اگر آپ اچھے ہو

فرحت قاضی

ہمارے معاشرے میں کئی تصورات ہماری روزمرہ بول چال کا حصہ ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے ’’اگر آپ اچھے ہو تو کوئی آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے‘‘۔

ہمارے ادھر ان خیالات کو تنقید سے بالاتر قرار دے کر پرکھنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی چنانچہ جب ایک شخص دوسرے سے یہ کہتا ہے تو وہ یہی سمجھتا ہے کہ یہ درست ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عام شہری کسی قول یا کہاوت کی گہرائی میں جاکر اس کے اچھے اور برے پہلو سامنے لا نے کے لئے وقت نہیں دیتا ہے۔

اس کہاوت اگر آپ اچھے ہو تو کوئی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا کو پشتو میں یوں کہا جاتا ہے کہ اچھے بنو اور کسی سے مت ڈرو۔

اچھے اور نیک بنو تو محفوظ رہو گے کیا ایسا ہی ہے کیا اچھے انسان کو اس کی نیکی یا اچھائی کا صلہ ملتا ہے کیا وہ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ محفوظ اور مطمئن ہے؟

اس قول کی صداقت پر مجھے شاید شک پیدا نہ ہوتا اگر زندگی میں مجھے ایسے واقعات پیش نہ آئے ہوتے جنہوں نے کئی مرتبہ میرے اندرکے اچھے انسان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اس سوال نے میرے ذہن کے کھونوں کھدروں میں کئی بار انگڑائیاں لیں کیا اچھابننے سے ایک انسان محفوظ رہ سکتا ہے میں آپ کو واقعہ سناتا ہوں ایسے واقعات سے آپ کو بھی روزمرہ زندگی میں واسطہ پڑا ہوگا میں سوات کے علاقہ مینگورہ میں ایک بس میں بیٹھ گیا گھنٹہ بھر کے انتظار کے بعد گاڑی چل پڑی ڈرائیور کے پاس ایک پولیس اہلکار بیٹھا تھاآدھ گھنٹہ سفر طے کیا ہوگا کہ پولیس اہلکار نے ڈرائیور کو سڑک کنارے تھانے کی طرف گاڑی لے جانے کا حکم صادر کیا بس کے تھانے کی حدود میں رکتے ہی اسی اہلکار نے مسافروں کو بس سے اترنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ تمہارے لئے دوسری بس کا انتظام کیا جاتا ہے۔

اس نے اڈے سے دوسری بس کے لئے فون کیا ڈرائیور اور کلینر کو ہمراہ لے جاکر تھانے کی حوالات میں بند کردیا میں نے مسافروں سے کہا کہ اگر ان کا کوئی معاملہ تھا تو بس اڈے میں ہی رفع دفع کردیا جاتا وہاں گاڑی رکوائی جاسکتی تھی یہی کچھ میں نے تھانے کے لان میں بیٹھے آفیسر سے کہا اور یہ بھی کہا کہ ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے میں ان سے باتوں میں مصروف تھا کہ ایک بندہ آگے آیا اس نے اپنا تعارف کرایا اور پھر وہ بھی یہی بات کرنے لگا مسافر ہماری بات چیت سن رہے تھے۔

اسی پولیس اہلکار نے مجمع میں سے ایک مسافر کو ہاتھ سے پکڑا اور آناً فاناً ڈرائیور کے ساتھ حوالات میں بند کردیا اس سے مسافروں میں خوف پیدا ہوگیا پولیس اہلکار بھی یہی چاہتا تھا مسافر کو کس قصورپر اندر کیا گیا اس کا خیال مجھے کئی سال کے بعد آیا دراصل وہ غریب اور اس کے لباس سے اس کی بدحالی ٹپکی پڑ رہی تھی اور اسے اس لئے حوالات میں بند کیا تاکہ باقی مسافروں میں دہشت پیدا ہو اور وہ اس رویے پر احتجاج سے گریز کریں۔

ہم باآاخر پولیس افسر کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے اس نے ڈرائیور اور کلینر کو چھوڑ دیا جب تما م مسافر بس کی جانب بڑھنے لگے تو مجھے اچانک اس بے کس مسافر کا خیال آگیا میں نے مسافروں سے کہا کہ کیا ہم اسے پولیس کے پاس چھوڑ دیں گے جبکہ اس کا کوئی قصور بھی نہیں تھا میرے کہنے کا کچھ نتیجہ برآمد ہوا اس مسافر کو بھی رہائی مل گئی ۔بہر حال، یہ پولیس اہلکاروں کا ایک طریقہ ہے وہ دیگر لوگوں میں دہشت پیدا کرنے کے لئے ایک کمزور انسان کو پکڑ لیتے ہیں ان لئے یہ دیکھنا ضروری نہیں ہے کہ وہ کمزور انسان قصور وار ہے یا نہیں ہے ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ معاشی طور پر تکڑا نہیں ہے اور آسان شکار ہے۔

میرے ایک صحافی ساتھی نے بتایا کہ وہ ا یک چھوٹے سے اخبار میں کام کرتا رہا اس کا ایڈیٹر اس کا جاننے والا تھا ایک روز تنخواہ دی جارہی تھی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کی ماہانہ اجرت کمپیوٹر آپریٹروں سے بھی کم رکھی گئی تھی اور اس کی وجہ صرف اور صرف انکا ’’اچھا‘‘ ہونا تھا اگرچہ اس کا ان کو دکھ ہوا مگر انہوں نے ان پر ظاہر نہیں کیا۔

’’اچھا‘‘ ہونا بری بات نہیں لیکن اس کا ایک یہ پہلو بھی ہے اور فقظ یہی نہیں بلکہ دیگر پہلو بھی ہیں اور جو توجہ طلب ہیں یہ خیال یا نظریہ کمزور کو طاقت ور کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتا ہے ایک مالک اپنے نوکروں میں سے کمزور اور اچھے کو ہی دوسروں کے لئے نشانہ عبرت بناتا ہے ہر جگہ یہی ہوتا ہے نزلہ مظلوم اور کمزور پر آکر گرتا ہے یہ تصور ایک شخص کو اپنے اخلاق و عادات درست کرنے کی تر غیب ضرور دیتا ہے لیکن مالک پر زور نہیں دیتا کہ وہ اپنے ماتحتوں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے ان کی ماہانہ اجرت بڑھائے اور ان کے لئے مناسب حالات پیدا کرے تاکہ ان کو معاشی، ذہنی اور گھریلو پریشانی نہ ہویہ خیال محنت کش کو اپنے ساتھیوں سے الگ تھلگ کردیتا ہے وہ اچھا بننے کی سعی و کوشش میں اپنے حقوق کے لئے جدوجہد سے کٹ جاتا ہے یہ تصور محنت کشوں کے اتحاد میں رکاؤٹ بھی بنتا ہے چونکہ ایسا شخص اپنے اخلاق و افعال کی اصلاح ہی میں لگا رہتا ہے لہٰذا وہ علاقہ یا ادارہ میں کسی جاگیردار یا افسر کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کی بجائے اپنے ساتھیوں میں خامیاں ۔اور کمزوریاں تلاش کرنے لگتا ہے

یہ تصور مالک اور طاقت ور کو تحفظ فراہم کرتا ہے اس خیال کے قائل کوعوام کو مارنے والے میں نہیں بلکہ مار کھانے والے میں نقص اور نقائص نظر آتے ہیں حاکم کا رعایا کو مارناجاگیردار کا مزارع شوہر کا بیوی اور بڑے کا چھوٹے بھائی کی پٹائی کرنا اس کی رو سے صحیح ٹھہرتا ہے یہ مظلوم کو ظالم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے یہ تصور کہتا ہے کہ چونکہ اس نے اچھا ہونے کی کوشش نہیں کی اس لئے اسی سزا کا حق دار ہے اس طرح تمام نزلہ کم زور پر گرتا ہے یہ ادھر بھی لے جاتا ہے کہ اگر رعایا کے اعمال اچھے اور صالح ہوتے تو ان پر ظالم بادشاہ کیوں مسلط ہوتا یہ تو ان کا قصور ہے دیکھا جائے تو یہ تنقید کا بھی مخالف تصور ہے

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان کو برا بنانے کی ترغیب دی جائے بلکہ اچھا بنانے کی تحریک چلاتے وقت یہ ذہن نشین رکھا جائے کہ اچھے انسان کو ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ نقصان کا سامنا ہوتا ہے ہر ایک اس پر چڑھا جاتا ہے اور برے کے قریب بھی نہیں پھڑکتا جبکہ مالک بھی اس کا سامنا کرنے سے کتراتا اور اسے دیوانہ اور پاگل مشہور کردیتا ہے

سنہ2005ء میں زلزلہ نے بالاکوٹ، کشمیر اور بعض دیگر مقامات میں وہاں کے باسیوں کو جانی و مالی نقصان پہنچایا لیکن ہم نے دیکھا کہ جو بندہ جتنا چپ رہا جس نے اپنی شرافت دکھائی اسے اتنا ہی کم ملا اسی طرح تباہ کن سیلاب سے بھی سینکڑوں خاندانوں کو نقصان پہنچا لیکن ان کو زیادہ معاوضہ ملا جنہوں نے زیادہ دوڑ دھوپ کی اس سے ان لوگوں نے بھی فائدہ اٹھایا جن کا سیلاب میں نہ جانی اور نہ ہی مالی نقصان ہوا تھا شریف کنبے اپنی شرافت کی مار کھا گئے

آپ اچھا ضرور بنیں کیونکہ اس کا سماج کو بھی فائدہ ہے مگر اتنا بھی نہ اچھا بنیں کہ آئیں تو سب سے پہلے اور قطار میں سب سے آخر میں بیٹھ جائیں اور جب آپ کی باری آئے تو کھڑکی ہی بند کرلی جائے اور آپ سے کہا جائے

’’کل آؤ، ٹائم ختم ہوگیا ہے‘‘

جہاں آپ سے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ اچھے ہو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے وہاں پشتو میں کہا جاتا ہے ’’کانڑے د یتیم پہ سر راغورحیری ‘‘ اسی طرح یہ بھی ایک کہاوت اور حکایت ہے کہ بھلے مانس کو دبکانا آسان ہوتا ہے ا س حوالے سے یہ چینی حکایت اپنے پلے باندھ کر رکھنا مفید ثابت ہوگا۔

’’ایک گاؤں میں لب سڑک مندر بنا ہوا تھا جس میں کسی دیوتا کا چوبی مجسمہ تھا ایک راہ گیر کو ندی پار کرنا تھی اس نے مجسمہ گرایا ندی پر اس طرح رکھا کہ پل سا بن گیا اور اس پر چلتا ہوا پار جا اترا ایک راہ گیرنے مجسمے کی یہ بے حرمتی دیکھی تو اسے سخت دکھ ہوا اسے پھر مندر میں کھڑا کردیا لیکن دیوتا کو اس پر غصہ آگیا کیونکہ اس نے کوئی چڑھاوا نہیں چڑھایا تھا اور ایسا منتر پھونکا کہ راہ گیر کا سر درد سے پھٹنے لگا۔
پاتال میں کچھ روحوں کو یہ سارا ماجرا دیکھ کر بڑا دکھ ہوا اور دیوتا سے پوچھا:۔

’’ جو راہ گیر تمہیں پائمال کرتا ہوا گزر گیا اسے تو کچھ نہیں کہا لیکن جس نے تمہیں دوبارہ مندر میں پہنچایا اسے سزا دے دی کیوں؟‘‘
دیوتا نے جواب دیا: ’’ تم نہیں سمجھتے، بھلے مانس کو دبکانا آسان ہوتا ہے‘‘
اپنا ایک اور واقعہ بتاتا ہوں

میں اپنے ایک ساتھی شاہ سعود کے ساتھ سکول سے نکل کر سڑک پر جارہا تھا میری نظر ایک تانگے پر پڑی گھوڑا پیچھے کو زور لگارہا تھا جبکہ تانگے کی پشت پر کار کھڑی تھی میں گھوڑے کی طرف بڑھنے لگا تاکہ اسے روک لوں تو شاہ سعود نے ہاتھ سے پکڑ کر کہا:
’’
اگر تانگہ کار سے ٹکر کھاگیا اور گاڑی کو نقصان پہنچا تو تمام الزام تم پر آئے گا تانگہ کا مالک کہے گا اگر اس نے گھوڑے کو روکنے کی کوشش نہ کی ہوتی تو یہ حادثہ پیش نہ آتا‘‘

میں پنڈی میں رہتا تھا ایک روز دوبندے تو تو میں میں میں لگے تھے مجھے یہ غلط فہمی ہوئی کہ وہ دونوں لڑنے والے ہیں لہٰذا ان کے درمیان جاکھڑا ہوا جانتے ہو اس کے بعد کیا ہواایک جانب سے بھی میرے چہرے پر مکا پڑا اور دوسری طرف سے بھی میرا حلیہ بگاڑنے کے لئے ہاتھ بڑھا۔ دفتر میں اپنے کشمیری ساتھی سے واقعہ بیان کیا تو انہوں نے کہا : ’’بھائی یہ پنڈی ہے یہاں کوئی لڑتا جھگڑتا نہیں اور اگر تم اسی طرح درمیان میں آتے رہے تو ایک نہیں دو دد مکے مفت میں کھاتے رہو گے‘‘
آپ نے مکے کھانے ہیں تو شوق سے کھایئے میں نے نہیں کھانے ہیں

اگر آپ کو آج تک تجربہ نہیں ہوا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں یہ رویہ اختیار کیجئے ایک بندے نے سٹیڈیم میں داخل ہونے سے پہلے چوکیدار سے پوچھا: ’’کیا میں اندر جاسکتا ہوں؟‘‘
چوکیدار نے کہا:’’ جی، بالکل نہیں، اجازت نہیں ہے‘‘۔
بندے نے کہا: ’’وہ جو بندہ جارہا ہے ۔۔۔‘‘۔۔
چوکیدار نے جواب دیا:’’ اس نے اجازت نہیں لی ہے‘‘۔

کہتے ہیں کہ جنت میں ایک ٹولی میں ہلاکو بھی دیگر افراد کے ساتھ بیٹھا تھا کسی نے حیرت کا اظہار کیا تو اس نے جواب دیا کہ میں نے ایک کو اٹھاکر کر باہر پھینک دیا اور خود اس کی جگہ پر بیٹھ گیا۔

Comments are closed.