حکومت پاکستان کا بجٹ خسارہ

شاہد اقبال خان

 

بجٹ حسارے کو اگر سادہ الفاظ میں بیان کیا جاے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومتی اخراجات حکومتی آمدنی سے کتنے زیادہ ہیں۔۔


جب 1999 میں جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت ختم کی تو اس وقت پاکستان کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.4% تھا مگر ڈکٹیٹر کے 8 سالہ دور حکومت کے بعد 2007 میں یہ خسارہ کم ہو کر 4% پر آچکا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری بجٹ یعنی 2012-13 کے بجٹ میں یہ دوبارہ بڑھ کر 5.7% تک پہنچ گیا۔ اب مسلم لیگ ن کی چار سالہ حکومت کے بعد یہ ایک بار پھر سے بڑھ کر 6.4% تک پہنچ گیا ہے۔


بجٹ کے خسارے کی وجوہات کیا ہیں؟؟؟؟

 دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ کرپشن کی وجہ سے ترقیاتی منصوبوں پر آنے والے اخراجات اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ انکم کم پڑ جاتی ہے۔ دوسری وجہ ٹیکس کی عدم کولیکشن ہے۔ لمز کے ایک ڈاکٹر کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں صرف 16% لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور حکومت جب باقی 84% لوگوں سے ٹیکس نہیں لے پاتی تو وہ جی ایس ٹی کے زریعے ان لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کر لیتی ہے جو بیچارے خود مشکل سے گزارہ کر رہے ہوتے ہیں۔ کارپوریٹ ٹیکس یعنی کمپنیوں پر ٹیکس پہلے 35% تھا مگر اپنے کاروباری پارٹنرز اور اپنی کمپنیوں کو فایدہ دینے کے لیے شریف خاندان نے یہ ٹیکس کم کر کے 25% کر دیا ہے اور کچھ سیکٹرز جن میں شریف خاندان کی اپنی سرمایہ کاری ہے جیسے سٹیل، شوگر اور پولٹری وغیرہ اس میں تو ٹیکس 20% سے بھی کم کر دیا گیا ہے۔۔۔۔خسارہ تو بنتا ہے صاحب۔۔۔۔

بجٹ کے خسارے سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں۔

پہلا یہ کہ مزید نوٹ چھاپ لیے جایں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کرنسی کی ویلیو گر جاتی ہے اور مہنگائی کا طوفان آتا ہے جس سے مڈل کلاس کوالٹی چیزیں خریدنے سے قاصر ہو جاتی ہے۔ دوسرا حل قرضے ہوتا ہے جو کہ مزید نوٹ چھاپنے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اگر قرضہ چکانے کی مستقل استطاعت ہو تو پھر قرضہ لینے میں حرج نہیں مگر مسلسل خسارے میں رہنے والے ملک قرضہ لے کے بری طرح پھنستے ہیں۔ قرضہ واپس نہیں ہوپاتا۔۔۔ورلڈ بینک اور آی ایم ایف عوام کو میسر سبسڈیز چھین لیتے ہیں اور حکومت کو مجبور کرتے ہیں کہ اداروں کو بیچ دے۔۔۔اس سے مہنگائی کچھ عرصہ قابو میں رہتی ہے مگر جب قرضہ واپس نہیں ہوپاتا تو پھر دوبارہ سے نوٹ چھاپنے پڑتے ہیں اور مہنگائی کا جن پھر باہر آجاتا ہے۔۔۔یعنی قرضہ لے کر خسارہ پورا کرنا دراصل سو پیاز اورسو کوڑے کھانے کے مترادف ہے اور نوازحکومت نے اپنی کرپشن اور مس مینیجمنٹ کے نتیجے میں آنے والے خسارے سے نمٹنے کے لیے دوسرے راستے کا انتخاب کیا جس نے وقتی طور پر مہنگای کو قابو تو کیا مگر پاکستانی معیشت کی جڑیں کاٹ دیں۔۔۔

Comments are closed.