کپتان اور شہباز میں کٹھ پتلی وزیر اعظم بننے کی دوڑ

ارشد بٹ

آئین اور قانون کی تشریح کرنا عدالت عظمیٰ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ آئین کی 62 اور 63 شقوں نے عدالت عظمیٰ کو اخلاقیات اور مذہب کے نام پر خدائی اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ ایسے آئینی اختیارات ایرانی نظام حکومت میں مذ ہبی راہنماوں کو حاصل ہیں۔ ایرانی آئین کے مطابق شوریٰ نگھبان یعنی گارڈین کونسل کو ایرانی آئین اور قانون کی تشریح کرنے کے اختیارات کے علاوہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی منظوری دینے کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔

شوری نگھبان کی صورت میں ایک غیر منتخب ادارے کی سند حاصل کئے بغیر کوئی شخص صدارتی یا پارلیمانی انتخابات میں امیدوار نہیں بن سکتا۔ عوام ووٹ کے آزادانہ استعمال سے محروم ہو کر مذہبی راہنماوں کے نامزد کردہ امیدواروں میں سے کسی ایک کو چننے کے پابند ہوتے ہیں۔ اسے ایران کے عوامی نمائندوں پر مذہبی راہبانیت کی بالادستی کے آمرانہ بندوبست سے تعبیر کرنا غلط نہ ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عدلیہ دھیرے دھیرے ایرانی شوریٰ نگھبان کا کردار اپنانا چاہتی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں عدلیہ کو دئے گئے اختیارات نے جمہوری نظام کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ ان شقوں نے منتخب اراکین پارلیمنٹ اور جمہوری حکومت کی بالادستی اور خود مختاری پر قدغنیں لگا رکھی ہیں جس سے منتخب اداروں کا جمہوری ارتقائی عمل متاثر ہو رہا ہے۔ اس بندوبست کے ذریعے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ اپنی ضروریات اور خواہشات کے مطابق ملک کا سیاسی رخ متعین کرنے میں آزاد مگر عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اب تک عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ گٹھ جوڑ کا یہ کھیل رکا نہیں۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں عدالتی فیصلوں کے ذریعے ملکی سیاسی رخ کا تعین کیا جاتا رہا ہے۔ ماضی میں عدلیہ نے ہر نازک موڑ پر غاصبوں اور آمروں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ آئینی اور قانونی توجیحات سے آمرانہ ادوار کو طوالت بخشنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔

آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے والا نظریہ ضرورت ہماری عدلیہ کا من پسند فامولا رہا ہے۔ مولوی تمیز الدین کیس میں قانون ساز اسمبلی کے خاتمہ پر مہر ثبت کر کے ایک لمبا عرصہ ملک کو آئین سے محروم رکھنے کے جرم میں آمرانہ قوتوں کی کاسہ لیسی کی۔ جنرل ضیا مارشل لا کے خلاف بیگم بھٹو کیس میں مارشل لا کو نہ صرف آئینی چھتری فراہم کی بلکہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کو آئین کی جمہوری شکل بگاڑنے کا غیر آئینی اختیار تفویض کر دیا، سپریم کورٹ کے ذریعے ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم کا عدالتی قتل کیا۔ عدلیہ نے اپنی سنہری روایات برقرار رکھتے ہوئے فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کی فوجی آمریت کو آئینی حکومت تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ڈکٹیٹر مشرف کو عوام کے نمائندوں کے بنائے ہوئے آئین میں من مانی ترامیم کرنے کا غیر آئینی اور آمرانہ اختیار بھی سونپ دیا۔

ملک میں آج کے سیاسی عدم استحکام اور افراتفری، عوام میں ذہنی انتشار، جمہوری اور سول اداروں پر غیر جمہوری ریاستی اداروں کی بالادستی قائم ہونے میں عدلیہ کا بنیادی کردار نظر آتا ہے۔ اس حقیقت کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں پاکستان کے آئینی اور قانونی ڈھانچے کو سب سے زیادہ نقصان عدلیہ اور ملک پر قبضہ کرنے والے فوجی جرنیلوں نے پہنچایا۔

عدلیہ اور فوجی جرنیلوں کے کردار شرمناک ہے ۔ جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے آمرانہ ادوار میں عدلیہ کے فیصلوں نے ملکی سیاست کو جن تاریک راہوں پر ڈالا، پارلیمان انکا رخ ابھی تک بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ سوائے اٹھارویں آئینی ترامیم کے ذریعے کچھ اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کے۔ ضیا مارشل لا دور میں آئین میں ڈالی گئی ان شقوں کو سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے آئین سے نہ نکال پائیں۔ نواز لیگ کی سیاسی مصلحت کوشی اور مذہبی جماعتوں کو خوش رکھنے کی پالیسی نے بلآخر نوازشریف کو ان آمرانہ شقوں کا شکار بنا دیا۔

پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت فیصلوں کے بعد منتخب جمہوری اداروں پر غیر جمہوری ریاستی اداروں کی بالادستی اور گرفت مزید مضبوط ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ریاستی اداروں کے سامنے جمہوریت، منتخب عوامی نمائندے اور جمہوری حکومت بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔

نواز شریف کو نااہل قرار دے کر، شہباز شریف اور عمران خان کو سیاسی میدان میں آمنے سامنے لا کر سیاست کو ایک مخصوص رخ پر چلانے کی منصوبہ بندی کہا جا سکتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ عمران اور شہباز عوامی جمہوری حاکمیت، آئین اور قانون کی بالادستی کے اصولوں کو پس پشت ڈال کر مقتدر حلقوں کی متعین کردہ پالیسیوں پر گامزن ہونے کے وعدے وعید کر کے اقتدار اعلی تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ دونوں حضرات جمالی، شوکت عزیز اور شجاعت حسین جیسے بے اختیار وزیر اعظم کا کردار قبول کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

انہیں زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔عمران کے سر پر پارٹی فنڈز اور شہباز کے سر پر ماڈل ٹاون ہلاکتوں کی تلواریں لہراتی رہیں گی۔ ان پر انتخابی دنگل میں اترنے کی شرائط واضح کر دی گئی ہوں گی۔ اقتدار تک پہنچنے کی صورت میں کسی بھی جمہوری گستاخی کی شکل میں انہیں سابق وزرائے اعظموں کے انجام تو یاد ہوں گے۔

Comments are closed.