کوئٹہ چرچ پر حملہ صرف 9 افراد ہلاک

بلوچستان کے وزیرِ داخلہ کے مطابق صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ایک گرجا گھر پر ہونے والے حملے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 30 سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔یہ حملہ کوئٹہ کے علاقے زرغون روڈ پر واقع ایک گرجا گھر پر اتوار کی صبح کیا گیا جہاں مذہبی عبادت کے لیے بڑی تعداد میں افراد موجود تھے۔

بلوچستان کے آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری کے مطابق ریلوے سٹیشن کوئٹہ کے قریب امداد چوک پر واقع میتھوڈسٹ گرجا گھر کو کم از کم دو خودکش حملہ آوروں نے نشانہ بنانے کوشش کی۔انھوں نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ حملے کے وقت گرجا گھر میں 400 کے قریب افراد موجود تھے لیکن پولیس کی بروقت کارروائی کی وجہ سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔

آئی جی پولیس نے بتایا کہ سکیورٹی پر تعینات اہلکاروں نے ایک حملہ آور کو گرجا گھر کے احاطے کے مرکزی دروازے پر ہی مار گرایا جبکہ دوسرے حملہ آور نے گرجا گھر کے دروازے پر زخمی ہونے کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے فائرنگ شروع کرنے سے قبل خودکش حملہ کیا اور اُس کے بعد انہوں نے باہر موجود سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ دوطرفہ فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں نے گرجا گھر کو اپنے حصار میں لینے کے بعد اُس کے ایک دروازے پر کھڑے حملہ آوار کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

آئی جی بلوچستان کے مطابق سکیورٹی اداروں نے گرجا گھر کے احاطے کو کلیئر کر دیا ہے اور اب آس پاس کے علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔

ڈوئچے ویلے کے مطابق، کوئٹہ کے زرغون روڈ پر واقع اس گرجا گھر پر حملے کی ذمہ داری پاکستان میں جڑیں پکڑتی جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے قبول کی ہے۔

دی میتھوڈسٹ گرجا گھر سنہ 1935 میں تعمیر کیا گیا تھا اور یہ شہر کے ریلوے سٹیشن کے قریب مصروف ترین شاہراہ پر واقع ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں ماضی میں بھی شدت پسند گرجا گھروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔

مارچ 2015 میں دہشت گردوں نے لاہور کے علاقہ یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں پر خودکش حملے کیے تھے جن میں 15 افراد مارے گئے تھے۔

اس سے قبل ستمبر سنہ 2013 میں پشاور کے کوہاٹی گیٹ چرچ پر بھی دو خودکش حملہ آوروں نے حملہ کیا تھا جس میں 80 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے اور اسے پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی گرجا گھر پر ہونے والا سب سے مہلک حملہ قرار دیا جاتا ہے۔

پاکستانی میڈیا چونکہ اس واقعے پر درست طور پر کرنے سے قاصر ہے لہذا سوشل میڈیا پر عوام نے انتہائی غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں کو قرار دیا ہے جو اپنے مقاصد کے لیے انتہا پسند تنظیموں کی پشت پناہی کرتی ہیں۔

ایک شخص نے لکھا کہ شکر ہے کہ بروقت کاروائی کی وجہ سے 351 افراد بچ گئے ورنہ چرچ میں 400 لوگ موجود تھے جن میں سے صرف 9 ہی جان بحق ہوے اور چالیس زخمی ہوے جن میں کافی کی حالت تشویشناک ہے۔ یہی کامیابی ہے کہ سب کو مرنے سے بچا لیا گیا ہے۔

ہمیں سیکورٹی فورسز کی کامیابی کا جشن منانا چاہیے کہ کوئی ایک شہادت دیئے بغیر 351 افراد کو بچا لیا گیا ہے ورنہ موت تو سب کا مقدر تھی۔ سولہ دسمبر کے دہشت گردوں نے سترہ دسمبر کو بھی یادگار بنا دیا۔ تاریخیں یاد رکھنے کی ضرورت نہیں سال کے ہر دن کے ساتھ کوئی دہشت گردی کا واقعہ منسلک ہے۔ جب تک ملک کا انتظام زبردستی کے چوکیداروں کے ہاتھ میں رہے گا زندگی کا ہر دن مرنے سے بچ جانے کے لیے انکا شکریہ ادا کرتے رہیں وہ دن بڑا دور ہے جب ہم ان سے شہریوں کی موت پر بازپرس کریں گے۔

ا یک اور کمنٹ یہ آیا کہ میری قوم کی بصیرت کو سو جوتوں کی سلامی جنہیں ہزاروں میل دور فلسطینی گرفتار ہوتے تو نظر آتے ہیں لیکن اپنے گھر میں مرتے ہوئے انسان نظر نہیں آتے شاید اس لئے کہ کہیں نا کہیں ان کا یا ان کہ اپنوں کا تعلق اس بربریت میں شامل حال ہے اسی لئے بے بنیاد کہانیوں کو سنا کر صرف طالبان اور داعش کے حملوں کو کہیں نا کہیں جواز فراہم کرتے ہیں

DW/BBC/News Desk

Comments are closed.