بھارتی سپریم کورٹ کے ججوں کی پریس کانفرنس

بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت عظمیٰ کے چارججوں نے اعلیٰ عدلیہ کے کام کاج کے طریقوں پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں اور کہا کہ اگر سپریم کورٹ کو نہ بچایا گیا تو ملک سے جمہوریت ختم ہو جائے گی۔

سپریم کورٹ کے ججوں کے اس قدم سے نریندر مودی حکومت سکتے میں آگئی ہے۔ اس نے پہلے تو اسے عدلیہ کا اندرونی معاملہ بتاکر نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بعد میں صورت حال کی سنگینی کے مدِنظر خود وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر قانون روی شنکر پرساد کے ساتھ تفصیلی میٹنگ کی۔ ادھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے بھی بھارت کے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کے ساتھ صلاح و مشورہ کیا ہے۔

بھارت میں آج اس وقت گویا ایک بہت بڑادھماکا ہوگیا، جب سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جسٹس جستی چاملیشور کے علاوہ جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن بی لوکور اور جسٹس کورین جوسف نے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پریس کانفرنس طلب کرکے یہ الزام لگایا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے طریقہ کار میں انتظامی ضابطوں پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور چیف جسٹس کے ذریعہ عدالتی بنچوں کو سماعت کے لیے مقدمات من مانے ڈھنگ سے الاٹ کرنے کی وجہ سے عدلیہ کے اعتبار پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں میڈیا سے بات کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ۔

انہوں نے کہا کہ وہ عدلیہ میں بدعنوانیوں کو اجاگر کرنا چاہتے تھے، مگر چیف جسٹس اس ضمن میں کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ جب ان ججوں سے پوچھا گیا کہ کیا چیف جسٹس کو ان کے منصب سے برطرف کر دیا جانا چاہیے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ قوم کو کرنا چاہیے۔

چاروں ججوں نے بیک آواز کہا کہ عدلیہ میں بہت سی ناپسندیدہ باتیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس دیپک مشرا کے طریقہء کار پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کو نہیں بچایا گیا تو ملک سے جمہوریت ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا،’’ہم ملک کو یہ باتیں اس لیے بتارہے ہیں تاکہ بیس برس بعد کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے اپنی روح گروی رکھ دی تھی۔‘‘ ۔

ان ججوں کا مزید کہنا تھا،’’ہم نے چیف جسٹس کواپنے خیالات اور جذبات سے آگاہ کرنے کے لیے چار ماہ قبل خط بھی لکھا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج تک ان امور کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔‘‘۔

ججوں نے پریس کانفرنس میں خط کی نقل بھی تقسیم کی۔

ججوں کے مطابق انہوں نے خط میں ایسی کئی مثالیں دی ہیں، جن کے ملک اور عدلیہ پر دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ان ججوں نے الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس نے کئی مقدمات کو صرف اپنی ذاتی پسند کی بنیاد پر بنچوں کو الاٹ کیا ۔ ججوں کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کی سبکی نہ ہو، اس لیے وہ ان مقدمات کی تفصیل نہیں بتا رہے ہیں۔ ’’لیکن یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ایسے من مانے ڈھنگ سے کام کرنے سے عدالت کا امیج کسی حد تک خراب ہوا ہے۔‘‘

اس حوالے سے ججوں نے سہراب الدین فرضی تصادم معاملے کی تفتیش کرنے والے سی بی آئی کے جج بی ایچ لویا کی پراسرار موت کی ایک جونیئر بنچ کے سپرد کرنے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ اس معاملے میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر امت شاہ کلیدی ملزم ہیں اور وہ اس معاملے میں جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔ مقدمے کے جج جسٹس لویا اس معاملے میں فیصلہ سنانے والے تھے لیکن اس سے چند دن قبل ایک شادی میں شرکت کے دوران پراسرار حالت میں ان کی موت ہوگئی تھی۔

ان کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس کیس سے ہٹنے کے لیے کروڑوں روپے کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔ پریس کانفرنس سے ذرا پہلے سپریم کورٹ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جسٹس لویا کی پراسرار موت ایک سنگین معاملہ ہے اور عدالت نے مہاراشٹر حکومت سے اس معاملے سے متعلق تمام دستاویزات پیر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے ججوں کے ذریعے عدالت عظمیٰ کے کام کاج پر سوال اٹھائے جانے کو ماہرین قانون نے بھارت کی عدلیہ کے لیے افسوس ناک قرار دیتے ہوئے صورت حال کودرست کرنے کے لیے فوری  اقدامات اٹھانے پر زور دیا۔ 

DW


Comments are closed.