رباعیاتِ صادقینؔ اورننگِ مُلا

طارق احمد مرزا

اردو شاعری میں سب سے مشکل صنف رباعی کی ہے۔اکثر لوگ قطعہ اور رباعی میں فرق نہیں جانتے ۔حتیٰ کہ بعض شعراء تک نے اپنے بعض اشعار کو رباعی سمجھ کر پیش کیا حالانکہ وہ محض قطعہ تھے۔ فنی اعتبار سے رباعی ایک خاص وزن، بحر،قافیہ و ردیف ،اور مصرعوں کی مخصوص تعداد کی متقاضی ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اردو میں ر باعی فارسی شاعری سے درآئی ہے۔فارسی شعراء میں رودؔ کی،فریدؔ الدین عطار،شیخ سعدیؔ ،حافظؔ شیرازی اور عمر ؔ خیام کی رباعیات بہت مشہور ہیں۔اردو کے اساتذہ شعراء میں میرؔ ،غالبؔ ،دردؔ ،ذوقؔ ،اقبالؔ ،اکبرؔ الہ آبادی وغیرہ کی رباعیات مشہور ہیں۔جدید دور میں رباعی کہنے والوں میں ایک نام صادقینؔ کا بھی ہے جو اپنی مصورانہ خطاطی کے حوالے سے زیادہ معروف ہیں مگر رباعی کہنے کا فن خوب جانتے تھے۔ 

آپ کا پورا نام سید صادقین احمد نقوی تھا۔آپ کا تعلق سادات امروہہ (اترپردیش) کے گھرانے سے تھاجو لیاقت،علم،ادب ،مصوری ،خطاطی اور دیگر فنون لطیفہ کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ صادقین 1920ء میں پیدا ہوئے اور 1987ء میں وفات پائی۔آپ نے اپنی منفرد مصوری، نقاشی اور مصورانہ خطاطی کی بدولت عالمی شہرت پائی۔پاکستانی حکومت کی طرف سے تمغہ امتیازسے نوازے گئے۔فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ دنیا کے کئی دیگر ممالک بھی آپ کی صلاحیتوں کے معترف تھے اور انہیں ایوارڈز سے نوازا۔ ان کا منظوم کلام ’’رباعیاتِ صادقین‘‘ کتابی شکل میں دستیاب ہے۔آپ کا کلام پڑھ کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کو مصوری میں شاعری اور شاعری میں مصوری کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔جیسا کہ خود ہی فرماتے ہیں 

ایک بار میں ساحری بھی کر کے دیکھوں
کیا فرق ہے شاعری بھی کرکے دیکھوں
تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے
شعروں میں مصوری بھی کر کے دیکھوں

صادقین ایک مردِ قلندر تھے۔آپ کو منافقت اور دکھاوا سخت ناپسند تھا لیکن اس بنا پر کسی سے نفرت یا بغض ہر گز روا نہ رکھا۔آپ زہر سے بھی اس کا تریاق نکال لیتے تھے خواہ یہ زہر واعظ کا اگلا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔یہ کام وہی کرسکتا ہے جو بقول صادقینؔ خود اپنے طریقے میں ایک قلندر،خود اپنے سلیقے میں ہنرور اور خود اپنے بنائے ہوئے آئینوں میں خود گیر،خودنگر اور خودگر ہو۔ فرماتے ہیں

میں بغض کے انبار سے کیا لاتا ہوں
اس میں بھی عقیدت کی ادا لاتا ہوں
جو زہر کہ واعظ نے اُگلا ہے اُس سے
تریاق نکالے ہی چلا جاتا ہوں

صادقین نے اپنے شعور کے زمانہ بلوغت اور ادھیڑعمری میں وطن عزیزپاکستان میں تکفیری رجحانات کو پنپتے دیکھ کرمیرؔ کی طرح ترکِ اسلام کو ترجیح دی۔جب اسلام کے مفتی کو بندے کا مشرف بہ اسلام ہوناہی گوارانہ ہو توبہتر ہے خود ہی کفر اختیار کرلو ۔واضح رہے کہ یہاں ترک اسلام سے مراد ترکِ ’’ملا برانڈ اسلام ‘‘ہے ۔صادقین پر یہ واردات باربار گزری،آج وہ حیات ہوتے تو فیض آباد چوک میں ان کے اس ’ارتداد ‘کے خلاف احتجاجی دھرنا اس وقت تک جاری رکھنے کا اعلان کیا جاتا جب تک انہیں مرتد قرار دے کر پھانسی پہ نہ لٹکادیاجاتا ۔

یہ تو نہیں قدرت کا اشارہ نہ ہوا
میں پھر چلا سوئے کفر،یارا نہ ہوا
اسلام سے بندے کا مشرف ہونا
اسلام کے مفتی کو گوارا نہ ہوا

صادقین اسم بامسمیٰ تھے،ایک نہیں بلکہ دوہری سچائی کے ما لک ،گویا صدق کی دودھاری تلوارتھے ۔ایک سچ بطورمصور تو دوسرا بطور شاعربیان کردیتے۔سچ بھی وہ جو ننگا ہوجی ہاں ،ایسا سچ جو جو خود بھی ننگا ہو اور دوسروں کو بھی ننگا کردے۔یہ سچ ان کے موئے قلم اور برش میں چھپا ہوتا جسے وہ ایک ادائے بے نیازی سے بیک جنبش اچھال کر قرطاس اور کینوس کی چادر پہ ننگا ہی چمٹا دیاکرتے تھے اور وہ وحشت کا مارا ننگا سچ ان کی اس شوخی پہ ا حتجاج ہی کرتا رہ جاتا۔صادقین کی اس’’ عریانی ‘‘کو’’ فحاشی‘‘ پہ محمول کرنے والے مولوی ان کی نمائش بڑے شوق سے دیکھنے کے لئے رالیں ٹپکاتے دوردور سے پہنچتے لیکن انہیں کلیتاً مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا۔

حرفِ غیرت مٹاگیا ہے پانی
نقشِ وحشت بنا گیا ہے پانی
سن کر مری تصویروں کے دو اک عنواں
ملّاؤں کے منہ میں آگیا ہے پانی

ہر نقش میں تھا جلوۂ ایماں ساقی
آکر ہوئے مایوس وپریشاں ساقی
کل میری نمائش میں بڑے مولوی آئے
یہ سن کے کہ تصویریں ہیں عریاں ساقی

یقیناً بعض ناقدین کوصادقین کی بنائی بعض تصاویرعریانی سے ہٹ کرفحاشی نہیں تو بے شر می کی حدود میں داخل ہوتی نظرآتی ہوں گی جو بظاہر آیات قرآنی کی مصورانہ خطاطی کرنے والے اس ’’قلندر‘‘ کی شخصیت کے اندرونی تضادات کی غماز ی کرتی نظرآتی ہیں لیکن یہ نام نہاد تضاد اس وقت ناقد کی بدظنی کا دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے جب صادقین کی شخصیت کے گرداگرد سجے وجدان کے ہالہ کے اندر داخل ہوکران کی اندرونی آنکھ کی پتلی سے آیات اور مکھڑوں کی ایک جھلک بیک وقت دیکھنے کی زحمت گوارا کی جاتی ہے۔صادقین نے اس قسم کی کسی بھی بدظنی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کسی بھی غلط فہمی کاتدارک کرتے ہوئے پیش بندی کے طور پر خود ہی کچھ یوں وضاحت کردی تھی کہ 

میں نے، تھی جگہ خالی،تو لکھیں آیات
دیکھیں لٹیں جب کالی تو لکھیں آیات
آیات کو دیکھا تو بنائے مکھڑے
مکھڑوں پہ نظر ڈالی تو لکھیں آیات

مخلوقات کے حسن کو دیکھ کران کے خالق کی تحمیدوتمجید کرنااورخالق کی تحمیدوتمجیدپڑھ کر اس کی مخلوقات میں اس کی تفسیرڈھونڈناایک ایسا نازک اور ’’حساس ‘‘کام ہے جس میں ملا کی طرف سے توہین مذہب کے قوانین کی تمام دفعات کے تحت کسی بھی وقت ایک نہیں کئی کئی بار’’ ایف آئی آر ‘‘کٹ سکتی ہے۔یہ صادقین ہی تھے جو بچ نکلے !۔

Comments are closed.