نورجہاں، فتورِ جہاں نہیں، بلکہ فخرِجہاں ہے

آصف جاوید

اگر آپ قلم کار ہیں، اور اظہارِ رائے کی چھتری کے نیچے پناہ گزیں ہیں، تو آپ اظہارِ رائے کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔ ہر طرح کے موضوعات کو قلمبند کرسکتے ہیں، آپ کسی بھی موضوع کا انتخاب کرسکتے ہیں، کسی بھی سماجی ، معاشی، سیاسی مسئلہ پر اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں، کسی کے فن پر بات کرسکتے ہیں، آپ کسی کی شخصیت پر تبصرہ کرسکتے ہیں، اور اگر تکلیف زیادہ ہو تو اس شخصیت تنقید بھی کرسکتے ہیں، شخصیت کے محاسن اور عیوب بھی بیان کرسکتے ہیں، مگر کسی شخصیت کی تذلیل نہیں کرسکتے، اور وہ بھی ایسی شخصیت کی تذلیل جو زندہ ہی نہ ہو، اپنے اوپر لگائے گئے الزامات، اور اپنے اوپر کئے گئے تبصروں کا جواب دینے سے قاصر ہو، کیونکہ یہ اظہارِ رائے کی آزادی کا بے جا اور غیر مناسب استعمال ہے۔ قلم کی حرمت اور سماجی اخلاقیات کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کچھ بھی لکھیں اور چھپواد یں۔

یہ ذمّہ داری ذرائع ابلاغ کے ناخداؤں یعنی اخبارات اور میگزین کے ایڈیٹروں کی ہوتی ہے، کہ کسی بھی تحریر کو شائع کرنے سے قبل وہ اس تحریر کےسماجی و اخلاقی پہلوؤں ، اظہارِ رائے کی آزادی کی حدود و قیود، سماجی حرکیات، اور اپنے اختیارات کی اخلاقی ذمّہ داریوں کا لحاظ رکھیں، اور آزادیِ اظہار کے نام پر غلاظت کی ٹوکریوں اور کیچڑ کی بالٹیوں کو تحریر کے لبادے میں اپنے صفحات پر جگہ نہ دیں، انہیں شائع نہ کریں۔

اردو آن لائن میگزین ہم سبنے برِّ صغیر پاک و ہند کی بے مثل گلوکارہ، مرحومہ و مغفورہ ، محترمہ نورجہاں کی کردار کشی پر مبنی مضمون کو شائع کرکے نہ صرف پیشہ ورانہ بددیانتی بلکہ صحافیانہ وسفلانہ گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ مورخہ 25 دسمبر ، سنہ 2017 کو آن لائن میگزین ہم سبکی ویب سائٹ پر ایک مضمون بعنوان نور جہاں، فتورِ جہاں شائع ہوا، جو کسی محمّد عطاء اللہّ صدّیقی کی تحریر ہے۔ اور ہم سب نے اسے ایک کہنہ مشق صحافی، قلم کار اور دانشور جناب وجاہت مسعود صاحب کی ادارتِ اعلیاور جناب عدنان خان کاکڑ صاحب کی ادارت میں شائع کیا ہے۔

دونوں ہی نام معتبر ہیں، گو کہ عدنان کاکڑ صاحب ذرائع ابلاغ میں مسندِ ادارت پر ابھی نو واردوں میں ہی شمار ہوتے ہیں، مگر صائب الرائے اور از خود قلم کار ہیں، اچھوتے موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں، اور ہم سب میں شائع ہونے والی ہر تحریر ان کی نظر اور قلم زدگی سے گزر کر ہی شائع ہوتی ہے، نہ جانے سہوایا عمدااتنی بڑی اور فاش غلطی کیسے کرگئے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کی نام پر غلاظت کے ٹوکرے کو تحریر سمجھ کر شائع کرگئے۔

مجھ میں تو تحریر کے اقتباسات کو یہاں درج کرنے کا حوصلہ نہیں ہے، لہذا میں اپنے قارئین کے لئے یہاں ہم سب میں شائع کردہ تحریر کا لنک دے رہا ہوں، قارئین سے درخواست ہے کہ اسے پڑھ کر اپنی رائے قائم کریں، میں تو بس اپنے قلم کار دوست اور بلوچ قوم پرست رہنماء ذوالفقار علی زلفی کی زبان میں یہ احتجاج کرسکتا ہوں کہ مدیرِ محترم وجاہت مسعود اور کاکڑ صاحب ایسے نہیں چلے گا۔

لبرل کہلوانے کا شوق ہے تو لبرل اقدار بھی اپنائیں ـمیڈم نورجہان سر، ساز اور تال کی دنیا میں ایک عظیم اور قابلِ احترام مقام رکھتی ہیں ـ وہ نہ خودکش بمبار تھیں اور نہ ہی نفرت پھیلانے والی مبلغّہ ـ انہوں نے معاشرے کو نقصان نہیں پہنچایا ،بلکہ فن کے مختلف پہلووں کے ذریعے روحانی و قلبی سکون فراہم کیا ـ ان کا فن ہر انسان کے دل کے تاروں کو چھیڑ کر روح تک کو سیراب کرتا ہے ـ سُر زندگی ہے، ساز و تال مسرت کے حصول کے ذرائع میں سے اہم ترین ذریعہ ہیں ـ میڈم نورجہاں نے انسانوں کو یہ ذریعہ فراہم کیا، اور کروڑوں دلوں کو خوشی کی نعمت سے بھردیا ـ

ادارہ ہم سب جو خود کو پاکستان کا لبرل جریدہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اظہار رائے کا خود ساختہ چیمپئین بنا پھرتا ہے اپنے میگزین کی جانب سے حق آزادی اظہار رائے کے نام پر ایک قے آور کالم نما بدبودار ملغوبہ شائع کرتا ہے یقیناً یہ بدبودار ملغوبہ موسیقی کے ہر شائع کی دل آزاری کا سبب بنا ہو گا۔ کیا انسانی اقدار کے تحفظ کے دعویدار جریدہ کا شیوہ یہی ہونا چاہیے؟

کیا اظہارِ رائے کی آزادی کا مطلب فن کی بلند ترین چوٹی پر فروکش فنکارہ پر لعن طعن کی سنگ باری کرنا ہے؟ ـ سنجیدگی اور علمیت کا یہ کونسا معیار ہے؟ ـ

کیا سنجیدہ علمی مباحث کے نام پر فنکار ہ کو اس کے شلوار کے ناڑے کی مضبوطی سے ناپنا ہی لبرل ازم ہے؟

ادارہ ہم سب فنِ موسیقی کے روحانی علم کی توہین کا مرتکب ہوا ہے ـ موسیقی کے ایک ادنی و حقیر شائق کی حیثیت سےہم سب کی نہ صرف شدید مذمت کی جاتی ہے بلکہ ادارے کے ہر فرد سے اس ضمن میں شدید احتجاج کیا جاتا ہے ـ برِّ صضیر پاک و ہند کی اِس عظیم فن کارہ کے خلاف قابلِ نفرت تحریر ناقابلِ برداشت ہے، وجاہت مسعود صاحب ہمارا احتجاج نوٹ کرلیں۔

اور ایسا بالکل بھی نہیں چلے گا ـ

میرے خیال میں آرٹیکل لوگوں نے پڑھ لیا ہے اس لیے یہاں اس کا لنک دینے کی ضرورت نہیں۔۔ایڈیٹر

8 Comments