یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے۔ انہوں نے امریکی سفارت خانے کو بھی تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اسے ایک ’تاریخی سنگ میل‘ قرار دیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے حل کے لیے ’نئی سوچ اور پالیسی‘ اپنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سفارت خانے کو بھی تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹیلی وژن پر براہ راست تقریر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ ایک طویل عرصے سے ملتوی کیا جاتا رہا ہے، ’’متعدد امریکی صدور اس حوالے سے کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔‘‘ ٹرمپ کے مطابق اگر فریقین چاہیں تو وہ ابھی بھی دو ریاستی حل کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے اسے ایک ’تاریخی سنگ میل‘ قرار دیا ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ کسی بھی امن معاہدے میں فلسطینیوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔

 نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی وزارت خارجہ نے دنیا بھر میں موجود اپنے سفارت کاروں کو بیس دسمبر تک اسرائیل، یروشلم اور مغربی کنارے کا غیر ضروری سفر نہ کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

امریکا کے اس فیصلے کی نہ صرف مسلم ممالک بلکہ یورپی یونین، جرمنی اور برطانیہ نے بھی مخالفت کی ہے۔ دوسری جانب کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے یروشلم کی صورت حال پر شدید  فکرمندی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی صدر کے اعلان سے پہلے پوپ نے تمام حلقوں سے یروشلم کی موجودہ حیثیت اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا احترام کرنے کی درخواست کی تھی۔ ان کے بقول یروشلم ایک منفرد شہر ہے اور یہ یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں کے لیے مقدس ہے۔

امریکی صدر کے اس اعلان سے پہلے ہی غزہ میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ فلسطینیوں نے امریکی پرچم نذر آتش کرتے ہوئے ’یروشلم ہمارا ابدی دارالحکومت ہے‘ جیسے نعرے بلند کیے۔ حماس نے آئندہ دنوں میں بھی مزید احتجاجی مظاہرے کرنے کی اپیل کی ہے۔ حماس کے سیاسی دفتر کر سربراہ اسماعیل ہانیہ نے عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے، ’’فلسطینی اس کا مناسب جواب دیں گے۔ عوامی طور پر امریکا کا یہ انداز قابل قبول نہیں ہے‘‘۔

ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا، ’’ٹرمپ یا اگر کوئی اور یہ سوچتا ہے کہ ہمارے لوگ، قوم یا مزاحمت سے ان کے منصوبوں کو واپس نہیں دھکیلا جا سکتا تو وہ غلط ہے۔‘‘ اسی طرح بیروت میں مظاہرین نے نعرے لگائے کہ ’’ٹرمپ تم پاگل ہو۔‘‘۔

عرب لیگ نے اپنے وزرائے خارجہ کا ایک ہنگامی اجلاس ہفتے کے روز طلب کیا ہے جبکہ ترکی نے صدر ٹرمپ کو جواب دینے کا موقع فراہم کرنے کے لیے آئندہ ہفتے اسلامی تعاون کی تنظیم ( او آئی سی) کا اجلاس بلایا ہے۔ دریں اثناء فلسطینی حکام نے کہا ہے کہ اب مشرق وسطیٰ کا امن عمل ’ختم‘ ہو گیا ہے۔

DW

Comments are closed.