میرتقی میرؔ اورپطرسؔ بخاری کی سگ شناسی

طارق احمدمرزا

میرتقی میرؔ صاحب کو(جو میرے نزدیک اپنے زمانے کے ایک ترقی پسند’’بلاگر‘‘تھے) ایک مرتبہ برسات میں مجبوراً ایک سفر کرنا پڑ گیاتھا۔سفرکیا تھاسمجھیے کہ جبری طور پر سیلاب زدگان میں شامل ہوکر ایک بستی میں پہنچا دئے گئے تھے۔اس یادگار سفراور مذکورہ بستی کا حال آپ نے ایک مثنوی بعنوان ’ ’ نسنگ نامہ ‘‘ میں لکھا۔

معلوم ہوتا ہے جس بیل گاڑی میں لد کر کیچڑ کے چھینٹوں میں لت پت ہچکولے لیتے میر ؔ وہاں پہنچے تھے وہ ایک ایسی ٹائم مشین تھی جو مستقبل کی سیر کرواتی تھی چنانچہ وہ بستی جہاں میر صاحب پہنچے معلوم ہوتا ہے وہی بستی تھی جسے آجکل پاکستان کہتے ہیں۔اس بستی کی ایک خاص سوغات وہاں کے کتے تھے جوکچھ اس طرح سے میر صاحب کے حواس پہ طاری اوراور اعصاب پہ حاوی ہوکر رہ گئے کہ ایک آدھ نہیں لگ بھگ اٹھائیس اشعار کتوں کی شان میں لکھ ڈالے۔طوالت کے خوف سے ان میں سے چند ایک پیش ہیں:۔

کتوں کے چاروں اور رستے تھے۔کتے ہی واں کہے تو بستے تھے
سانجھ ہوتے قیامت آ ئی ایک۔شورعف عف سے آفت آئی ایک
لوگ سوتے ہیں کتے پھرتے ہیں۔لڑتے ہیں ،دوڑتے ہیں،گرتے ہیں
جاگتے ہو تو دُوبدو کتے۔۔سوکراٹھو تو رُوبروکتے
باہراندرکہاں کہاں کتے۔بام ودر چھت جہاں تہاں کتے
کتے یارو کہ جان کا تھاروگ۔جاں بلب ہوں نہ کس طرح سے لوگ
آدمی کی معاش ہو کیوں کر۔۔کتوں میں بودوباش ہو کیوں کر

کتوں کی اس بستی میں جو لوگ بودوباش رکھتے تھے اس کی خصلتوں کا عالم بھی میرصاحب نے بیان فرمایا:۔

اور دس بیس گھر گنواروں کے۔۔اور دوچارفاقہ ماروں کے
راہ ورسم و طریق سب بے ڈھب۔پہلے گالی تھی پیچھے حرف بہ لب
کوسوں بھا گااگر ملا کوئی۔۔صحبت ایسوں سے رکھے کیاکوئی

اور وہاں کے کارپردازوں کاحال:۔

کارپردازوں کو تقیّد ہے۔۔شورہے ،گالی ہے، تشدد ہے
وے بیچارے بہانے کرتے ہیں۔رات دن لوگ چوکی بھرتے ہیں

(کلیاتِ میر۔شائع کردہ اردو دنیاکراچی۔ایڈیشن 1958)

یہ جو’’ کتا خصلت ‘‘ہے یہ انسانوں میں بھی آجاتی ہے۔اس گہری نفسیاتی کیفیت کا ذکرقرآن کریم نے بھی بیان کیاہے۔آج یہ خصلت پاکستانی معاشرے پہ جس طرح سے حاو ی ہوچکی ہے میرتقی میر نے اس کا نظارہ اس’’ٹائم مشین‘‘ میں بیٹھ کرآج سے دو سوسال قبل کرکے اپنے’’ بلاگ ‘‘یعنی دیوان میں محفوظ کردیا تھا۔واضح رہے کہ اُس زمانہ کے بلاگرز مفلسی اور بھوک کے ہاتھوں غائب ہو جایاکرتے تھے،آج کل کے بلاگرز کو اغوا کرکے غائب کردیا جاتا ہے۔

نظم میں اگر میرتقی میر’’سگ شناس‘‘ واقع ہوئے تھے تو نثر میں یہ مہارت احمد شاہ پطرس بخاری کوحاصل تھی۔ان کا مضمون ’’کتے‘‘کسی زمانے میں درسی کتب میں شامل نہیں ہوا کرتا تھا۔اس کی وجہ پطرس کو معلوم تھی یا نہیں لیکن بقول شخصے کچھ’’ کتوں‘‘ کو ضرور معلوم تھی۔ہم جب فرسٹ ائر کے طالبعلم بنے تو اردو کے نصاب میں اس مضمون کو شامل پایا۔ہمارے اردو کے استاد بہت ہی محتاط واقع ہوئے تھے،اس مضمون کی تشریح تو کیا اس کا سلیس اردومیں ترجمہ بھی اس کے اصل سیاق و سباق یا مجازی ،حتیٰ کہ اختلافی یاطبقاتی نکتہ نگاہ سے بھی کرنے سے ہمیشہ احتراز ہی کیا،حالانکہ شکل وصورت اور حلیے سے اچھے خاصے کامریڈ دِکھتے تھے۔غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ موصوف جانتے تھے کہ یہ بچے کتورے(معاف کیجئے گا میرا مطلب ہے بچے جمورے) تھوڑا بلوغ اور شعور کے ناخن لیں گے تو خود ہی سمجھ جائیں گے ۔

آج کتنے ہی دھرنوں اور عف عف ،ہش ہش کے بعدمیر ؔ کے نسنگ نامے کا ایک ایک شعراور پطرس کے مضمون ’’کتے‘‘کا لفظ لفظ جس طرح سمجھ میں آتاجارہاہے آج سے کئی دہائیاں پہلے واقعی ناممکن تھا۔
دور کیوں جائیں گزشتہ دو برسوں کے پاکستان کی موٹی موٹی خبروں کوہی پطرس بخاری صاحب کے مندرجہ ذیلجملوں کی روشنی میں پڑھیں توسمجھ آجاتی ہے کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔

’’جب تک اس دنیا میں کتے موجودہیں اوربھونکنے پرمصرہیں سمجھ لیجئے کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں‘‘۔

’’اگرکوئی بھاری بھرکم کتاکبھی کبھی اپنے رعب اور دبدبے کوقائم رکھنے کے لئے بھونک لے توہم بھی چاروناچار کہہ دیں کہ بھئی بھونک۔۔۔لیکن یہ کم بخت دوروزہ،سہ روزہ،دودوتین تین تولے کے پلے بھی تو بھونکنے سے بازنہیں آتے۔‘‘

’’کتوں کے بھونکنے پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی آوازسوچنے کے تمام قویٰ معطل کردیتی ہے،خصوصاً جب کسی دکان کے تختے کے نیچے سے ان کا ایک پوراخفیہ جلسہ باہر سڑک پر آکر تبلیغ کا کام شروع کردے تو آپ ہی کہیئ ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟۔ہر ایک کی طرف باری باری متوجہ ہونا پڑتا ہے۔کچھ ان کا شور،کچھ ہماری صدائے احتجاج(زیرلب)،بے ڈھنگی حرکات و سکنات  (حرکات ان کی سکنات ہماری)،اس ہنگامے میں دماغ بھلا خا ک کام کرسکتا ہے؟۔

اگر چہ یہ مجھے بھی نہیں معلوم کہ اگر ایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی تو کیاتیرمارلے گا؟بہرصورت کتوں کی یہ پرلے درجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابلِ نفرین رہی ہے۔اگر ان کا ایک نمائندہ شرافت کے ساتھ ہم سے آکر کہہ دے کہ عالی جناب،سڑک بند ہے تو خدا کی قسم ہم بغیر چون وچرا کئے واپس لوٹ جائیں، اور یہ کوئی نئی بات نہیں ،ہم نے کتوں کی درخواست پر کئی راتیں سڑکیں ناپنے میں گزار دی ہیں لیکن پوری مجلس کا یوں متفقہ و متحدہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے۔‘‘

’’اگر خدا مجھے کچھ عرصہ کے لئے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا فرمائے توجنونِ انتقام میرے پاس کافی مقدار میں ہے۔رفتہ رفتہ سب کتے علاج کے لئے کسولی پہنچ جائیں‘‘۔

فی الحال حالت یہ ہے کہ ایک خارش زدہ لاغر فقیر ٹائپ کتے کی زبان سے ایک گیدڑ بھبکی سن لینے کے بعدہم پر’’اسی و قت رعشہ شروع ہوجاتا ہے۔بعد میں کئی راتوں تک یہی خواب نظرآتے رہتے ہیں کہ بے شمار کتے ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور جانے نہیں دیتے۔آنکھ کھلتی ہے توپاؤں چارپائی کی ادوائن میں پھنسے ہوتے ہیں!‘‘۔

(پطرس کے مضامین ۔شائع کردہ مکتبہ جامعہ نئی دہلی لمیٹڈ۔ ایڈیشن2011۔صفحہ 59 تا 65)

قارئین کرام ،پاکستان ی شریف سول سوسائیٹی کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ وہ ان مختلف قسم کے کتوں (جن میں سے ’’ہر ایک کی طرف باری باری متوجہ ہونا پڑتا ہے‘‘)کے خلاف جنونِ انتقام سے تو لبریز ہے لیکن بھونکنے اور کاٹنے کی صلاحیت سے عاری ہے ۔ اس کی مزاحمت سوتے ہی نہیں جاگتے ہوئے بھی خوف وڈر کی چارپائی کی ادوائن میں بری طرح پھنسی رہتی ہے جس سے رگڑ کھا کھاکر اس کے پیروں اور پنڈلیوں سے رسنے والا خون اس کے کسی تصوراتی انقلاب کی راہ میں لال جھنڈی بنا پاکستان کے افق پر لہراتاہی چلاجارہاہے۔

فیضؔ نے اسی بے بسی کانقشہ کچھ یوں کھینچا تھاکہ

ہے اہلِ دل کیلئے اب یہ نظم بست وکشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اورسگ آزاد