جرنیلوں کو سیاست کا شوق ہے تو عہدے چھوڑ دیں

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت صدیقی نے دھرنے کے خاتمے میں فوجی سربراہ جنرل جاوید قمر باجوہ کے کردار پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہو کر بتایا کہ 21 روز سے جاری دھرنا ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومتی نمائندے اور دھرنا دینے والی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ کے رہنما آج ایک مشترکہ پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔

تاہم جسٹس شوکت صدیقی نے اس معاملے میں فوج کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں وزیر داخلہ سے اس بات پر وضاحت چاہیے کہ فوجی افسران نے کس حیثیت سے حکومت اور دھرنا رہنماؤں کے درمیان ثالثی کی؟

’’کس حیثیت سے فوجی سربراہ کا نام اس معاہدے میں ضامن کے طور پر شامل کیا گیا اور کس قانون کے تحت ایک جنرل (جنرل فیض حمید) اس میں ثالث تھے؟‘‘۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ فوج کا یہ کردار قابل قبول نہیں کہ قانون توڑنے اور قانون نافذ کرانے والوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے۔

جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ مظاہرین نے دارالحکومت اسلام آباد میں افراتفری پیدا کی اور 21 روز تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ انہوں نے قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ردالفساد کہاں ہے؟‘۔

انہوں نے وزیرداخلہ سے کہا کہ کیا فوج جی ایچ کیو (جنرل ہیڈکوارٹرز) کے قریب دھرنے کی اجازت دے گی؟

جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ فوجی افسران کو سیاست میں دخل اندازی کا بہت شوق ہے۔ ’’وہ اپنے عہدے چھوڑ کر عملی طور پر سیاست میں کیوں نہیں آتے؟‘‘۔

انہوں نے واضح الفاظ میں کہا، ’’پاکستانی فوج اپنے دستور حدود میں کام کرے۔ جنرل حمید کی خدمات ریاست کے لیے ہونا چاہئیں اور وہ اس طرز کے کسی بھی معاہدے کے ثالث نہیں بن سکتے۔‘‘۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ حکومت اور دھرنا دینے والی قیادت کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے اس میں ججوں سے معافی مانگنے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا کیونکہ مظاہرین نے دھرنے کے دوران اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے بارے میں نازیبا الفاظ ادا کیے تھے۔

سماعت کے دوران عدالت نے وزیر داخلہ کی سرزنش بھی کی کہ اُنھوں نے مظاہرین کے خلاف کارروائی کے دوران اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو تنہا چھوڑ دیا۔

عدالت نے وزیر داخلہ سے ان وجوہات کے بارے میں بھی طلب کیا ہے جس کی وجہ سے دھرنا دینے والوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی ناکام ہوئی۔

جسٹس صدیقی نے وزارت داخلہ سے دھرنا ختم کرانے کے لیے پولیس کی مدد سے کی گئی کارروائی میں ناکامی کی تفصیلی رپورٹ بھی طلب کی۔

DW/BBC

Comments are closed.