حامد میر اور ملک محمد جعفرکی ختم نبوت

چوہدری اصغر علی بھٹی

بچپن کی پڑھی کہانیاں اور ناول کبھی نہیں بھولتے۔ میں نے 30 نومبر کوجنگ اخبار میں حامد میر کا ختم نبوت اور ایک سیکولر صاحب کی تقریر پرکالم پڑھا تو مجھے مشہور کہانی ’’ میبل اور میں‘‘ یاد آگئی جس میں کردار بغیر کتابیں پڑھے ایک دوسرے پر رعب ڈالنے کے لئے بڑھکیں ہانکے چلے جاتےہیں۔ یقین جانئیے ہمارے حامد میر صاحب بھی اتنی ہی دیدہ دلیری سےجھوٹ بولتے ہیں ور اس پر مستزاد یہ کہ اپنی بات میں مہینہ ،تاریخ،جگہ،اور مختلف شخصیات کو بھی ڈال لیتے ہیں ۔رنگ مزید چوکھا کرنے کے لئے ان تمام اشیاء سے اپنی ملاقات اور گونہ تعلق کو بھی پینٹ کر لیتے ہیں اور یوں اتنے تیقُن کے ساتھ تبصرہ نما گپ ہانکتے ہیں کہ قاری محسوس کرتا ہے کہ دنیا میں آف شور کمپنیوں کےموجد یہی صاحب ہیں۔

اسی کالم کو ہی لیجئے ۔ اس کالم میں خاص طور پر آپ نے ملک محمد جعفر صاحب کی تقریر کا ذکر کیا اور اس کو مزید ٹھوس کرنے کے لئے ان کی بیٹی اور فیض صاحب کو درمیان میں ڈالا۔ اور اپنی ملاقات بھی شامل کر لی۔ پھر ان کی کتاب اور جماعت احمدیہ سے علیحدگی کو بھی ساتھ نتھی کیا۔ پھر اس کتاب کو ختم نبوت پلیٹ فارم سے شائع کرنے کی خبر بھی دی اور کتنی بار شائع کیا وہ بھی ساتھ بتایا۔اور یوں مل ملا کر ثابت یہ کیا کہ ملک جعفر صاحب نے قومی اسمبلی میں ختم نبوت پر تقریر کی تھی جو بہت اہم ہے اور جسے پیپلزپارٹی کے لوگوں کو دوبارہ سے سننا چاہئے۔

مگر جب میں نے اس تقریر کو کھول کر پڑھا تو حسب معمول آپ کی دی ہوئی دوسری گپ نماخبروں کی طرح اسے بھی ایک پھر پور گپ پایا۔ ملک جعفر صاحب کی پوری تقریر نہ ختم نبوت کی وکالت ہے نہ دلالت۔ وہ ایک سابقہ احمدی تھے اور اسی حوالے سے اپنی آہ و فغاں فرمارہے تھے۔

جناب حامد میر صاحب میں مزید عرض کروں نہ ہی آپ نے اُن کی قومی اسمبلی والی تقریر پڑھی ہے اور نہ ہی کتاب۔ اگر آپ نے ان کی یہ کتاب پڑھی ہوتی تو شاید آپ اُن کی وکالت کرنے کی بجائے اُن پر لعنتیں ڈال کر کسی طالبان کمانڈر کو اُن کے گھر کا پتہ سمجھا رہے ہوتے ۔ آئیے میں آپ کو ملک جعفر صاحب کے ختم نبوت کے بارے میں نظریات دکھاتا ہوں۔

ملک صاحب نے اپنی کتاب ’’ تحریک احمدیہ‘‘ میں ختم نبوت کے حوالے سے لکھا ہے کہ ” ہمارے علم میں پاکستان کے اہل علم حلقوں میں محترم غلام احمد صاحب پرویز تنہا وہ شخص ہیں جنہوں نے بظاہر علامہ اقبال کے نظریے (ختم نبوت )کا تتبع کیا ہے…اقبال کا مطالعہ پرویز کا خاص موضوع رہا ہے‘‘۔(تحریک احمدیہ ،صفحہ358)۔ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ ترجمان اقبال(پرویز صاحب)نے اس معاملہ میں اقبال کے فکر کی پوری ترجمانی نہیں کی ۔‘‘( تحریک احمدیہ،صفحہ363)۔
گویا جعفر صاحب کے نزدیک جعفر صاحب کے علاوہ ایک بھی صاحب علم ایسا نہیں جو اقبال کے تصور ختم نبوت کا صحیح طور پر قائل ہے۔
اقبال کے تصور ختم نبوت کی ترجمانی کرتے ہوئے ان دو عظیم ترجمانوں میں بھی کیا فرق ہے؟ اختصار کے ساتھ درج ہے

جعفر صاحب اپنی کتاب تحریک احمدیہ میں لکھتے ہیں:۔

۔’’(اقبال کی ترجمانی کرتے ہوئے۔ ناقل۔)پرویز صاحب کے نزدیک ختم نبوت کے بعد ہماری احتیاج فقط یہ ہے کہ شاہراہ زندگی میں جہاں جہاں دوراہے آئیں وہاں وہاں نشان راہ (سائن پوسٹ )نصب ہوں جن پر واضح اور بیّن الفاظ میں لکھا ہو کہ یہ راستہ کدھر جاتا ہے اور دوسرا راستہ کس طرف۔اب صورت یہ ہے کہ زندگی کے ہر لمحے ہم ایک دوراہے سے دوچار ہیں ۔سائن پوسٹ یعنی نشان راہ سے پرویز صاحب کی مراد’’قرآنی آیات‘‘ہیں لیکن کیا ان نشان راہ پر کوئی واضح اشارہ موجود ہوتا ہے؟

اس پر ہم متفق ہیں کہ قرآنی آیات میں جو ہدایات درج ہیں وہ واضح اور بیّن ہیں۔ خود قرآن کا یہی دعویٰ ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ پیشتر آیات کے جومعانی پرویز صاحب کرتے ہیں وہ آج تک کسی نے نہیں کئے اور قرآن کی ظاہری عبارت،سیاق وسباق اور تاریخی پس منظر کے سراسر خلاف ہیں۔ اس صورت میں اگر پرویز صاحب کے معانی درست ہیں تو قرآنی آیات ایک ایسا سائن پوسٹ ہیں جن کی عبارت سمجھنے کے لیے ہروقت ایک مذہبی راہنما کی ضرورت رہے گی بلکہ اس صورت میں بہتر یہی ہوگا کہ یہ راہنمائی ایک نبی کے ذریعہ کی جائے تاکہ اگر قرآن کے معنی ہماری عقل کے مطابق نہیں تو کم ازکم یہ تو تسلی ہو کہ ان معانی کی تائید وحی سے کی گئی ہے‘‘۔

ہمارے نزدیک درست صورت یہ ہے کہ ختم نبوت کی تکمیل پر انسان مکمل طور پر آزاد ہے۔جس طرح راستے پر چلنا اس کے اختیار میں ہے اسی طرح سائن پوسٹ مقرر کرنا بھی اس کا اپناکام ہے جو خیال اس صورت حال کے خلاف ہے وہ لازماً اس حد تک (اقبال ناقل)نظریہ ختم نبوت کے خلاف ہے‘‘(احمدیہ تحریک صفحہ377)۔

جناب مودودی صاحب نے فوری طور پر ان کی ختم نبوت کے اس استدلال پر پکڑ کی اور لکھا کہ ملک جعفر صاحب کی ختم نبوت کا مفہوم ’’قادیانیت کے ساتھ ساتھ ‘‘اسلام کی بھی جڑکاٹ دیتا ہے…مودودی صاحب’’ہمارے نزدیک ختم نبوت کے لیے یہ استدلال اپنے مقدمات کے لحاظ سے بھی غلط ہے اور نتیجہ کے اعتبار سے بھی۔انسانی ذہن کا ارتقاء جس پر اس پورے استدلال کی بناء رکھی گئی ہے صرف عالم زمانی،مادی وطبعی کی معلومات تک محدود ہے۔رہا دینی واخلاقی شعور،تو اس معاملہ میں ذہن انسانی کا ارتقاء کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے۔ آغازانسانیت سے لے کر آج تک پاکیزہ ترین تصور ایمان واخلاق رکھنے والے انسان اور بدترین عقائد واخلاق رکھنے والے انسان ہر دور اور ہر زمانے میں پہلو بہ پہلو پائے گئے ہیں نوع انسانی نے تاریخ وزمانی تدریج کے لحاظ سے اخلاق وایمان میں ترقی کے کوئی مدارج طے نہیں کئے ۔۔اس لیے ختم نبوت کے حق میں یہ دلیل سرے سے غلط ہے اس سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ قادیانیت کے ساتھ ساتھ اسلام کی بھی جڑ کاٹ دیتا ہے۔اگر ہم یہ مان لیں کہ پہلے انبیاء کی ضرورت اس لیے تھی کہ انسان بچہ تھا اور اب ان کی ضرورت اس لیے نہیں کہ اب انسان سن شعور کو پہنچ چکا ہے تو اس سے صاف طور پر نتیجہ نکلتا ہے کہ اب انسان کو سرے سے ہدایت بذریعہ نبوت کی حاجت ہی نہیں رہی یہ ایک ایسا تیر ہے جس نے بیک وقت احمدیت اور اسلام دونوں کو مجروح کردیا ہے۔اگر یہ کہاجائے کہ انسان جو ان ہو جانے کی وجہ سے آئندہ’’نئے سہاروں‘‘سے مستغنی ہوگیا ہے تو پھر آخر اس بلوغ دہنی کے بعد ’’پرانے سہاروں‘‘کی بھی کیا ضرورت ہے‘‘؟ 
(
ترجمان القرآن لاہور اکتوبر1952ء صفحہ141)

کیوں جناب حامد میر صاحب بقول مودودی صاحب ملک جعفر صاحب کی اسلام کی جڑ کاٹنے والی ختم نبوت چلے گی۔ اور اسی ختم نبوت والی تقریر کی یاددہانیاں آپ لوگوں کو کروارہے تھے۔ بھلے مانسو اُس جاہل پٹھان کی طرح جو سردار کے سینے پر چڑھا اعلان کر رہا تھا کہ کلمہ پڑھو نہیں تو میں تمہیں واصل جہنم کردوں گا۔ مگر جب سردار نے کہا چلو پھر پڑھاومجھے وہ کلمہ ۔ تو پٹھا ن نے کہا تھا کہ یارا وہ تومجھے نہیں آتا پر تم کلمہ پڑھو ۔ ابھے بھلے مانسو !یہ جو روز تم اپنے کالموں میں ختم نبوت کی حفاظت کے نعرے لگاتے رہتے ہو پہلے یہ تو طے کرلو کہ کس ختم نبوت کی حفاظت کرنی ہے ۔ مودودی صاحب والی یا ملک جعفر صاحب والی۔

4 Comments