سقوط ڈھاکہ یا سقوط پاکستان؟

جمیل خان

آپ یقیناً اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ ایسے گھرانے جہاں بڑے اپنے چھوٹوں کو اعتماد عطا کرتے ہیں، محبت و شفقت کا برتاؤ کرتے ہیں، اور محض انہیں ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے طعن و تشنیع کرنے کے بجائے ان کے حقوق کی ادائیگی کے لیے ہر ممکن کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے ہی گھرانوں میں بڑوں کا احترام کیا جاتا ہے اور بڑوں کی جانب سے ملنے والی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ پورا کیا جاتا ہے۔

جبکہ ایسے گھرانے جہاں بڑے محض چھوٹوں کو ان کی کوتاہیوں پر لعن طعن کریں، گھر میں بات بات پر توتکار ہوتی رہے اور چھوٹی چھوٹی بات پر ڈانٹ ڈپٹ کی آوازوں سے گھر کی فضا مکدر رہے تو ایسے گھرانوں میں چھوٹے بڑوں کی جائز تنبیہ کو بھی نظرانداز کرکے گھر سے باہر محبت تلاش کرتے ہیں۔ گھر کے بڑوں سے زیادہ دوستوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ دیر یا سویر ایسے گھرانے بالآخر بکھر جایا کرتے ہیں۔

ملک اور قوموں کا معاملہ بھی ایک گھر کی مانند ہی ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک میں ایک سے زائد قومیں، برادریاں ایک عمرانی معاہدے کے ساتھ اکھٹا ہوتی ہیں۔ ملک میں بھی کسی گھر کی مانند ہی چھوٹوں اور بڑوں کے کردار موجود ہوتے ہیں۔ اگر ملک میں بڑے چھوٹوں کے حقوق ادا کرنے کے بجائے صرف ان کی ذمہ داریوں ہی پر زور دیتے رہیں، تو آئین کی صورت میں کتنا ہی جامع عمرانی معاہدہ موجود نہ ہو، ایسے ملکوں کا نام و نشان مٹ جایا کرتا ہے۔

اقتدار پر غالب طبقہ یا قوم جب محکوم اقلیتی طبقات یا قوموں کو معاشی، سماجی اور ثقافتی تحفظ فراہم نہیں کرے گا تو ظاہر ہے چھوٹی قوم یا محکوم طبقے پر بھی عمرانی معاہدے کی پاسداری لازم نہیں رہے گی، پھر ان کا ملک کی سرحدوں سے باہر دیکھنا اور اپنے ثقافتی، سماجی اور معاشی تحفظ کے لیے نئی راہوں کا تعین کرنا کیوں کر قابل گردن زنی سمجھا جائے گا۔

آج سولہ دسمبر ہے۔ مویشیوں سے بھی بدترین سطح کی عقل رکھنے والا پاکستان کا مذہبی طبقہ اس دن کو سقوط ڈھاکہ کا عنوان دیتا چلا آرہا ہے۔ اگر اس دن کو دیے جانے والے اس عنوان پر ہی تسلی سے غور کرلیا جائے تو اس طبقے کی فکری محدودیت کا باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دراصل مذہبی طبقے کو اپنی جہالت کی غلاظت پر لوٹ پوٹ ہونے کی آزادی اس لیے چار دہائیوں تک میسر رہی، کہ ہمارے ملک پر ایک آنکھ کے حامل دجال کی حکومت رہی اور اس یک چشم نے ایک ہی نکتہ نظر کو رائج کرکے دوسری تمام آوازوں کو خاموش اور روشنی کے تمام روزنوں کو روایات کے بوسیدہ اور دھجیوں میں تبدیل ہوتے بدبو دار ٹاٹ سے بند کرڈالا۔

دوسرا زاویہ نظر یا تو موجود ہی نہیں تھا، یا اگر تھا بھی تو اس کو سننے والا ہی کوئی نہ تھا۔ کچھ لوگ ضرور تھے جو اندھوں کے شہر میں آئینے فروخت کرنے میں اپنا آپ فراموش کرکے تاریکی میں گم ہوتے جارہے تھے۔ چار دہائیوں کے دوران کسی نے بھی شاید سقوط ڈھاکہ کے احمقانہ عنوان پر حرف زنی نہ کی، نہ ہی کسی فورم کے ذریعے کدّو نما کھوپڑیوں پر، جن میں بھیجہ نہیں بھونسا بھرا تھا، کسی نے یہ کہتے ہوئے ضرب نہ لگائی کہ ’’کہاں کا سقوطِ ڈھاکہ؟…. ڈھاکہ تو اس وقت بھی موجود تھا، اور آج بھی موجود ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔‘‘
ہاں تاریکیوں کے پجاری ضرور اس کی ترقی کی رفتار کو سست کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

لیکن اس سب کے باوجود یہ سوال آج کہیں زیادہ شدت کے ساتھ کیا جانا چاہئے کہ آج جس خطے کا نام پاکستان رکھا ہوا ہے، اس خطے کے لوگ مرحوم پاکستان کے مشرقی بازو کے لوگوں کی اوقات کو ٹکے ٹکے کی سمجھ کر ان کا مضحکہ اُڑایا کرتے تھے۔ ٹوٹے پھوٹے اس ٹکڑے جس کو پاکستان کہہ کر اترایا جاتا ہے، آج ڈھاکہ اور سونار بنگلہ کے لوگوں نے اس پر برتری حاصل کرلی ہے۔ ان کا ٹکہ روپیے سے آگے نکل چکا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ترقی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری وہاں منتقل ہوچکی ہے۔ ہماری گارمنٹس کی دکانوں پر بنگلہ دیش کی پروڈکٹس چین، ملائیشیا اور تھائی لینڈ سے مقابلہ کررہی ہیں۔

ہر بات میں سازش کی بو سونگھنے والے، کبھی اپنے اعمال کی بدبو بھی محسوس کریں۔ ٹھیک ہے کہ مکتی باہنی کو ہندوستان کی مدد حاصل تھی۔ ٹھیک ہے کہ مجیب الرحمان نے ہندوستان کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔ لیکن کیوں؟

گھر میں اگر دو بھائیوں میں ان بن ہوجائے تو ان کے شریفانہ طریقے سے الگ ہوجانے میں ہی بھلائی ہوتی۔ لیکن کیا کیا جائے اس جنونی مذہبی سوچ کا کہ پاکستان تو قیامت تک کے لیے قائم رہنے کے لیے تخلیق ہوا ہے، یہی سوچ ہے جس نے دن رات قیامتیں برپا کر رکھی ہیں۔

مفلس سے پوچھیں، اس کے لیے تو ہر وہ دن قیامت کا ہی ہوتا ہے، جب فیس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اس کے بچوں کو اسکول سے نکال دیا جاتا ہے۔ اور قیامت کا پوچھنا ہے تو ان والدین سے پوچھیں جن کو اپنے گمشدہ نوجوان بچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ ان سے پوچھیں جن کے عزیز و اقرباء وحشی مذہبی درندوں کے خودکش حملوں کا شکار ہوچکے ہیں۔

ایسا ہی کچھ کبھی بنگالیوں کے ساتھ بھی کیا جارہا تھا، ذرا سوچیے تو سہی کہ ان کے دل میں جو جذبات ابھرتے ہوں گے، ان کو تین لائنوں میں اس طرح ہی بیان کیا جاسکتا ہے:

’’ قیامت! آخ تھو!

مذہب! آخ تھو!

مملکت خداداد؟ آخ تھو!‘‘

یہ بات اب بھی گرہ میں نہ باندھی گئی تو اناللہ پڑھنی چاہئیے کہ جب مقتدر اشرافیہ محکوم طبقات اور قوموں کو معاشی، سماجی اور ثقافتی تحفظ فراہم نہیں کرسکتی تو اس کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسروں پر انگلیاں اٹھائے۔

پاکستان کے ٹوٹنے اور بکھرنے کی ابتداء تو اس وقت ہی ہوچلی تھی، جب پاکستان کے بانی نے ڈھاکہ میں کہا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی، حالانکہ وہ خود اردو بولنا اور پڑھنا نہیں جانتے تھے، اور رومن حرفوں میں لکھی گئی اردو تقریر پڑھا کرتے تھے۔ اس اعلان کے خلاف بنگالی طلبہ کے احتجاج کو مغربی خطے کی اشرافیہ نے طاقت سے روندنے کی کوشش کی، اس تحریک میں جس دن پہلا طالبعلم ہلاک ہوا، اس تاریخ کو یادگار بنا کر پوری دنیا زبانوں کا عالمی دن مناتی ہے۔ نسیم حجازی زدہ، انصارعباسیوں اور زیدحامدیوں کی غلیظ سوچ سے لت پت اذہان کبھی یہ سوچنے کی زحمت کریں گے کہ جس طالبعلم کو پوری دنیا ہیرو قرار دے رہی ہے، تو جس کے اعلان کی وجہ سے اور جس فورس کی گولی سے وہ ہلاک ہوا تھا، اس کے متعلق دنیا کی کیا رائے ہوگی!

(چار برس پرانی تحریر جو شاید کبھی پرانی نہ ہو، اور اس میں اُٹھائے گئے سوالات ہمیشہ جواب طلب رہیں…. اس لیے کہ ہمارے ہاں ترقی معکوس کی رفتار میں الحمدللہ ہر برس شدت سے اضافہ ہی ہوجاتا ہے)۔

Comments are closed.