پاکستانی جمہوریت

آفتاب احمد

پاکستان ایک جاگیردارانہ باقیات کا حامل معاشرہ ہے جس میں ابھی تک جاگیرداری حاوی ہے اس میں آج تک سرمایہ دارانہ جمہوریت پنپ نہیں سکی ۔جس کی وجہ سیاسی پارٹیوں سے لیکر سماج کی مختلف پرتوں میں جمہوری سوچ ،شعور اور رویوں کا فقدان ہے ۔جس کا اظہار پاکستانی ریاست کے اندر آج بھی ہورہا ہے ۔جس کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ فرقہ پرستی ،گروہ بندی ،اناء ،توہمات اور تعصبات کا شکار ہے ۔اس کے اثرات نہ صرف حکمران طبقہ کی سیاسی جماعتوں پر ہیں بلکہ اگر بغور جائزہ دیکھاجائے تو ترقی پسند سوچیں بھی ان اثرات ابھی تک جان نہیں چھڑا پائی ہیں۔

اس کی مادی بنیادیں ہیں جن کو تلاش کیا جانا بے حد ضروری ہے ۔کیو نکہ کسی بھی معاشرے میں سرمایہ دارانہ جمہوریت اسی وقت طاقتور ہوسکتی ہے جب اس معاشرے سے جاگیرداری کا خاتمہ ہوگا ۔پاکستان سے ابھی تک جاگیرداری کا خاتمہ نہیں ہو سکا اس لیے یہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت بھی پنپ نہیں سکی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے عوام کی سیاسی تربیت بھی نہیں ہوپائی ہے ۔

اگر ہم قیام پاکستان کے لیے چلائی جانے والی تحریک کی رہنمائی کرنے والی مسلم لیگ کا بھی جائزہ لیں تو مسلمان جاگیر داروں کی نمائندہ نظر آتی ہے ۔اس مسلم لیگ  نے کسی سیاسی سماجی اور معاشی پروگرام کی بنیاد پر الگ ملک کی تحریک نہیں چلائی یعنی مسلمانوں کو ایسا کوئی پروگرم نہیں دیا گیا کہ آپ کو مذہب کے نام پر بننے والے نئے ملک میں یہ سیاسی ،سماجی اور معاشی حقوق میسر ہوں گئے جو متحدہ برصغیر میں میسر نہیں آسکتے ۔

بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگاکہ مسلم لیگ کے قیام کی ضرورت برصغیر کے مسلمان جاگیرداروں کو پیش آئی کیونکہ ان کے طبقاتی مفادات ایک الگ مسلم ملک کے ساتھ وابستہ تھے ۔ان کو یہ خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ اگر متحدہ برصغیر میں رہے تو ان کی جاگیریں چھین لی جائیں گی کیونکہ کانگریس نے جاگیرادری کے خاتمے کا سیاسی پروگرام دے رکھا تھا۔اس لیے ایک نیا ملک بنا کر وہ اپنی جاگیروں کو محفوظ بنانا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے تحریک پاکستان کا آغاز کرلیا۔

مسلمانوں کا اکثریتی کچلا ہوا طبقہ جس کے پاس طبقاتی شعور نہیں تھا ۔اس کچلے ہوئے طبقے کو جاگیرداروں کے یہ نعرے مسلم قوم اور مسلمان بھائی بھائی بہت پرکشش لگے بلکہ اسے اپنی طبقاتی نجات بھی اسی میں محسوس ہونے لگی تھی ۔اس لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے کچلے ہوئے طبقہ کو جاگیردار وں نے اپنے حق میںآسانی سے استعمال کیا اور انگریزوں سے مل کر نیا ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔

ملک حاصل کرنے کے بعد بانی پاکستان محمد علی جناح نے سیکولرازم اورجمہوریت کی باتیں تو کیں ۔لیکن ان کو بھی ریاست چلانے کا کوئی علم تھا نہ تجربہ بلکہ وہ جو تحریک کے رہبر تھے ان کو نہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کے کس طبقہ کی نمائندگی کررہے ہیں،عوام کی یا جاگیرداروں کی ۔کیونکہ وہ ذاتی طور پر پڑھے لکھے آدمی تھے ۔لیکن وہ بھی قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ کا کوئی سیاسی،سماجی اور معاشی پروگرام مرتب کرنے میں ناکام رہے جبکہ اس کے مقابلے میں کانگریس کے پاس پورا معاشی پروگرام تھا۔

قیام پاکستان کے بعد جناح نے سیکولر اور انسان دوست ریاست کی باتیں تو ضرور کیں ۔لیکن چونکہ غلبہ جاگیرداروں کا تھا۔اس لیے وہ بس محض باتیں ہی رہیں ،عملی طور پر کچھ نہیں ہوپایا۔سماجی سٹرکچر چونکہ جاگیردارانہ تھا اس لیے مذہب فرقوں ،قبیلوں اور تعصبات کو حکمران طبقہ نے بطور ہتھیار استعمال کیا جو آج تک ہورہا ہے ۔اور آج تک مسلمان ہونے کی بنیاد پاکستان کے اندر بسنے والی مختلف قوموں اور قومیتوں کو یک پاکستانی قوم بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔جو بھی قوم یا قومیت اپنے بنیادی حقوق کی بات کرتی ہے مطالبات کرتے ہے اسے پاکستان دشمن قرار دے کر تنہا کردیا جاتا ہے ۔ماضی میں بنگال اور بلوچستان کی مثال لی جاسکتی ہے۔

پچاس کی دہائی میں ایران میں مصدق کے انقلاب نے پاکستان کو موقع فراہم کیا کہ وہ امریکہ کا اتحادی بنے ۔اس وقت ہونے والے دفاعی معاہدے نے یہاں کی فوج کو براہ راست سامراجی مفادات کامحافظ بنا دیا ۔اور وہ بتدریج اس ملک کی طاقت کی اکلوتی وارث بن گئی ۔اس کے بعد اس نے جاگیرداروں اور ملاؤوں کو ساتھ ملایا اور جو بھی سول حکمران ان کے مفادات کے آڑے آیا اس کو اسی طرح کے مصنوعی بحران پیدا کر کے چلتا کیا ۔اور آج تک یہ اتحاد چل رہا ہے۔

گو کہ اس میں بھی آج دراڑیں پڑھ چکی ہیں ۔لیکن پچاس کی دہائی سے فوجی جرنیل اس ریاست کی طاقت کا مرکز ہیں۔جب جب ضرورت پڑتی ہے سیاستدانوں اور ملاؤں کو ساتھ ملا کر براہ راست اقتدار میں آجاتے ہیں ۔اس ملک میں ڈکٹیٹر ہوں یا جمہوری حکمران وہ جاگیرداری کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے یہاں تک ذوالفقار علی بھٹو بھی یہ کرنے میں ناکام رہے بلکہ انہوں اس سماج کو مزید پسماندہ اور جوں کا توں رکھنے کے لیے ایک ایسی تاریخی غلطی کی کہ انہوں پاکستان میں جوصنعتی سرمایہ تھا اس کو مزید طاقت مہیا کرنے کی بجائے اٍس قومیا کر جاگیرداری کو زندہ اور تواناء رہنے کے عمل کو مزید مادی بنیادیں مہیا کیں ۔

انہوں نے جاگیرداری کے حوالے سے کچھ اصلاحات کیں بھی لیکن وہ اس کا فائدہ بھی جاگیرداروں کو ہی ہوا ۔اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں جاگیردارانہ جمہوریت ہے ۔جو ذاتیات کے گرد گھومتی ہے ۔اس ریاست پر ابھی تک جاگیردارانہ باقیات حاوی ہیں ۔ہمارے نزدیک یہ جمہوریت بھی فوجی ڈکٹیٹر شپ سے بہتر ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو کے نیشنلائزیشن کے اقدامات کے باعث یہاں کا سرمایہ دار بھی گماشتہ سرمایہ دار بن کررہ گیا اندرونی طور پر جرنیلوں کا گماشتہ اور بیرونی طور سامراج کا گماشتہ بنا۔

اس لیے جاگیرداری میں یہی مذہبی،فرقہ وارانہ،قبیلائی تعصبات کو استعمال کر کے بے وقوف بنایا جاتا ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو،نوازشریف بے نظیر بھٹو یا دیگر جتنے حکمران آئے یہ جاگیرداری سے باہر نہیں نکل پائے یہ ذاتی فائدے سے آگے سوچ نہیں پائے ۔فوج اور چند دلال قسم کے سیاستدان جو ہر حکومت کے ساتھ جانے کو تیار ہوتے سے مل کر حکومتیں بناتے رہے ہیں۔

بے نظیر بھٹو اور نواز شریف مل کر میثاق جمہوریت پر دستخط کرتے ہیں لیکن وہ اس پر عمل نہ کرسکے۔ بے نظیر بھٹو نے جرنیلوں کے ساتھ این آر او کیا لیکن انہی جرنیلوں کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں ۔نوازشریف بھی پاکستان فوج کے کچھ حصے کو خوش کیے بغیر حکومت کبھی نہیں بنا سکے ۔اور آج بھی جو لڑائی وہ لڑ رہے ہیں جرنیل شاہی اور ملائیت کے خاتمے کی نہیں بلکہ اپنی قبولیت کی ہے ۔

ہمارے نزدیک یہ پسماندہ جمہوریت ہے وہ چاہے نواز شریف کی شکل میں ہو یا پیپلز پارٹی کی شکل میں یہ آمریت سے بہت بہتر ہے ۔نواز شریف خود تو سرمایہ ہے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں اس گورنمنٹ کا سٹیرنگ تو سرمایہ دارانہ ہے باقی پہیے ،انجن جاگیردارانہ ہیں ۔اس سے کوئی خاص نتائج نہیں نکلیں گے ۔

حال ہی میں مولوی خادم حسین کی طرف سے دیے گئے دھرنے کے بعد جو صورتحال واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ پاکستانی عوام کا سیاسی شعور انتہائی پست ہے ۔وہ یہ جاننے کے بعد بھی پاکستانی جرنیلوں کے خلاف آواز بلند کرنے میں ناکام رہے ہیں۔بلکہ وہ اپنی جہالت کے باعث جرنیلوں سے محبت کرتے ہیں۔

اب اگر ترقی پسند گروپوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ جاگیردارنہ اثرات سے باہر نہیں نکلے، آدھے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو سوشلسٹ ثابت کرنے میں دن رات لگے ہوئے ہیں باقی آدھے سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔لیکن اپنے سماج کے اندر ایسے سوالات پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔جو عوام کی سمجھ میں آسکیں یا عوامی شعور کو آگے بڑھا سکیں ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی ترقی پسندوں کے پاس بھی اپنے سماج کا کوئی درست تجزیہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ کوئی تقسیم رکھتے ہیں ۔

ہمارے ایک دوست اکثر متحرم راجہ انور اور پرویز رشید کی مثال دیتے ہیں کہ یہ زیادہ سے زیادہ نوازشریف جیسے وسائل والے انسان کے خدمت گار ہو سکتے ہیں ،اب ان کی ساری زندگی ان کی وفاداری ثابت کرنے میں گزرے گی۔

پھر اگر پاکستانی ذرائع ابلاغ کو دیکھا جائے تو اس میں اکثریت یہ واویلا کررہی ہوتی ہے کہ فلاں جمہوری حکومت جارہی ہے ،فلاں میں فاروڈ بلاک بنے گا ۔یوں لگتا ہے کہ یہ آئی ایس پی آر کے ترجمان ہیں ۔ان میں سے کسی کو جمہوریت کی تعریف نہیں آتی کبھی فوج کے لیے ایسا نہیں کہا کہ یہ بھی ریاست کا ادارہ ہے ۔جس طرح باقی ادارے ہیں ۔لیکن باقی اداروں کی دن رات یہ تذلیل کرتے ہیں اور فوج کے لیے کلابے مار رہے ہوتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو پاکستانی جرنیل جو سر حدوں کا محافظ ہے انہوں نے آج تک شکست ہی کھائی ہے ۔پاکستانی جغرافیہ کم ہی ہوا ہے اور ایسی صورتحال میں مزید کم ہوگا ۔

ہم اس بات کو مان لیتے ہیں کہ نوازشریف حکومت جو موٹر ویز اور ٹرانسپورٹ پر توجہ دے رہی ہے یا ان کی ترجیحات میں سی پیک وغیرہ شامل ہے ۔جس سے پاکستان کا سماجی سٹرکچر بدلے گا ،اور انسانی شعور بھی بدلے گا ۔لیکن اگر ہم عوام کے سامنے یہ وضاحت نہیں کرپاتے کہ تاریخ میں ملاں حکمران طبقہ کا درباری رہا ہے ۔جو خاتون اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن نہیں وہ پیر کے پاس جاتی ہے،جس نوجوان کے پیسے سعودیہ جانے کے چکر میں ایجنٹ کے ہاتھوں لٹتا ہے وہ پیر اور ملاں کو نیاز اور ہدیہ دیتا ہے کہ رکاوٹ ختم کرو۔

اگر اسی خاتون کو ڈاکٹر کی رہنمائی موجود ہو تو وہ پیر کے پاس کیوں جائے اور اس نوجوان کو روزگا میسر ہوتو وہ پیر ملاں کو نیاز اور ہدیہ کیوں دے ۔لیکن چونکہ مملکت پاکستان اسلام کے نام پر بنی ہے آپ جانوروں کی طرح مریں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔آج ہمارے دانشور پاکستان بنے اور بنانے والوں کا تجزیہ کرتے ہوئے کفر محسوس کرتے ہیں۔ہماری تاریخ ان جاگیرداروں کی مرتب کردہ تاریخ ہے اس سے باہر نکل کر سوچا ہی نہیں گیا۔اس لیے اس سارے کھیل میں خادم حسین مرتا ہے نہ کو ئی جرنیل مرتا ہے تو غریب سپاہی اور وہ جھلا جو اکیسویں صدی خادم حسین جیسی بڑی توند والے سے متاثر ہے ۔

پاکستانی ریاست کے اندر جو ترقی پسند ہیں انھیں اس سارے عمل کو بے نقاب کرتے ہوئے عوام کو درست راستہ بتانا چاہیے ورنہ یہ سماج بربریت کی طرف تیزی سے بڑھتا جائے گا ۔اور سماجی سائنس کو محٖض چودہ سو سال پہلے سے آج تک جیسے مولوی آیت اور حدیث نکال مارتا ہے ۔آپ کو بھی اسی طرح نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس سماج کی حرکت کو سمجھتے ہوئے ہوئے مکالمے کا آغاز کرنا چاہیے اور نتیجہ پر پہنچنا چاہیے ۔

Comments are closed.