ڈاکٹر ظفر عارف خطرہ تھے

آفتاب احمد

محترم ڈاکٹر طفر عارف کے بہیمانہ قتل پر بات کرنے سے پہلے ہمیں کراچی کو سمجھنا ہوگا ،اس کی اہمیت اور کردار سمجھنا ہوگا ،اور یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ انہوں نے اس شہر کو ہی کیوں فوکس کیا اور ان کے نزدیک کراچی ہی اہم کیوں تھا ؟
کراچی پاکستان کا وہ صنعتی شہرہے ،جہاں بلوچستان،پنجاب ،خیبر پختوانخواہ،پاکستانی مقبوضہ کشمیر،گلگت بلتستان اور سندھ کے تمام علاقوں سے محنت کش عوام مزدوری کرنے آتے تھے اور اب بھی آتے ہیں۔جہاں کے تعلیمی اداروں میں بھی انہی علاقوں سے نوجوان آکر مزدوری بھی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کراچی میں مختلف قومیتوں کے محنت کش عوام کو اکھٹے کام کرنے کے مواقع ملتے ہیں ،جہاں سے ان کے رشتے نہ صرف سماجی رشتوں میں تبدیل ہوتے ہیں بلکہ ان کے فکری اور سیاسی رشتے بھی استوار ہوتے ہیں ۔

کراچی بالخصوص اسی کی دہائی میں مختلف مزدور تحریکوں ،قومی تحریکوں سے وابستہ مزدور رہنماؤں اور طلباء کا گڑھ رہا ہے ۔بالخصوص پاکستانی ریاست جو کہ اپنے قیام سے لیکر ہی جاگیرداروں کی ریاست تھی ،جس کو برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے اسے ایک فاشسٹ مذہبی ریاستی سٹرکچر کو برقرار رکھا ہوا ہے ،جسے فوجی جرنیل جاگیرداروں اور ملاؤں کو ساتھ ملاکر چلا رہے ہیں۔اس گٹھ جوڑ کے خلاف بڑے پیمانے پر پاکستان میں جمہوری آوازیں بلند ہونے لگیں،طلباء،مزدور،اساتذہ سمیت ہر پرت نے اس گٹھ جوڑ کو مسترد کرنا شروع کیا ۔اور اس کے اثرات یہ مرتب ہوئے کہ مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے طلباء اور مزدوروں نے اپنی اپنی سماجی اور قومی غلامی کو بھی سمجھا ۔یہ پاکستان کی اندرونی صورتحال تھی جبکہ اس پر بیرونی حالات کے اثرات بھی تیزی سے مرتب ہورہے تھے۔

یعنی کراچی کے ساتھ طلباء حقوق سے لیکر مزدور حقوق تک کی جدوجہد کی گہری جڑت تھی ۔حکمرانوں نے جماعت اسلامی اور دیگر فاشسٹ ملاؤں کو جمہوری حقوق کی آوازوں کو دبانے کے لیے اپنے ساتھ ملا رکھا تھا ۔جو جمہوری و قومی حقوق کی ہر آواز کو مذہبی پروپیگنڈوں اور قتل غارت گری کے ذریعے روکتے تھے ۔جب حکمرانوں کو شدید مزاحمت محسوس ہوئی تو انہوں نے کراچی کو ہی تباہ و برباد کرنے کا عمل شروع کیا ،او ر مذہب کے ساتھ ساتھ لسانیت کے نام پر دہشت گردی کا ایک ایسا بازار گرم کیا کہ عوام کوزندہ رہنے کے خوف میں مبتلا کردیا گیا ۔

وہ کراچی جو عوام کی علم و اگہی اور حقوق کے حصول کی سوچوں کو طاقت دے رہا تھا ،وہ موت اورخوف کی علامت بن کر رہ گیا ۔اس کی وجہ جرنیلوں ،جاگیرداروں اور ملاؤوں کومزاحمت کا خوف تھا جنہوں نے کراچی کو روزگار ،علم اور سیاست کا محرک رہنے دینے کی بجائے اسے دہشت وخوف کے ایک مرکز میں تبدیل کردیا تاکہ مختلف قوموں کے مزدور عوام آپس میں جڑت نہ بنا سکیں اور یہی عمل آج بھی جاری ہے ۔

محترم ڈاکٹر حسن ظفر عارف کراچی یونیورسٹی میں فلسفے کے استاد تھے ،انہوں نے جہاں ہزاروں طلباء کو مزاحمتی سوچ کی جانب راغب کیا تاکہ وہ جبر اور غلامی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ،وہیں انہوں نے لٹریچر کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات سرانجام دیں ،انہوں نے تنظیم سے لیکر قومی سوال پر پائے جانے والے ابہام دور کرنے کے لیے گراں قدر لٹریچر مہیاکیا ۔انہوں نے فلسفہ کو عوام کومختلف پرتوں کے اندر پہنچایا ۔یہی وجہ تھی کہ وہ کسی بھی دور میں جرنیلوں اور ملاؤوں کو قابل قبول نہ تھے قید وبند کی صعوبتیں جھلیں ،روزگار سے ہاتھ دھوئے۔لیکن جدوجہد جاری رکھی جس سے اختلاف ہو سکتا ہے یا اس پر تنقید کی جاسکتی ہے ۔لیکن انہوں نے ہمیشہ سیاسی پارٹیوں اور سماج کی مختلف پرتوں کو درست سمتیں مہیا کرنے کی کوشش کی ۔

حال ہی میں وہ مومن خان مومن اور اسحاق ساتھی سمیت ایم کیو ایم میں متحرک ہوگئے ،ان کے اس فیصلے سے ہم جیسوں کو حیرت ہوئی ،سوال اٹھاے تنقید کی ،جس کا جواب عمل میں ڈاکٹر صاحب نے یہ دیا کہ کراچی کا ریاست پاکستان میں اپنا ایک اہم کردار بنتا ہے ،اور اس کو دہشت و خوف کی علامت بنا کر پورے ملک میں نئی سوچوں اور تحریکوں کو منجمندکر دیا گیا ہے ،عوامی فکر اتنی آلودہ کردی گئی ہے کہ گھر سے کام کا آغاز کرنا ہوگا اور اس لیے انہوں نے کراچی شہر کا انتخاب کیا اور کراچی شہر میں ایم کیو ایم کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ،ان کے نزدیک ایم کیو ایم کو اسٹیبلشمنٹ کی لیبارٹری کا ایک آلہ نہیں بنے رہنے دینا چاہیے ۔اس کا کردار بدلا جائے اس کو نیا رخ دیا جائے ۔

سو وہ ایم کیو ایم میں اپنے فلسفیانہ تجزیہ کے تحت متحرک ہوگئے ،اسکے کڑے وقت میں تنظیم سازی شروع کردی ،اس کے نعرے ،حکمت عملی اور عمل کو بدلنے میں مصروف ہو گئے ،ان کا یہ عمل کسی صورت ایم کیو ایم سے میچ نہیں کرتا تھا ۔لیکن ایم کیو ایم جس وقت سے گزررہی تھی اس کے پاس اس کے علاوہ آپشن نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی حکمت عملی کو قبول نہ کرے ۔ایسے میں پاکستانی اسٹلیشمنٹ جسے کسی صورت کراچی میں یہ قبول نہیں ہے کہ عوام خوف سے نکل کر اپنے حقوق کے بارے میں سوچیں ،علمی ادبی اور حقوق کی آوازیں بلند ہوں ،وہاں سرگرمیاں ہوں ۔

ان کو مصطفی کمال اور فاروق ستار جیسے مہرے قبول ہیں جنھیں باوقت ضرورت استعمال کیا جاسکے ۔انھیں ایسا ڈاکٹر کبھی قبول نہیں جو عوام کو درست اور غلط میں تمیز بتا رہا ہو ان کو ایسی ایم کیو ایم کبھی قبول نہیں جو لسانیت کی نفرت سے نکل ایک مثبت کردار کے طور پر سامنے آئے ۔اس لیے ایک ایسا ڈاکٹر جو فلاسفر ہو،جو سماج کی سائنس اور اس کی حرکت جانتا ہو ،جو دنیا، ریاست ،صوبہ ،شہر ،گاؤں اور اس کے کردار کو جانتا ہو وہ جرنیل شاہی پالیسیوں کے لیے خطرہ ہے ۔

ڈاکٹر ظفر عارف صاحب کو جب موقع ملا پاکستانی جمہوریت کو درست سمتیں دینے کی کوشش کی ۔وہ ایک ایسے ڈاکٹر تھے جو فلسفہ جانتا تھے ،فلسفہ سمجھاتے تھے ،ہزاروں کو سمجھایا، وہ سماج کی سائنس جانتے تھے ،تنظیم کی سائنس جانتے تھے ۔انھیں یونیورسٹی سے نکال کر جیل میں قید کیا گیا ،بار بار اذیتیں دی گئیں ، ہتھکڑیاں لگا کر رسوا کیا گیا ،لیکن وہ باز نہ آئے ،ہاں وہ کاروباری نہ تھے ،فلسفے کا کاروبار نہ کر سکے،وہ حکمرانوں کی صفوں میں جا کر مراعات نہ لے سکے،وہ حکمرانوں کی کاسہ لیسی نہیں کر سکے ،وہ ٹی وی پر بیٹھ کر سٹار نہ بن سکے ۔ فلسفے کی دوکانداری نہیں کی،انسانوں کے دکھ درد نہیں بیچے ۔اس لیے وہ ناکام آدمی تھے۔لیکن جھکے نہیں بکے نہیں ، شعور اور عزم سے پیچھے نہیں ہٹے ،دربدر ہوئے ۔ان کی محبت عوام کے ساتھ رہی ، عوام کو بے وقوف بنا کر خود طاقتور نہیں بنے،سرمایہ دار صنعت کار نہیں بنے لیکن پچھلی صفوں میں بیٹھ کر عوام کو طاقتور بنایا ۔

ڈاکٹر حسن ظفر عارف عوام کو ہی اصل طاقت سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے جرنیل شاہی کو ہمیشہ کھرا جواب دیا ،ان کا عوام کی طاقت پر یقین ہی جرنیل شاہی کے لیے خطرہ تھا ۔ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی موت اس بوسیدہ سماج میں ایک عمومی بات ہے۔ان کی قدر و قیمت سے صرف و صرف پاکستان ریاست کے حکمران آگاہ تھے ،اسی لیے انھیں اس عمر میں ایک اذیت ناک موت دی ہے ،لیکن یہ ریاست اور اس کے مالک وارث اس ظلم وبربریت کی قیمت ادا کریں گے ۔

One Comment