہیں اپنایا؟ شروع دن سے لیکر آج تک ہر فاتح کے آگے سر نگوں ہو کر مفادات کیوں سمیٹتا رہا اور جہاں کہیں استحصال کرنے کا موقع میسر آیا اسے ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ کیا بطور مزاج ہی یہ سرزمین بانجھ پن کا شکار ہے جس کی طرف اقبال نے بھی تحقیق کے حوالے سے ضمنی اشارہ دیا تھا کہ 

مذہب میں بہت تازہ پسند اِس کی طبیعت

کر لے کہیں منزل تو گُزرتا ہے بہت جلد

تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا!

ہو کھیل مریدی کا تو ہَرتا ہے بہت جلد

تاویل کا پھندہ کوئی صیاد لگا دے

یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد 

یا اور وجوہات ہیں بہرحال جو بھی ہے پنجاب کو اس امر کا اندازہ ہونا چاہیے کہ پنجاب نہ صرف دوسری محکوم اقوام میں نفرت کا استعارہ بنتا جارہا ہے بلکہ افغانستان(پانچواں صوبہ) میں کافی حد تک بن چکا ہے اس کی سب بڑی وجہ یہی ہے کہ پنجاب نے کبھی بھی مزاحمت کا رستہ نہیں اپنایا اب تو یہ اک مثل بن گئی ہے کہ پنجاب کی ڈی این اے میں مزاحمت سرے سے ہے ہی نہیں۔

حال ہی میں نواز شریف کی مثال نہایت شد و مد سے د ی جانے شروع ہو گئی ہے کہ نواز شریف مزاحمت کا استعارہ بنانے کی کوششیں شروع ہو گئیں ہیں اور اس کو سول بالادستی کے لیے مزاحمتی علامت گردانا جا رہا ہے جبکہ شروع دن سے ہمارا یہی موقف تھا ان چراغوں میں اتنا تیل نہیں لیکن برانڈڈ دانشور ان غباروں میں ہوا بھرتے رہے اور غبارے سے ہوا اُس وقت نکلی جب شہباز شریف جو خفیہ ملاقاتوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے در پردہ قوتوں سے ساز باز کرکے اس بات میں تقویت بخشی کہ واقعی پنجاب کے ڈی این میں مزاحمت سرے سے نہیں ہے۔

یاد رہے یہی شہباز شریف و چوہدری نثار ہی تھے جو در پردہ قوتوں سے ملاقاتیں کرکے جمہوری اداروں میں براجمان ہوئے اب ان سے یہ توقع رکھنا کہ انہی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کرینگے ستم ظریفی کی انتہا ہے۔

یہاں اُن دانشوروں کا ذکر خیر نہ کروں تو بات نہیں بنتی کیونکہ کہا جاتا ہے کہ دانشور کی نظر کل پہ ہوتی ہے جو جو دانشور نواز شریف کو بطور استعارہ سامنے لارہے تھے توں توں جمہوریت و اصول پرستی کے ترجمان دانشور (حامد میر و سلیم صافی وغیرہ) دوسرے مورچے میں بیٹھ کر نواز شریف کو سمجھا بجھا رہے تھے کہ آگے خطرہ ہے بلکہ اک طرح سے در پردہ قوتوں کا پیغام پہنچا رہے تھے اب کن کی نظر کہاں تک کارآمد ہوئی یہ فیصلہ شہباز شریف کے نئے این آر او کی صورت میں آگیا ہے۔ 

کسی نے اشتراکیت پسند دوستوں کو کسی زمانے میں اک مفید لیکن بر حقیقت مشورہ دیا تھا کہ انقلاب کبھی پنجاب سے آ ہی نہیں سکتا کیونکہ ان کی زمین کی زرخیزی انقلاب کی راہ میں رکاوٹ ہے جبکہ دوسری طرف جو انقلاب کے لیے شروع دن سے لڑ رہے ہیں وہاں اشتراکیت آنکھ کھولنے کا حوصلہ نہیں رکھ پارہی شاید اُن کی اپنی اپنی مجبوریاں ہوں۔

اس سلسلے میں جب اک اشتراکیت پسند دانشور سے سوال کیا گیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ ہمیں پتہ ہے پنجاب سے مزاحمت نہیں ابھری گی کیونکہ پنچاب کے اہل دانش (روشن خیال / مذہبی )مذہب و ریاست کی سُرنگ سے باہر نکلنے کو تیار نہیں لیکن یہاں جو صف آرا ہو کر لڑ رہے ہیں ان کا ساتھ اس لئے نہیں دے سکتے کہ کل کلاں یہ ہمارا پروگرام (انقلاب) کو ہائی جیک نہ کرلیں اب انقلاب کو یہ پنجاب میں ڈھونڈ رہے ہیں اور پنجاب ہے کہ بدلنے کا نام نہیں لے رہا۔ 

پنجاب آبادی کے لحاظ سے ساحل و وسائل پہ قبضہ جما چکا ہے اور اسی قبضہ گیری کی بدولت طاقتور و ڈارک فورسز کی پرورش کررہا ہے اب جس کی پرورش وہ خود کرے اس سے آخر وہ کیونکر لڑے گااسی لیے نفرت کا استعارہ وہ بن چکا ہے ۔اگر یقین ہو نہ تو اپنا چہرہ تاریخ و حال کے آئینہ میں ضرور دیکھے

Comments are closed.