میں ایک فحش آدمی ہوں

عبدالرحمن وڑائچ

سڑک کنارے دیواروں پر مردانہ کمزوری کے اشتہار ہوں یا ایسی گالیاں جس سے لباس میں ملبوس ہوتے ہوئے بھی فرد ننگا ہو جائے ،ان سب میں کچھ بھی فحش نہیں۔ یہ تو عام سی بات ہے ۔

مگر جنس کے متعلق تعلیم اک فحش چیز ہے !۔

دیکھئے نوجوان لڑکوں کی اک بڑی تعداد گھٹنوں کی کڑ کڑ کو مردانہ کمزوری کی نشانی سمجھتی ہے ۔لیکن میں نے جنسی علم میں یہ پڑھا ہے کے سپرمز صرف خصیوں میں بنتے ہیں ان کا گھٹنوں کی کڑ کڑ سے کوئی تعلق نہیں۔

میں نے یہ کیوں پڑھا

کیونکہ میں ایک فحش آدمی ہوں

پاکستان میں سب سے زیادہ کینسر کی شرح چھاتی کے کینسر کی ہے،اس حوالے سے آگاہی پھیلانےکےلئے ہم سڑک کنارے کوئی پوسٹر نہیں لگا سکتے کیوں کہ اس سے فحاشی پھیل سکتی ہے ، لیکن میں چاہتا ہوں کے ہر جگہ اپنے ہاتھوں سے ایسے پوسٹر لگاؤں۔

کیونکہ میں ایک فحش آدمی ہوں

ہمارے ہاں سکولوں میں اب بھی بائیولوجی میں جینیٹکس اور ایمبرولوجی کے باب یا تو چھڑوا دئیے جاتے ہیں یاایسے پڑھائے جاتے ہیں جیسے اس میں کچھ سمجھانے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیوں کے اس سے بچوں کی سوچ پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔لیکن میں اپنے شاگردوں کو اس متعلق بلاججھک ہر چیز علمی انداز میں بتانا چاہتا ہوں۔

کیونکہ میں اک فحش آدمی ہوں۔

پیمرا نے کنڈوم کے اشتہار پر پابندی لگا رکھی ہے، جب پابندی نہیں تھی تو بہت سے بچے اپنے امی ابو سے اس فحش چیز بارے پوچھنے لگے تھے ۔میں چاہتاہوں ایک چینل بناؤں اور اس پر اشتہار چلا کر بچوں کو اس فحش چیز متعلق بتا دوں۔

میں ایسا کیوں چاہتا ہوں

کیونکہ میں ایک فحش آدمی ہوں

کسی زمانہ میں برتھ کنٹرول دواؤں کی کمرشل آتی تھی وہ بھی بند ہو گئی۔اگر وہ چلتی رہتی تو ممکن تھا کوئی گندے ذھن کا بچہ اپنے ابو امی سے یہ پوچھ بیٹھتا کے! ابو یہ کس چیز کا اشتہار ہے؟ تب سوچئے اس کے ابو پر کیا گزرتی؟ وہ اسے کیسے بتاتے یہ کیا ہے ۔

میں چاہتا ہوں میں یہ اشتہار دوبارہ چلاوں اور بچوں بڑوں سب کو بتاؤں کے کس طرح آبادی کا جن ہماری زمین کو کھا جائے گا۔

کیونکہ میں ایک فحش آدمی ہوں

جنسی بیماریوں کی شرح یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایڈز کے کیس اچھے خاصے ہیں۔میں چاہتا ہوں کے اس ضمن میں کھلے عام سڑکوں پر اشتہار لگا کر لوگوں کو باشعور بناؤں کے کس طرح غیر محفوظ جنسی اختلاط اس کی وجہ بن سکتا ۔

کیونکہ میں ایک فحش آدمی ہوں

یہاں پردہ بکارت کو کنوارہ پن کے ساتھ جوڑا جاتا ہے،اور ہمارے ملک میں حالیہ وقت میں بہت ساری خواتین کو اس ضمن میں طلاق کا سامنا کرنا پڑاہے۔

میں چاہتا ہوں کے اخباروں میں کھلے عام یہ سرخی بنا کر لکھ دوں کہ اس کا تعلق کنورا پن سے ہرگز نہیں،سخت جسمانی کام کاج جیسے سائیکل چلانااورکوہ پیمائی وغیرہ سےیہ قدرتی طورپربھی ختم ہوسکتی ہے۔

یہ سب باتیں جنسی تعلیم سے تعلق رکھتی ہیں اور جنسی تعلیم تو ہوتی ہی فحش ہے ۔

Comments are closed.