تاریخی پس منظراور دسمبر کی کشمکش

آفتاب احمد 

ماہ دسمبر کے واقعات کو پاکستان میں کافی اہمیت دی جاتی ہے ۔ ان دنوں اسے ایک قوت اسے اے پی ایس کے معصوم بچوں کے خون کے نام پر پاک فوج کی حرمت کو بڑھانے کی کوششوں میں مصروف اور حب الوطنی کا درس دے رہا ہے اور کچھ اپنے دکھ اور کرب کا تاثر دے کر دہشت گردی سے بیزاری کا اظہار کررہے ہیں۔ کچھ بنگال میں مظالم کا بھی ذکر فرما رہے اور پاک فوج کی پسپائی کا جشن بناکر اسے بے نقاب کرنے میں مصروف ہیں ۔

اچھی بات ہے کہ پاکستان میں سوچوں کا ٹکراؤپیدا ہورہاہے ۔اس سے شعور بھی آگے بڑھتا ہے ۔لیکن جب تک اے پی ایس جیسے دہشت گردی کے واقعہ کے پس منظر کو نہیں سمجھا جائے گا ۔جب تک پاکستان کی تاریخ کا درست تجزیہ نہیں کیا جائے گا ،جب تک عوامی شعور جاگیردارانہ باقیات سے نکل کر بلند نہیں ہوگا ، اس وقت تک عوام کا مذہب ،فرقہ،قبیلا،زبان ،علاقہ، قومیت اور قوم وغیرہ کے نام پر بے رحمانہ بیوپار جاری رہے گا ۔

معصوم انسانوں کے خون پر پاکستانی،ملاں ،جرنیل اور جاگیردار منافع کماتے رہیں گئے۔ان کے لیے انسان زندہ ہوکر بھی منافع کا ایک ذریعہ ہے اور مر کر بھی ۔نماز ،دعا،تعویز ،نبوت ،حب الوطنی جن سے غریب نجات،سہارا،سکون ،رسالت پر ایمان،اور فخر و قوت کا اظہار کرتا ہے ۔یہ سب ان کے (ملاں،جرنیل،جاگیردار) لیے ایک منافع بخش کاروبار ہے ۔

22اکتوبر1947کو دیکھو تو اسی طرح ریاست جموں کشمیر لہولہان ہوئی ،انسانوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے،معصوم عورتیں اور بچے زندہ جلائے گئے ،عورتوں کے زیور ات کی چھیننے ہوئے ان کے ہاتھ ،کان اور انگلیاں کاٹی گئیں ،بنگال میں تاریخی وحشت برپا ہوئی ،افغانستان میں جہاد کے نام پرہزاروں بچے، اورنوجوان جھونکے گئے ، بلکہ ایک بھرتے ہوئے معاشرے کو آج سامراجیوں کی کالونی بنا کر رکھ دیا گیا۔بلوچستان میں گماشتہ حکمرانوں اور جرنیلوں کو چھوڑکر شاید ہی کوئی بلوچ گھرانہ بچا ہو جہاں نعش کا تحفہ نہ دیا گیا ہو،اور یہ کھیل مسلسل جاری ہے ۔

تاریخ کے سارے واقعات نہ سہی لیکن چند معروف واقعات ہیں یہ ۔کیا یہ سب حب الوطنی تھی یا مذہبی فریضہ تھا؟یہ سب منافع کا کھیل تھا ۔اور آج اس ملک میں جو کھیل جاری ہے جو تصادم ہے وہ منافع کی بندر بانٹ اور حصہ داری کی لڑائی ہے ۔یہ سارے کھیل ملاں،جرنیل اور جاگیردار اتحادکا ہے،یہ ان کے مفاد کے تحفظ کی لڑائی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہی قاتل ہیں ۔

پاکستان کی تاریخ چھان کر دیکھ لیں ان کے اس کاروبار کے خلاف جب غریبوں نے آواز اٹھائی تو وہ ملک دشمن ،ایجنٹ اور مذہب دشمن اور غدار بنادیئے گئے ،ان کے میڈیا میں موجود چمچے آج بھی یہی فیکٹریاں لگائے ہوئے ہیں۔ جب کسی سول حکمران نے ان کے راستے کی رکاوٹ بنے کی کوشش کی تواسے اندرون ملک مصنوعی بحران پیدا کر چلتا کردیا گیا،جب کوئی واپس ٹکرایاتو انصاف کے اعلیٰ ادارے تو ان کی جیب میں ہوتے ہیں۔

پاکستان میں اکثر یہ طعنے دیئے جاتے ہیں اور حقیقت بھی ہے کہ سیاستدان بننے کے لیے بھی ان کی بیعت کرنی پڑتی ہے ۔یہ آج بھی جو احتجاج کلین شیو ملاؤوں سے کرواتے ہیں وہ بھی اسی منافع کی بڑھوتری کا تسلسل ہے ۔بے مقصد اور بے معنی احتجاج کرکے یہ مالی اور سیاسی فائدے اٹھاتے ہیں۔ایک تو ان کا منافع اورمراعات میں اضافہ ہوتا ہے تودوسری طرف غریب اور پسے ہوئے وسیع ہوئے عوام کا لفظ احتجاج اعتماد ختم کیا جارہا ہے ۔ان کا یقین ختم کیا جارہا ہے ۔تاکہ وہ اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز نہ اٹھا سکیں۔کوئی مزاحمت نہ دے سکیں ۔وہ ان کے ظلم وجبر اور کے لیے مزاحمتی احتجاج نہ کریں بلکہ اس قدراحتجاج سے نفرت کریں کہ وہ صحت ،روزگار اور تعلیم کا حق مانگنے کی بجائے تعویذ اور دعا پر گزارا کرتے رہیں اور ملاں اور یہ منافع کماتے رہیں ۔

یہ عوام کی شعور پسماندگی کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ اس کا درست تجربہ محکوم قوموں سے جاکر پوچھیں ۔یا جاکر خود تجربہ کرلیں ہم نے نوازشریف کے دور حکومت میں خود مشاہدہ کیا کہ جب بھی نوازشریف کو جرنیلوں نے ڈیل کے لیے دباؤ میں لانا تھا نہ صرف ملاں اور سیاستدان استعمال کیے بلکہ عوام کو حکومت مخالف بنانے کے لیے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے کنٹرول لائن کے علاقوں سے دہشت گرد بھارتی مقبوضہ کشمیر بھیجنا شروع کردیئے ۔

اور جب وہ بھارت کی قابض فوج پر حملہ کرتے ہیں تو جواب میں بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پرآباد عوام کا جینا حرام کردیتی ہے ۔اور یہ ذرائع ابلاغ میں مودی نوازشریف دوستی کا طعنہ دے کر پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ نوازشریف کی حمایت کے لیے مودی نے گولہ باری شروع کردی ہے ۔ عوام کے جذبات بھڑکاتے ہیں انھیں استعمال کرتے ہیں۔

کنٹرول لائن کا انسان بھارت قابض فوج کی گولیوں کا نشانہ بنتا ہے تو یہ اس کے خون پر کاروبار کرتے ہیں ۔

ائے پی ایس کے معصوم بچوں کے قتل عام میں جہاں ان کا کہنا ہے کہ طالبان نے کیا ہے تو یہ طالبان کس نے پیدا کیے ،یہ کس نے تیار کیے ان کو پالا کس نے ؟

جبکہ ان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مصنوعی بحران پیدا کر کے معصوم انسانوں کو استعمال کرکے انہوں نے انتہائی پسماندہ قسم کی جاگیردارانہ جمہوریت کو بھی مجبور کیا ۔تو اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ واقعہ انہوں نے داخلی مصنوعی سیاسی بحران کو باعزت ختم کرنے کے لیے خود کیا ہو ۔
اس لیے آج پاک صاف بن کر باہر دشمن تلاش کرنے کی بجائے تاریخ کی روشنی میں عوام کو اپنے گھر میں موجود دشمنوں اور ان کی پالیسیوں کو سمجھنا ہوگا ۔

ورنہ ریاست جموں کشمیر میں 1947میں انہوں نے جوکھیل کھیلا اس کا عوام کو یہ فائدہ ہوا کہ ان کا ملک تقسیم ہوااورآدھے وسائل یہ لوٹ رہے ہیں اورآدھے بھارت لوٹ رہا ہے۔پاکستانی مقبوضہ کشمیر سے سالانہ اربوں ڈالر کی معدنیات،جنگلات ،پانی اور دیگر وسائل یہ لوٹ لیتے ہیں۔اور کشمیری سعودیہ عرب میں دو دو سال سے تنخواہوں کا نتظار میں ہوتاہے آجکل۔انھیں سعودیہ بھیج کر اتنا احسان کیا کہ اپنا پیدا نہ کرنا بلکہ سعودیہ سے کما کرپنجاب کی ملوں کی مصنوعات خریدو جس پر آج بھی کشمیریوں کو بہت فخر ہے۔

البتہ انہوں نے ہر محکوم قوم میں اپنے گماشتے پیدا کررکھے ہیں انھیں تھوڑی بہت سیاسی نوکری یا فوجی نوکری یا چھوٹی موٹی مراعات دے دیتے ہیں ۔بلکہ 1947میں بھی ان کے چمچے جو استعمال ہوئے ان کو اور ان کی اولادوں کوبھی کسی حد تک سیاسی اور فوجی نوکریاں دیں انہوں نے ۔

اسلیے یہ معصوم انسانوں کے قاتل ہیں ۔انھیں کوئی سپریم کورٹ یاعدالت سزا نہیں دے سکتی یہ سب ان کی محافظ ہیں۔ان کو صرف اور صرف عوامی شعور سے سزا دی جاسکتی ہے۔وہ بھی اس وقت جب عوام کو دشمن اور دوست میں امتیاز ہوگا۔جب عوام یہ سمجھ جائے گی کہ ان کے اصل دشمن ملاں،جاگیردار اور جرنیل ہیں ،یہ اسی وقت ممکن ہوگا۔ورنہ آج بھی ایک وسیع حصہ عوام فتوے بانٹنے میں مصروف ہے۔

Comments are closed.