ایک سیکولر ریاست کی اہمیت

کے پرتاپ ریڈی 

ایک سیکولر ریاست کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تہذیب قدیم ہے اور بادشاہت میں بھی بادشاہ یا حکمراں مختلف مذاہب و عقیدوں کو ماننے والی اپنی رعایا کا احترام کرتے اور اسے اپنی بنیادی ذمہ داری تصور کرتے۔ ہندوستانی معاشرہ 5000 برسوں میں کیسے فروغ پایا اور حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے پہلے آبادکار انا طولیہ (ویسٹرن ترکی و مشرق وسطیٰ )اور دیگر ملکوں سے آنے والے آریائی باشندے تھے۔ جہاں تک اناطولیہ ملکوں کا سوال ہے ان میں ترکی ، لبنان، شام، فلسطین، جزیرۃ العرب ( سعودی عرب ) متحدہ عرب امارات، عمان ، قطر، بحرین، یمن، عراق اور مصر جیسے ممالک شامل ہیں ہندوستان آنے والوں میں کوشانا، ہون، مجوسی بھی شامل تھے۔

میں اپنے ایک مضمون میں بتا چکا ہوں کہ ہندوستان میں عیسائیت کا سورج کب طلوع ہوا اور دین اسلام کی روشنی سے ہمارا ملک کب منور ہوا۔ ہندوستان میں مسلمان حملہ آور کی حیثیت سے نہیں آئے بلکہ بلائے گئے تھے۔ ہندوستان اور عرب ملکوں کے ابتداء سے ہی تجارتی تعلقات غیر معمولی مستحکم رہے جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ہمارا ملک ایک سیکولر ملک ہے اور اس ملک میں جو بھی لڑائیاں لڑی گئیں مذہبی عقائد کی توسیع پسندی کیلئے لڑی گئی۔ مذہبی معاملات میں شدت پسندی ہمیشہ ہندوستان پر حملہ آوروں کی جانب سے چڑھائی کی شکل میں ظاہر ہوئی۔

ہندوستان پر پہلا حملہ سکندر نے کیا، دوسرا حملہ 712 قبل مسیح میں محمد بن قاسم نے کیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ محمد بن قاسم نے یہ حملہ دریائے سندھ کے مغربی کنارہ پر مقیم بدھ راہبوں کی مدد سے کیا کیونکہ ان بدھ راہبوں کو ہندو برہمن حکمرانوں نے اپنی سرحدوں سے نکال باہر کیا تھا۔ ہماری ہندوستانی تاریخ کے مطالعہ سے اس بات کا انکشاف ہوتا یہ کہ ہمارے ملک پر جو بھی حملے ہوئے وہ اپنوں کی غداری ہے۔

سیاسی پابندی، لڑائی جھگڑے اور دشمنوں سے ملی بھگت اس کی اہم وجوہات تھیں۔ ان ہی وجوہات کے باعث ہمیشہ حملہ آور کامیاب رہے ، چاہے وہ محمود غزنوی ہو یا محمد غوری، تیمور لنگ ہو یا بابر یہی حملے آگے نو آبادیاتی اور برطانوی حکمرانی کا باعث بنے۔ یہ ہماری ہندوستانی تاریخ کا لمناک حصہ ہے کہ انگریزوں نے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر تاجرین کی حیثیت سے ہندوستان آئے تھے آہستہ آہستہ سارے ہندوستان پر قبضہ کرلیا اور ہم ہندوستانیوں پر تقریباً دو سو سال تک حکمرانی کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہماری تاریخ کا المناک حصہ ہے لیکن اس نے ہمیں حقیقت جاننے کیلئے بیدار کیا کہ کس طرح ہمیں اپنے ملک ہندوستان کا اتحاد و سالمیت برقرار رکھنا چاہیئے۔

ساتھ ہی ہمیں بیرونی نو آبادیاتی طاقت سے آزادی حاصل کرنے کیلئے جو طویل جدوجہد کرنی پڑی کا بھی گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ مجھے خوف ہے کہ ہم ہندوستان کیلئے سیکولرازم کی ضرورت اوراہمیت کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ حقیقت میں ہمارا ملک ایک منفرد ملک ہے۔ ہندوستانی قوم ساری دنیا میں ایک منفرد قوم کی حیثیت سے اپنی علیحدہ پہچان رکھتی ہے۔ اس ملک میں دنیا کی تمام نسلیں، مذاہب اور تہذیبیں موجود ہیں۔ دنیا میں ہندوستان کے سواء کوئی دوسرا ایسا ملک نہیں ہے جہاں مختلف نسلوں، مذاہب اور تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے ایک ساتھ مقیم ہوں۔

ہندوستان پُرامن بقائے باہم کی بہترین مثال ہے۔ جبکہ نسلوں ، مذاہب اور تہذیبوں کا یہ تنوع ہماری قوم کا فخر اور سرمایہ ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں نے جو کامیابی حاصل کی وہ اس تکثریت کے باعث حاصل کی۔ انگریزوں نے دیکھا کہ ہندوستان میں مختلف رنگ و نسل، ذات پات، مذاہب اور تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے بڑے پُرامن انداز میں خوشحال زندگی گزارتے ہیں تب برطانوی سامراج نے اسی تنوع کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ہم ہندوستانیوں کو مذہب، رنگ و نسل اور ذات پات کے خطوط پر مسلسل منقسم کرکے اپنی حکمرانی قائم رکھی۔ ’’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ‘‘ برطانوی نو آبادیاتی حکمرانی کی پالیسی رہی۔ان لوگوں نے اپنے اس نظریہ کو استعمال کرکے ہندوستان میں پھوٹ ڈالی اور حکمرانی کرتے رہے۔

اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی سیاسی اور فوجی طاقت کا کم ہی استعمال کیا لیکن ’’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ‘‘ والی پالیسی اپنا کر ہندوستانیوں کو دو سو برسوں تک محکوم بنائے رکھا۔ کیا یہ افسوسناک اور شرمناک بات نہیں کہ صرف چالیس ہزار انگریزوں نے برسوں چار سو ملین ہندوستانی عوام پر حکومت کی انہیں اپنا محکوم بنائے رکھا۔ انگریزوں کی اس مکاری اور ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تناظر میں بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ساری ہندوستانی قوم کو خواب غفلت سے جگایا اور ان میں اتحاد سے متعلق شعور بیدار کیا اور ہندوستان اور ہندوستانی قوم کو انگریزوں کے تسلط سے آزادی دلانے کیلئے اتحاد کا نعرہ لگاکر مشترکہ مقصد آزادی کیلئے متحدہ محاذ پر جمع کیا۔

اس طرح انہوں نے انگریز سامراج کو یہ حقیقت جاننے پر مجبور کیا کہ اب وہ ہندوستان پر مزید حکومت نہیں کرسکتے۔ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ انگریز ہندوستان چھوڑ کر جانے کیلئے مجبور ہوگئے۔ لیکن ہندوستان چھوڑ کر جاتے ہوئے بھی وہ اس ملک کو ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کرنے میں کامیاب رہے، اور متحدہ ہندوستان کی تقسیم کیلئے انگریزوں نے دو قومی نظریہ کے ہتھیار کا استعمال کیا۔

تقسیم ہند کے بعد پاکستان نے ایک اسلامی مذہبی مملکت بننے کا انتخاب کیا ، اس تنازعہ میں ہم جانا نہیں چاہتے اور نہ ہی یہ موجودہ مضمون کے تناظر میں ضروری ہے۔ خیر پاکستان ایک مذہبی مملکت بن گیا اور ہم ہندوستانی عوام نے ایک مقتدر اعلیٰ، جمہوری، سماجی، سوشلسٹ اور سیکولر ملک کو پسند کیا اور دنیا کے نقشہ میں ایک ایسا سیکولر ملک ہندوستان وجود میں آیا جہاں مختلف مذاہب، رنگ ونسل، ذات پات اور عقائد کے ماننے والوں کو مساوی بنیادی حقوق عطاء کئے گئے، مساوی درجہ دیا گیا جبکہ یہ تمام پہلو کسی بھی جدید مہذب معاشرہ کیلئے بہت ضروری ہیں۔

یہ ہندوستان یا بھارت کیلئے اس لئے بھی بہت ضروری تھی چونکہ اس سرزمین پر بھانت بھانت کے لوگ رہتے بستے ہیں۔ یہاں بے شمار زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔ تمام کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے سب کو مساویانہ حقوق حاصل ہیں اور یہی سیکولرازم بھارت کی شان اور اس کی پہچان ہے۔ ہمارے ملک کے اسی سیکولرازم سے متعلق کیشوا نندا بھارتی کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے 13 ججوں پر مشتمل اب تک کے سب سے وسیع تر بنچ نے 1973 میں ببانگ دہل یہ اعلان کیا تھا : ’’ سیکولرازم ہمارے دستور کی لازمی اور بنیادی ساخت ہے‘‘ ۔

ہم ہندوستانی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اسلامی مذہبی بنیاد پر ایک علیحدہ ملک پاکستان کی تخلیق کے بعد بھی ہندوستان میں پاکستان سے زائد مسلمان ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کسی بھی مسلم اکثریتی ملک کے مسلمانوں کی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔
جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کثیر تعداد آباد ہے ، اس طرح دوسرے مذاہب و عقائد کے ماننے والے افراد بھی کثیر تعداد میں آباد ہیں ان میں عیسائی، مجوسی، پارسی، یہودی شامل ہیں جو نہ صرف ہندوستان میں رچ بس گئے ہیں بلکہ ہندوستان کو اپنا ملک قبول کیا۔ یہاں ان کے ساتھ ہندوستان کے ایک شہری کی حیثیت سے سلوک روا رکھا جاتا ہے اور ہمارے دستور کے حصہ سوم میں ان تمام کو بنیادی حقوق کی طمانیت دی گئی۔

ایسے میں اکثریتی طبقے کو بھی جو خود کو ہندو کہتے ہیں یہ حقیقت جاننا ضروری ہے کہ ان ہندوستانیوں کے مذاہب میں کوئی یکسانیت نہیں۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کے رسوم و رواج مختلف ہیں، خود ہندوؤں میں بے شمار ذاتیں ہیں جن کے رسم و رواج جدا جدا ہیں۔ ملک کے جنوبی، شمالی ، مغربی اور مشرقی حصوں میں رہنے والے ہندوؤں کے مذہبی رسم و رواج بالکلیہ طور پر مختلف ہیں۔ لفظ ہندو معنیٰ و مطالب میں سکھ، جین اور بدھسٹ کو شامل کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے مذہبی عقائد، نظریات، ایقان اور عبادات مشترکہ نہیں ہیں۔ حقیقت میں یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ ہندو ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔

اب ہم ان لوگوں کی طرف آتے ہیں جو خود کو ہندو کہلاتے ہیں یا قانون میں انہیں ہندو کی حیثیت سے واضح کیا جاسکتا ہے(سکھ، جین اور بدھسٹوں کو چھوڑ کر ) ان نام نہاد ہندوؤں میں کئی ذاتیں ہیں ان کے عقائد ، ایقان اور عبادات میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ وشنو کو ماننے والے ہندو خود کو شیو کے ماننے والے ہندوؤں سے الگ مانتے ہیں۔ ہندوؤں میں وشنو اور شیو کو ماننے والوں کے علاوہ مزید ذاتیں ہیں ۔ یہاں اس کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک ہندوؤں میں ذات پات کی تقسیم کا سوال ہے اس تعلق سے دستور کی دفعات 25 تا30 کافی اہمیت رکھتی ہے۔ ہم ہندوستانیوں میں مذہبی کے علاوہ لسانی تنوع بھی پایا جاتا ہے اور دستور کی مختلف دفعات میں اس تعلق سے صراحت کی گئی ہے ۔

بہر حال سیکولرازم نہ صرف اسٹیٹ بلکہ معاشرہ کیلئے بھی انتہائی اہم ہے جس کے بناء ہندوستان ایک متحد ملک نہیں رہ سکتا۔

روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا

Comments are closed.