نیا انسان اورپرانے دروازے

فرحت قاضی


جاگیردارانہ نظام میں گھر تربیت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے
غریب گھرانوں میں بچوں کے ساتھ ماں باپ جس نوعیت کاسلوک کرتے ہیں یہی آگے چل کر ان کے مستقبل کے راستوں کا تعین کرتا ہے ناز ونعم میں پلا بڑھا بچہ بڑا ہوکر محلہ دار، ملک اور گاؤں کے جاگیردار سے بھی یہی توقع رکھے گا کہ اس کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہ کیا جائے اور اگر کرتا ہے تو پھر دیکھا گیا ہے کہ مزدور کا وہ بیٹا سرکشی اور بغاوت پر اتر آتا ہے
نازونعم میں پلے بڑھے بچے من مانی کرنے لگتے ہیں کیونکہ ان کو احساس ہوتا ہے کہ ان کے لاڈ پیا ر کا پالن کیا جائے گا

مفلس اور قلاش خاندانوں میں مالی پریشانیوں کے باعث ہمیشہ جنگی صورت حال رہتی ہے اور اس میں بچوں کی کثرت چار چاند لگادیتی ہے چنانچہ بیوی شوہر کو لعن طعن کرتی رہتی ہے کہ وہ کنبہ کی دیکھ بھال ، کفالت اور ان کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر اور کاہل الوجود ہے جبکہ شوہر بیوی پر برستا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کرنے میں ناکام ہے ہوتے ہوتے یہ سارا نزلہ بچوں اور خصوصاً بچیوں پر گرتا ہے کیونکہ بچیاں یا لڑکیاں کماؤ پوت نہیں ہوتی ہیں ایسے خاندان میں شوہر بیوی، بیوی بچوں اور بچے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آراء اور صف آراء رہتے ہیں اور پھر یہی بچے گھر سے باہر بھی لڑتے جھگرتے رہتے ہیں

اس تمام ماحول کا فائدہ جاگیردار کو پہنچتا ہے یہ کہ اسے ان گھرانوں سے ایسے مزدور مل جاتے ہیں یا ملتے رہتے ہیں جو پہلے سے ہی گالیاں سننے، تھپڑکھانے اور مارپیٹ کے عادی ہوتے ہیں چنانچہ جب مالک ان پر برستا ہے تو یہ اسے معمول کا واقعہ سمجھتے ہیں یا پھر اسے اپنی قسمت جان کر ان کا سر جھکا رہتاہے

ان غریب گھرانوں میں بچوں اور بچیوں کو اگرچہ بڑوں کا ادب کرنا ان تصورات کے تحت سکھایاجاتا ہے کہ بڑے اور کماؤ پوت ہوکر یہ بچے پھراپنے والدین کا خیال رکھیں گے اور اپنے دن بھر کی کمائی ان کے ہاتھوں پر رکھیں گے چنانچہ چھوٹے بیٹے سے کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے بھائی کا احترام کرئے اس طرح وہ بڑے بھائیوں، ماں باپ اور دیگر بڑوں کی عزت کرنا سیکھ لیتا ہے پھر یہ حالت ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی بڑا بھائی کوئی غلط کام کرتا ہے تو بھی اس پر تنقید یا اسے غلط کہنے کی جرائت نہیں کرتا ہے بعد ازاں یہ عزت و احترام محلہ دار، ملک، مالک حتی ٰ کہ مالک کے بچوں تک پہنچ جاتی ہے اور اس طرح ایک علاقہ میں بڑا اور چھوٹا اور اعلیٰ و ادنیٰ کے تقدس کا ماحول بن جاتا ہے اور آگے چل کر یہی سلوک اس طرح بدل جاتا ہے کہ غریب مالدار کے سامنے جھکتاہے چھوٹا دولت مند بڑے دولت مند کی عزت کرتا ہے دولت مند یا جاگیردار کو اپنا قد اونچا رکھنے کے لئے لازمی ہوجاتا ہے کہ اس کا ہاتھ بھی اوپر ہو،رحم دلی، ہمدردی، خیرات اور سخاوت اس کے ہاتھ اور ساتھ ہی قد کو بھی اوپر ہی رکھتے ہیں چنانچہ وہ کبھی کبھار غریبوں کوکچھ دیکر انہیں یہ احساس دلاتا رہتا ہے کہ ان کی زندگی اوران کے خاندان کا تمام انحصار اس کے رحم و کرم پر ہے

پرانے وقتوں میں چونکہ سکول اور تعلیمی ادارے نہیں ہوتے تھے لہٰذا گھر سے یہی کام لیا جاتا تھا چونکہ ہمارے معاشرہ میں قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی ہے چنانچہ اس قسم کے خیالات معاشرے میں اب بھی موجود ہیں اس نوعیت کے تصورات کی سماج میں موجودگی کا سبب یہ بھی ہے کہ درحقیقت لوگوں کا ایک دوسرے پر معاشی انحصار ہے یہ انحصار جوں جوں کم ہوتا جاتا ہے تو سماجی اقدار اور رویہ بھی اس تناسب سے بدلتا ہے ہمارے معاشرے میں بھی کچھ عرصہ سے ’’ خون سفید ہوگیا ہے یا انسان خود غرض ہوگیا ہے‘‘ جیسے گلے شکوے پیدا ہوگئے ہیں جو معاشرے میں تبدیلی کو ظاہر کررہے ہیں

حالانکہ انسان کی یہ خود غرضی بدلتے ہوئے معاشی اور سماجی حالات کے سبب ہے خاندان میں افراد کا ایک دوسرے پر انحصا ر کم ہوتاجارہا ہے اور وہ اس لئے کہ پہلے نہ تو آبادی کا یہ حال تھا اور نہ مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کیا تھاایک مرد کھیتوں پر جاتا، محنت کرتا اور بچے بڑے ہوکر اس کا ہاتھ بٹاتے تھے ایک فرد تمام خاندان کی کفالت کرسکتا تھا لیکن اب زمینیں سکڑ گئی ہیں چنانچہ ایسی صورت میں ایک آدمی جبکہ ضروریات بھی بڑھ چکی ہوں، پورے کنبہ کا پالن کیسے کرسکتا ہے چونکہ وہ تمام افراد کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے سے قاصر ہے لہٰذا احترام اور تقدس کا پرانا ماحول اور سماجی اور اخلاقی اقدار بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اب ایک جوان شادی کرنے کے بعد اپنا اور بیوی کا بوجھ مشکل سے برداشت کرتا ہے جب اس کے بچے سکول پڑھنے کے اہل ہوجاتے ہیں تو وہ ان کی فیسوں اور دیگر اخراجات کے لئے پریشان اور متفکر رہتا ہے ایسی صورت حال میں بھلا وہ کنبہ کے ہر فرد کا کیسے خیال رکھے گا

نہ صرف بڑا اور چھوٹا اور والدین اور بچوں کے مابین احترام اور تقدس کا پرانا ماحول نہیں رہا ہے بلکہ والدین لڑکے کے ساتھ ساتھ اپنی بچیوں کو بھی یہ کہنے پرمجبور ہوگئے ہیں کہ وہ بھی باہر جاکر کچھ کمائیں ایک ماں جب بیٹی کے سامنے مسائل کا بار بار رونا روتی ہے تو اس کے بسا اوقات یہی معنی لئے جاتے ہیں چنانچہ اکثر غریب گھرانے جب یہ دیکھتے ہیں کہ محلہ یا گاؤں میں کسی خاندان میں لڑکی تعلیم حاصل کرکے کماکر دے رہی ہے تو ان کی بھی کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح بچیوں کو بھی تعلیم دلا سکیں البتہ بسا اوقات یہ تصورات مانع ہو جاتے ہیں کہ پڑھ لکھ لینے کے بعد وہ پرائے گھر کی ہوجائے گی لیکن یہ خیالات اتنے طاقت ور نہیں رہے ہیں کیونکہ اب لڑکے بھی چاہنے لگے ہیں کہ ان کی ہونے والی بیوی پڑھی لکھی اور با روزگار ہو

پرانے جاگیردارانہ سماج میں چونکہ غریب کنبوں کے پاس فصل اگانے کے لئے نہ تو زمین ہوتی تھی نہ کوئی دوسرا ذریعہ معاش تھا لہٰذا غریب گھرانوں کی خواتین امیر وں کے بنگلوں میں ان کے جھوٹے برتن دھونے ، گالیاں سننے اور برے سلوک سہنے پر مجبور ہوتی تھیں جبکہ ان کے مرد دولت مندوں کے کھیتوں میں محنت مشقت کرتے تھے اور اس کے بدلے میں وہ روح اور جسم کے تعلق کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے تھے

انسان جو کچھ ہے اس کا جو رویہ اور سلوک ہوتا ہے اور اس کی جو اقدار ہوتی اور بنتی اور بگڑتی ہیں یہ اس کے ماحول کے سبب ہوتی ہیں اس کی معاشی اور طبقاتی حیثیت اس میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں جاگیردارانہ معاشرے میں خاندان کو ایک اکائی کی شکل دینا اور پھر ایک گھر کو بچوں اور بچیوں کے لئے سکول یا تربیت گاہ بنانا جاگیردار طبقات کی ضرورت تھا اب چونکہ کھیت مزدوروں کی ضروریات بھی بڑھ گئی ہیں اور جاگیردار بھی ان کو پہلی جیسی حالت میں نہیں رکھ سکتا ہے لہٰذا جاگیردار اور کھیت مزدور اور ایک خاندان کے اندر رشتوں میں مسلسل تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے چنانچہ اب جب ایک غریب باپ تعلیم یافتہ بچے کو نصیحت کرتا ہے کہ جھک کر رہنے میں عزت ملتی ہے تو لڑکا جواب میں کہتا ہے:
’’
بابا! تعلیم یافتہ ہوں کہیں دوسری جگہ ملازمت کرلوں گا‘‘

حتیٰ کہ تعلیم یافتہ بیٹی بھی والدین کے بوڑھے دولت مند سے شادی کرانے کے مشورہ کو زیادتی قرار دیتے ہوئے کہتی ہے کہ: ’’ شرط یہ ہے کہ شادی کے بعد بڈھا پردہ کرانے پر زور اور دروازے بند نہیں رکھے گا‘‘۔

Comments are closed.