نقیب محسود قتل : اول می پَڑ کہ بیا می مَڑ کہ 

محمدحسین ہنرمل

انسانی ذات کی تاریخ جتنی پرانی ہے اتناہی اس کے جرائم کی داستان قدیم ہے۔قدرت نے ان جرائم کو ماپنے اوراس کی اثبات کیلئے نہ صرف انسان کی عقل کو کافی قرار دیا ہے بلکہ اس کے لئے مختلف ادیان کی شکل میںآسمانی قانون کا اہتمام بھی ہردور میں کیاہواہے ۔ یہی تقاضاآج کی دنیا میں رائج بین الاقوامی، عدالتی اوراخلاقی قوانین بھی کررہے ہیں ۔ مملکت خداداد میں ماورائے عدالت قتل کے طورپر دی جانے والی سزاؤں کو اسی لئے ایک سنگین جرم سمجھا جاتاہے کہ ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے والوں کاکوئی اختیارنہیں کہ وہ بلا کسی عدالتی تحقیق کے ملزم کومجرم ٹھہراکر اس کی زندگی کاخاتمہ کردے۔اس حوالے سے ایک پشتو ٹپہ بھی راہنمائی کیلئے کافی ہے،

اول می پڑ کہ بیا می مڑ کہ، چی بے قانونہ سزا را نہ کڑے مئینہ 
’’
قتل کرنے سے پہلے مجھے قانون کی روسے ملامت اور مجرم ثابت کرلیجیے تاکہ سزا پرکسی کی طرف سے انگشت نمائی نہ نوبت نہ آسکے‘‘۔

کاندھوں پر ہمہ وقت لمبے زلف سجانے والادراز قدنوجوان نقیب اللہ محسود بھی وہ بدقسمت قبائلی پختون تھا جنہیں ’’پَڑ‘‘ کیے بغیرموت (مڑ)کی سزا دی گئی۔تیرہ جنوری سے تادم تحریر اس خوبرو نوجوان کی حسین تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں اورپیہم یہ سوال کررہی ہیں کہ یہاں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر چلتے پھرتے امن اور حُسن کا قتل کرکے امن کے نام نہاد پیامبر آخر کیا پیغام دیناچاہتے ہیں؟

شورش زدہ وزیرستان سے دس سال پہلے کراچی کی طرف رخت سفر باندھ کر نقیب محسود بھی شہر قائد میں اپنی زندگی کو محفوظ تصور کیاکرتاتھا ۔ انہیں کیا خبر تھی کہ یہاں کے باسیوں کو دہشت گردوں سے کہیں زیادہ اُن انسانوں سے خطرہ ہے جو امن کی قبائیں پہنی ہوئی ہیں۔ان کو کیا علم تھا کہ اس شہر میں ایسی کرامات کے حامل قاتل بھی موجود ہیں جن کے پیراہن پر لہو کے داغ دیکھے نہیں جاسکتے،

دامن پہ کوئی چھینٹ ہے نہ خنجرپہ کوئی داغ، تم قتل کرو ہو یا کرامات کر و ہو

نقیب اللہ محسود کو رواں مہینے کی تین تاریخ کو سہراب گوٹھ کے ایک ہوٹل سے جبراًلاپتہ کردیاگیا۔ دس دن حراست میں رکھنے کے دوران وہیں پرا ن کوموت کاپروانہ جاری کرکے قوم کو بتایاگیاکہ اپنے دیگر دہشت گرد ساتھیوں سمیت یہ قبائلی دہشت گرد بھی ایس پی ملیرراوانوار ٹیم سے ایک مقابلے کے دوران ماراگیاہے ؟ ستم ظریفی کی انتہا دیکھ لیجیے کہ قتل کے بعد نقیب اللہ محسود کو نہ صرف ٹی ٹی پی اور داعش کا کارندہ ڈکلیئر کردیاگیا بلکہ بیت اللہ محسود کا گن مین رہ جانے ، بے نظیر قتل اورڈی آئی خان جیل توڑنے میں بھی اس کے ملوث ہونے کے من گھڑت اور بے بنیاد دعوے کیے گئے۔ 

راوانوار کے دعووں کی تردید کرنے کسی کو کیا مجال تھا، خدا بھلا کرے مارک زکر برگ کے فیس بک میڈیاکا جس کے ذریعے پل بھر میں اس معصوم خوبرو نوجوان کے بارے میں راؤانوار کے جھوٹے الزامات کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ ورنہ تین دہائیوں سے اپنے آپ کو ہیرو کے طور پرمنوانے والے راؤ انوار تو اس ملک میں بطور ہیرو اور انسان دوست آفیسر ریٹائر ہوجاتے۔ کراچی سے فاٹا ، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد سے بلوچستان تک پھرنقیب اللہ محسود کے حق میں انسانی ہمدردیوں کے اظہار کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا جس میں خلق خدا نے تواتر کے ساتھ اُن کی معصومیت کی گواہیاں دیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس بے رحم اور جعلی کاروائی کی ازخود خبر لی ، سند ھ کے وزیرداخلہ میدان میں کودپڑے ،سیاسی جماعتوں کے راہنما ؤں نے انگڑائی لی کہ قانون اور امن کے نفاذ کے نام پر قانون کی دھجیاں اڑاناکیا معنی ؟کراچی میں دہائیوں سے پیپلز پارٹی اور دیگر مخصوص قوتوں کے منظور نظر پولیس آفیسرراؤانوار اور اس کی ٹیم کی منطق سمجھنے سے ہم ہنوز قاصرہیں کہ آخر راؤ جیسے لوگوں کو دہشت گر د اور دہشت گردی کی تعریف کیا سکھائی گئی ہے ؟دہشت گرد اور شرپسند تو زندگی سے زیادہ موت وفساد اور خوش پوشی وخوش جمالی سے زیادہ دہشت اور کراہت پر یقین رکھتے ہیں لیکن محسود نقیب اللہ کی زندگی کا معاملہ اس سے یکسر مختلف تھا۔

غضب کی حسین ترین اور اسٹائلش زلفوں سے محبت ،مخصوص قبائلی پختون ڈانس (اتن) کرنااور اپنے دوستوں کی محفلوں میں رنگ بھرنا گویا نقیب اللہ محسود کی زندگی کی بنیادی ترجیحات میں شامل تھیں۔ایک زمانے میں کراچی میں امن بحالی کرنے کا ٹھیکہ وہاں چودھری اسلم نامی پولیس آفیسرنے لیاہواتھا ۔موصوف پولیس آفیسر کے ہوتے ہوئے پھر چیف جسٹس کون ہوتاتھاکہ ملزم سے بازپرس کرتا اور عدلیہ کس ادارے کا نام تھاکہ ملزم کو وہاں پیش کیا جاتا کیونکہ چودھری صاحب کی ذات ایک میزان تھی جس میں مفسد ومصلح اور صحیح وغلط کے بیچ فرق ہوسکتاتھا ۔ 

چودھری اسلم کے ساتھ بعد میں وہی ہوا جوقدرت کاقانون ہوتاہے لیکن ا س کے مشن کو آگے لے جانے کے لئے راؤانوار کی ڈیوٹی لگائی گئی جوپچھلے کئی عشروں سے وہاں کے انسانوں کے گلے ناپ رہے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ایسے جعلی پولیس مقابلے میں راؤانوار کا نام سامنے آیاہے بلکہ یہ مقابلے ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، جاننے والے جانتے ہونگے کہ موصوف آفیسر نے نقیب اللہ محسود کی طرح اور کتنے معصوم نقیبوں کی زندگی کے دیئے بجھا ئے ہونگے؟کتنے بے گناہ اردو بولنے والوں کوحبس بے جا میں رکھا ہوگا، کتنی ماووں کے جگر گوشے چبائے ہونگے اور پتہ نہیں کس کس دہشت گرد ڈکلیئر کرکے قتل کیا ہوگا۔

ہٹ دھرمی کی انتہا دیکھ لیجیے کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لئے بننے والی انکوائری کمیٹی بھی انہیں پیش کرنے سے عاجزرہی ہے کیونکہ راؤ صاحب کو اس کمیٹی کی ثقاہت پر تاحال اعتماد پیدا نہیں ہوا ہے ۔ عجیب مضحکہ خیز دعویٰ تو یہ بھی کیا جارہاہے کہ موصوف آفیسر کی قیادت میں پولیس ایک سوپچاس مقابلوں میں حصہ لے چکی ہے جس میں بے حساب دہشت گردوں تومارے جاتے ہیں لیکن راؤ صاحب کی ٹیم کو معمولی خراش تک نہیں آئی ہے۔ واہ ، شہرقائد کے کیا شریف دہشت گرد ہیں جو خود تو تھوک کے حساب سے ان مقابلوں میں مارے جاتے ہیں لیکن جوابی کاروائی سے پھر بھی اجتناب کرتے ہیں۔

آج بدقسمت قبائلی پختون سوال اٹھارہے ہیں اور بجا اٹھارہے ہیں کہ کیاوہ اس مملکت کے اصلی باشندے نہیں ہیں ؟ کیا اس ریاست پر ان کااتناحق بھی نہیں بنتا کہ روز بے گناہ مرنے والے قبائلیوں کی خون کا حساب ظالموں سے لیاجائے ؟آج پرنم آنکھوں کے ساتھ یہ در بدر قبائلی پوچھ رہے ہیں کہ اس ریاست کی مٹی کے ساتھ وہ پہلے بھی وفادار رہے ہیں اور آج بھی وفا کا ثبوت دے رہے ہیں تو پھرآخر کیا وجہ ہے کہ میران شاہ ، دتہ خیل ، پشاور میں وہ محفوظ ہیں اور نہ ہی ہزاروں میل دور کراچی میں ان کی جان کی ضمانت دی جارہی ہے؟

بلاشبہ ، نوکری میں ترقی پانے کی خاطر اس بدقسمت دیس میں ماورائے عدالت قتل کے جبری اقدامات اس وقت ایک لعنت بن چکی ہے ۔ واحد حل اس کا یہ ہے کہ راؤ انوار اور ان کے ہم فکر آفیسروں کے دفاتر، تہہ خانوں اور مہمان خانوں میں لگنے والی من پسند عدالتوں کے خاتمے کے لئے سیاسی جماعتیں اور عوام اٹھ کھڑے ہو، ورنہ خاکم بدہن چراغوں کے بجھنے کایہ سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔

Comments are closed.