نیک بادشاہ اور منصف قاضی

بیرسٹر حمید باشانی

ہمارے ہاں انصاف کے حصول کے لیے معمول کے راستے چھوڑ کر متبادل ذرئع اختیار کرنے کا رواج عام ہے۔ اس سلسلے میں کوئی چیف جسٹس کو خط لکھتاہے۔ کوئی آرمی چیف کو اپیل کرتے دکھا ئی دیتا ہے۔ کوئی صدر مملکت سے مداخلت کی درخواست کرتا ہے، کوئی کسی اخبار کے اڈیٹر کو ا پنا قصہ درد لکھ رہا ہوتا ہے۔ ان میں کچھ لوگ داد رسی کے مروجہ ذرائع کو آزما چکے ہوتے ہیں۔ مگر ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو چارہ جوئی کے مروجہ راستوں پر یقین نہیں رکھتے اورمتبادل راستے اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس عمل سے سوال پیداہے کہ کیاہمارا موجودہ نظام نا کام ہے؟ کیالوگ اس نظام پر بھروسہ نہیں کرتے؟ 

ان سولات کا جواب دینے کے لیے تاریخ میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ یوں تو ساری بنی نوع انسان کی تاریخ کے بنیادی خدوخال ایک ہی ہیں۔ لیکن مختلف خطوں اور علاقوں کی نسبت سے ان میں تھوڑا بہت فرق آتا ہے۔ جن علاقوں میں موجودہ پاکستان آباد ہے یہ وادی سندھ کی تہذیب کے زیر اثر رہے ہیں۔ دنیا کی دیگر کئی علاقوں کی طرح ان علاقوں نے بھی تہذیب و ترقی کے کئی ادوار دیکھے ہیں۔ پتھرکے دور سے لیکر ڈیجیٹل دور تک کا سفر کیا ہے۔ مگر اس طویل سفر کے باوجود مغرب کی طرح تہذیبی ترقی کے تمام ثمرات ان علاقوں کے عوام تک نہیں پہنچے۔ 

مغرب میں جتنے بھی بڑے بڑے انقلاب آئے ان کے ثمرات بلاخر وسیع پیمانے پر عام لوگوں تک پہنچے۔ اس سلسلے میں زرعی انقلاب پہلابڑا انقلاب تھا۔ اس انقلاب نے انسان کے طرز زندگی میں بنیادی تبدیلی لائی۔ اس سے پہلے انسان کا دارمدار شکار پر تھا۔ معاشرے کا ہر فرد اپنی صلاحیت کے مطابق شکار پر مبنی معاشی نظام میں اپنا حصہ ڈالتا اور وصول کرتا تھا۔ یہ نسبتا ایک پر امن سماج تھا۔ اس میں مساوات اور برابری کے تصورات موجود تھے۔

مختلف سماجی معاشی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس سماج کے اندر تبدیلیاں آئیں۔ رفتہ رفتہ دنیا کے مختلف علاقوں میں آباد انسانی گروہوں نے شکار کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی شروع کی۔ اناج اگانے اور جانور پالنے کے عمل سے ایک نئی قسم کی معیشت شروع ہوئی۔ یہ زرعی معیشت آگے جاکر زرعی انقلاب پر منتج ہوئی۔ اس سے سماج کے اندر ایک نیا سیاسی اور معاشی بندوبست شروع ہوا۔ اس بندوبست کے لیے شہر بنے اور ریاستیں معرض وجود میں آئیں۔

اس نئے بندوبست کے تحت تقسیم کار کا آغاز ہوا۔ سماج میں لوگ مختلف قسم کے فریضے سر انجام دینے پر مامور ہوئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زراعت میں ٹیکنالوجی کا ستعمال شروع ہوا۔ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے فالتو اناج کے ساتھ ساتھ ضروریات زندگی کو وافر مقدار میں تیار کیا جانے لگا۔ اس سے نئے علاقوں پر ملکیت اوران علاقوں کے تحفط کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس ضرورت کے پیش نظر سماج کے اندر طاقتور لوگوں نے جنم لیا۔ یہ طاقت ور آدمی کئی جنگجو سردار تھا۔ کئی پادری اور کئی قبیلے کا سربراہ۔

یہ وہ لوگ تھے جو فاضل پیداوار پر اختیار رکھتے تھے۔ اس عمل میں اشرافیہ نے جنم لینا شروع کیا۔ علم پر اجاراداری کا آغاز ہوا۔ اس بات کا فیصلہ ہوا کہ لوگوں پر حکومت کون کرے گا۔ اس سے سماجی اور طبقاتی تقسیم کا عمل شروع ہوا۔ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم شروع ہوئی۔ طاقت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوئی۔ ان چند ہاتھوں میں پادری و پروہت، سپاہ سالار، راجے ، مہارجے اور بادشاہ پیدا ہوئے۔ زرعی انقلاب کی شکل میں یہ سماج میں ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی سے عام آدمی کی زندگی میں بھی کچھ مثبت تبدیلیاں آئیں۔ زرعی انقلاب کے ساتھ دنیا کے کئی علاقوں میں جاگیر داری نظام قائم ہوا۔ اس نظام کی وجہ سے دولت کی تقسیم مزیدگہری ہوئی۔ محنت کے استحصال میں اضافہ ہوا۔ ایک طرف انتہائی امیر اور طاقتور لوگ سامنے آئے ، دوسری طرف غریب اور مصیبت زدہ لوگوں کا طبقہ پیدا ہوا۔ 

اس نئی معاشی تشکیل کے اندر موجود تضادات اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اور سائنسی علم میں اضافے نے صنعتی انقلاب کی بنیاد ڈالی۔ اس انقلاب نے فیکٹریاں اور کارخانے قائم کیے۔ یہ کارخانے سرمایہ کاروں اور نئے مزدوروں کو ایک نئے رشتے میں جوڑنے کا باعث بنے۔ پیداوار کی کھپت کے لیے منڈیاں وجود میں آئیں۔ منڈیوں اور مارکیٹ کے قاعدے کلیے بنائے گئے۔ یہ قاعدے و کلیے ان لوگوں نے تشکیل دئیے جو ذرائع پیداوار کے مالک تھے۔ جس سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور عدم مساوات میں اضافہ ہوا۔ جس سے سیاسی تضاد پیدا ہوا ۔

اس تضاد کی وجہ سے سماج کے انتظام و بندو بست پر سوالات کھڑے ہوئے ۔ مثال کے طور پریہ بندو بست کس کے فائدے اور کس کے نقصان میں ہے ؟ مگراس بحث کے شروع ہونے کے بعد بھی صدیوں تک سماج پر اشرافیہ کا قبضہ رہا۔ اشرافیہ ریاستی طاقت کے زور پر اس نظام کو چلاتی رہی۔ یورپ میں روشن خیالی کے دور میں اس بندوبست پر نئے سرے سے بحث شروع ہوئی۔ اس بحث سے ابتدائی جمہوری تصورات پیدا ہوئے۔ ان تصورات سے محروم طبقات کو یہ احساس ہوا کہ وہ حکومت کے معاملات میں شراکت دار بن سکتے ہیں۔ جو دولت انہوں نے سخت محنت اور جانفشانی سے پیدا کی ہے وہ تاجروں، صنعت کاروں اور بادشاہوں کے پاس ہے۔

اس دولت کی منصفانہ تقسیم جمہوری عمل کے زریعے ممکن ہے۔ مگر جمہوری عمل کا یہ تصور بہت ابتدائی اور ادھورا تھا۔ اس ابتدائی جمہوریت میں لوگوں کی ایک محدود تعداد شریک تھی۔ قدیم ایتھنز کی جمہوریت سے لیکر بیسویں صدی کی جمہوریت تک محض ایک محدود طبقے کو جمہوری مشق میں حصہ لینے کی اجازت تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس عرصے میں جمہوریت کی اس مشق نے آج کی جمہوریت کے لیے راستہ ہموار کیا۔ اس پورے تاریخی عمل میں انسان نے ہر نظام سے کچھ نہ کچھ سبق سیکھا، تجربہ حاصل کیا ۔

اس تجربے کے بطن سے بیسویں صدی کی جمہوریت نے جنم لیا۔ یہ جمہوریت آج ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف شکلوں میں دکھائی دیتی ہے۔ جن علاقوں پر پاکستان قائم ہوا، وہاں بیشتر علاقوں میں تاریخ کا یہ سفر آکر جاگیرداری پر رک گیا۔ یا پھر کئی علاقوں میں یہ سرداری یا قبائلی نظام کی شکل اختیار کر گیا۔ چنانچہ یہاں محدود شہری علاقوں کے علاوہ نہ تو زرعی انقلاب مکمل ہوا ، نہ ہی اس کے بطن سے صنعتی انقلاب نے جنم لیا ، اور نہ ہی یہاں پورے طریقے سے جمہوری نظام قائم ہو سکا۔

چنانچہ یہاں حال ہی میں ایک جمہوری ڈھانچہ تو قائم ہو گیا، مگر اس کی برکات ابھی تک عوام تک نہیں پہنچی۔ عوام میں جمہوری ثقافت اور جمہوری روئیے پیدانہیں ہوئے ۔ اسی لیے آج تک ہم لوگ ایک ہیرو، فاتح، نیک دل بادشاہ ، سپہ سالار یا قاضی وقت کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ ان کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف سماج میں ہیروازم اور نرگسیت پسندی بہت زیادہ ہے۔ ارباب اختیار تو اکثر اس کا شکار رہتے ہیں۔ اور اپنی حدود و قیود سے نکل کر ایسے اقدامات کرتے رہتے ہیں جو لوگوں کی مدد یا انہیں انصاف دینے سے زیادہ خود نمائی اور خود ستائی کے زمرے میں آسکتے ہیں۔ مشہور واقعات کا از خود نوٹس لینے یا کسی زیادتی کا شکار ہونے والوں پر نوٹوں کی بارش جیسے عمل اسی سوچ اور نفسیات کا اظہار ہیں۔

اس وقت پاکستان میں جس طرح کا سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچہ موجود ہے اس پر ایک ہی وقت میں کئی طرح کے نظاموں کا سایہ ہے۔ اس پر ابھی تک جاگیرداری ، سرداری اور قبائلی نظام کے اثرات بھی ہیں، اور جدید صنعتی اور ڈیجیٹل دور کے بھی۔ سماج کا ایک بڑا حصہ فکری اعتبار سے تاریخ میں کئی بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ جمہوری نظام تو ہم نے اپنا لیا۔ لیکن اس کے جو ناگزیر لوازمات ہوتے ہیں وہ پورے نہیں کیے۔ ان ناگزیر لوازمات میں سماجی و معاشی انصاف، بنیادی انسانی حقوق ، شہری آزادیاں اور قانون کی حکمرانی شامل ہیں۔ ان لوازمات کو پورا کیے بغیر عوام پوری طرح نظام پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ وہ عام تھانے یا عدالت میں جانے کے بجائے نیک دل بادشاہوں اور منصف مزاج قاضیوں کی تلاش کرتے رہیں گے۔ 

One Comment