عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت اور چیف جسٹس کے گلے شکوے

انور عباس انور

\جب سے عمران خاں کوسپریم کورٹ نے پاکدامنی کی سند جاری کی ہے اور حدیبیہ پیپرملز ریفرنس دوبارہ کھولنے کے لیے نیب کی اپیل مسترد ہوئی ہے ملک میں ایک طوفان برپا ہے، مسلم لیگ نواز کی جانب سے نیب کی اپیل مسترد کرنے پر اطمینان کا اظہار اور عمران خاں کو صادق و امین قرار دینے پر برہمی کا اظہار کیا کیا جارہا ہے۔جبکہ جہانگیر خان ترین کو تاحیات نااہل قراردینے کے فیصلے پر تحریک انصاف شور مچا رہی ہے کہ عدالت عظمی نے جہانگیر ترین کے خلاف تمام الزامات مسترد کردئیے گئے ہیں اور انہیں محض تکنیکی بنیادوں پر نااہل قراردیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے ایک ہی روز تین درخواستوں کے فیصلے ایک ساتھ سنائے۔ ملک میں پچھلے چند سالوں سے اہم ترین مقدمات کی فیصلے سنانے کے لیے جمعہ مبارک کے دن کا انتخاب کیا جانے لگا ہے۔ سپریم کورٹ کے ان فیصلوں پر تنقید کرنے والے یہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ یہ فیصلے سیاسی قوتوں کو بیلنس کرنے کے چکر میں صادر کیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تنقید کی شدت اور اسکے اثرات کی دھمک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار تک نے محسوس کی،جس کی نمایاں جھلک ان کی گزشتہ روز لاہور میں پاکستان بار کونسل کی تقریب سے ان کے خطاب کے لب و لہجہ سے واضح دکھائی دیتی ہے۔

گو کہ کچھ حلقے جناب چیف جسٹس کے خطاب کے بعض مندرجات کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ اپنے اس خطاب میں جناب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدلیہ پر کسی قسم کے دباؤ کی نفی کی اور اپنی صفائی میں یہاں تک کہا کہ وہ قسم اٹھانے کو تیار ہیں کہ ا ن فیصلوں کے لیے کسی طرف سے کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔

چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار نے اس حد تک کہا کہ ابھی کوئی دباؤ دالنے والا پیدا نہیں ہوا۔انہوں نے واضح کہا کہ اگر دباؤ ہوتا تو حدیبیہ کیس کا فیصلہ وہ نہ آتا جو آیا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے اس امر کی بھی وضاحت کی کہ عدلیہ کسی گریٹر پلان کا حصہ نہیں ، ہم نے آئین اور جمہوریت کے تحفظ کی قسم کھائی ہوئی ہے۔جناب چیف جسٹس نے کہا کہ تنقید کرنا اور فیصلوں میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کرنا غلط نہیں لیکن ججز کی نیت میں شک کرنا صحیح نہیں۔

ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ نے اپنے خطاب میں گاؤں کے اس نطام کی مثال پیش کی جس میں گاؤں کا ایک بابا( جسے چیف جسٹس نے بابا رحمتا کا نام دیا ہے)گاؤں میں سب کے تنازعات کے تصفیے کرتا ہے اور بابا کا فیصلہ جس کے حق مین ہوتا ہے وہ خوش ہوتا ہے اور جس کے خلاف ہوتا ہے وہ بابا کو گالیاں نہیں دیتا۔

چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کو بابا رحمتا قرار دیا اور کہا کہ اگربابا کسی کے خلاف فیصلہ دیتا ہے تو اسے بابا کو گالیاں نہیں دینی چاہئیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ملک میں اور بھی بہت مسائل ہیں اور میں عمران خاں اور نواز شریف میں پھنس کر رہ گیا ہوں یہاں چیف جسٹس نے متعدد مثالیں بھی پیش کیں۔

چیف جسٹس کے اس خطاب کے بعد اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں بہت لے دے ہورہی ہے ،کسی کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کو صفائیاں دینے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ کوئی کہتا پھرتا ہے کہ ججز تقریریں نہیں کرتے ان کے فیصلے بولتے ہیں، کوئی یہ اسدلال لاتا ہے کہ چیف جسٹس نے قسم کھانے کی بات کر کے خود شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے اور میڈیا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

چیف جسٹس صاحب کی بات میں بہت وزن ہے کہ عدلیہ سیاسی معاملات میں پھنس کر رہ گئی ہے اور اس ملک کے بہت سارے مظلوم لوگ عدلیہ میں دربدر پھر رہے ہیں ان کی عمریں گل چلی ہیں انصاف کے حصول میں خوار ہو رہے ہیں۔ یہاں ایک مثال پیش کی جا تی ہے کہ راولپنڈی کی ایک عدالت میں اداکارہ عتیقہ اوڈھو خلاف صرف 2 بوتل شراب کا کیس کئی سالوں سے زیر سماعت ہے، جس ملک کی عدالتیں محض دو بوتل شراب رکھنے کا مقدمہ کئی سال میں نہ نبٹا سکیں وہاں انصاف دینے کے دعوے بلا جواز نہیں تو کیا ہے؟ایسی دوچار نہیں ہزاروں کیس عدلیہ کی الماریوں میں پڑے دیمک کی خوراک بن رہے ہیں۔ 

چیف صاحب کے بابا رحمتا جیسے ہی سیانے بابے کہہ گٗے ہیں کہ جس معاشرے میں انصاف کا حصول مہنگا ہو اور دستیاب بھی نہ ہو تو وہ معاشرے نابود ہوجاتے ہیں۔ جناب چیف صاحب ! آپ کے پیشترو چیف صاحبان بھی ایسی ہی باتیں کرتے رہے اپنا دل کھول کر عوام اور عدالتی نظام سے جڑے خواص کے روبرو رکھتے رہے ہیں لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کچھ نہ کیا اور اپنا رعب دبدبہ دکھاکے رخصت ہوگئے۔

اگر آپ واقعی محسوس کرتے ہیں کہ عوام خصوصا سائلین کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہے تو سیاسی معاملات میں پھنسنے کی بجائے کروڑوں سائلین کے مسائل حل کرنے پر توجہ مرکوز رکھیں۔خصوصا اپنی ماتحت عدلیہ جسے خیر سے اعلی عدلیہ عدلیہ تسلیم بھی نہیں کرتی اس پر دھیان دیں اور عتیقہ اوڈھو جیسے کیسز جلد نبٹانے کے لیے ماتحت عدلیہ کو پابند کریں۔ اگر وہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی پاسداری نہ کریں تو انکی سالانہ کونفیڈنشنل رپورٹس روک لی جائیں بلکہ خراب لکھی جائیں تاکہ انہیں احساس ہو ۔

دوسرا عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کو بھی ایسے ریمارکس دینے سے منع کیا جائے جن سے عوام میں مقدمات کے فیصلوں کے متعلق منفی تاثر پیدا ہونے کا حتمال ہو۔ اس بات کا بھی انتظام کیا جائے کہ اعلی عدلیہ کے ججزفیصلوں میں ایسی نظیریں تحریر نہ فرمایاکریں جن کا مقدمات سے کوئی تعلق نہ ہو ۔میرا اشارہ پانامہ کیس کے فیصلے میں ..گارڈ فادر.کے ذکر کی جانب ہے۔ باقی آپ جہاندیدہ شخصیت ہیں، معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں۔

جناب چیف جسٹس صاحب ! جب مضوط ترین حیثیت کے حامل اور اعلی عہدوں پر فائز افراد عوام کے سامنے اشک بہانے لگیں اور اپنی مجبوریاں اور بے بسی کا اظہار کریں تو وہ خود بے توقیر ہوجاتے ہیں عوام سے انکی عزت وقار اور خوف ختم ہوجاتا ہے جیسے اس ملک کے مطلق العنان آمر جنرل ضیا ء الحق اپنے دور کے آخری مہینوں میں فوج کے کمانڈر اور ملک کے طاقتور صدر ہونے کے باوجود ٹیلی ویژن سکرین پر کرک کی ایک خاتون کے خط کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوا تو لوگوں نے سمجھ لیا کہ لوگوں میں خوف کی علامت آمر بے بس ہوگیا ہے ،اس کے ماتحت ادارے اور افراد اب اسکے قابو میں نہیں رہے۔تو کھیل ختم ہوگیا۔

Comments are closed.