پنجاب یونیورسٹی میں جماعتیوں کی دہشت گردی

عبد الحئی آرین 

انقلابی بھگت سنگھ کے شہر لاہور میں گزشتہ روز پشتوں خوا، فاٹا، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے علاقوں سے آئے ہوئے طلبا پر اسلامی جمعیت طلبا اور پولیس گردی کی مشترکہ تشدد اور تعصب نے ایک بار پھر ان طالبعلموں کو یہ باور کرایا گیا کہ تم غلام ہو اور اپنی اوقات میں رہو۔ جماعتیوں نے گزشتہ دو سالوں میں ان پشتون اور بلوچ طلبہ پر آدھے درجن سے زائد بار حملے کئے۔ اُنھیں زودکوب کیا، کچھ کو ہسپتال کچھ کو جیل بھجوایا گیا۔ 

تیس تیس سالوں سے زائد کا عرصہ زندانوں میں گزارنے والے عبدلغفار خان المعروف باچا خان اور خان عبد الصمد خان اچکزئی المعروف خان شھہید کے نظریات سے سرشار ان جوانوں کے سامنے یہ کال کوٹھیاں معمولی رکاوٹیں ہیں۔ بلکہ پنجاب کے ان حکمرانوں نے اگر ہوش سے کام نہیں لیا تو شاید یہ پشتون جوان خوشحال خان خٹک، ایپی فقیر، گلاب خان، ایوب خان اور صنوبر حسین کاکا جی جیسے پشتون اکابرین کے راستے پر بھی نکل سکتے ہیں۔ 

اسلامی جمعیت طلبا اور جماعت اسلامی کاتاریخی کردار کسی سے ڈھکاچھپانہیں ہے۔تشدد اور تعصب تو اس جماعت کا بنیادی فلسفہ رہا ہے جبکہ فتویٰ بازی اور ایجنٹ کا ٹھپہ لگانا، ریاست کی طرف سے ان کو دئے گئے دو لا زوال اوزار ہیں۔ جن کے ذریعے یہ کسی پر بھی پاکستان دشمن اور اسلام دشمن کا لیبل چسپاں کر کے اُس پر غیر انسانی طریقوں سے تشدد کرنا اپنا ایمانی اور پاکستانی حق سمجھتے ہیں۔ یہ جماعت ہمیشہ ریاست کے استعماری سوچ رکھنے والوں کیلئے بطور پراکسی استعمال ہوتا آرہا ہے۔

کشمیر اور افغانستان میں یہود و نصاریٰ کے بنائے گئے جہادی کیمپ اسی جماعت کے مرہون منت ہیں۔ ابولمجاہدین جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکن ایمبیسی پر یاروںکے اعشارے پر اسی جماعت کے لوگوں نے حملہ کیا تھا۔ امریکن ایمبیسی کو جلانے کیساتھ ساتھ اپنے ہی کارکن کو خود ہی گولی بھی ماری تھی تاکہ مظاہرین کو مزید اشتعال دلایا جاسکے۔ اُردن میں بریگیڈئر ضیا الحق (بعد میں جنرل ضیالحق تفصیلات کیلئے بلیک ستمبر گوگل کریں ) کی سربراہی میں اسرائیل کیلئے فلسطینیوں کا خون بہانے سے لیکر بنگلادیش میں معصوم لوگوں کے قتل و غارت تک یہ جماعتی ہمیشہ استعماری قوتوں کی رکھیل رہی ہے۔

جماعتی ہو یا دیگر جہادی مذہبی تنظیمیں ، ان کا تاریخی کردار ہمیشہ پراکسی ہی رہا ہے۔ ماضی میں یہ قوتیں ریاست کے درپردہ قوتوں جنرل ضیاالحق، جنرل اختر عبداالرحمن، جنرل محمود،جنرل اسلم بیگ، جنرل جاوید ناصراور جنرل حمید گل جیسے استعماری و قبضہ گر سوچ رکھنے والوں کیلئے افغانستان اور کشمیر میں جہاد کے نام پر معصوم لوگوں کو قتل کرتے اورکرواتے رہے۔ یہ جماعتی اور اُن کے یار یہ بات کیوں اور کس طرح ہضم کر سکتے ہیں کہ ہماری تو پالیسی یہی رہی تھی کہ فاٹا، پشتونخوا، بلوچستان، سرائیکستان اور سندھ و پنجاب میں اپنے جائز حقوق کی جنگ لڑنیوالے قومی تحریکوں کو کمزور کرنے کیلئے ان علاقوں میں مذہبی قوتوں کو اقتدار اور صاحب منصب دار بنائے گئے تاکہ حقیقی قومی سیاست کو پنپنے نہ دیا جائے اور ان غلام اقوام کے ڈاکٹرز، انجئینرز، بیوروکریٹس و دیگر تعلیم یافتہ افراد کو ایک میٹرک پاس مولوی منسٹر کے زیر اثر لایا جاسکیں جو اپنی پوسٹنگ، ٹرانسفر اور ہدایات کیلئے ان مذہبی قوتوں کی منت و سماجت کرتے رہے۔

البتہ اب اس صوبے میں سرفراز بگٹی جیسے موقع پرست اور عوام دشمن عناصر بھی آسانی سے دستیاب ہیں۔ اسی طرح ان علاقوں میں سیاسی شعور کو ختم کرنے کیلئے تعلیمی اداروں سے زیادہ اسلامی مدرسے قائم کئے گئے۔ اور اب تو ان علاقوں میں خواتین کے لئے بھی مدراس کھول دئے گئے ہیں تاکہ یہ اقوام نسل در نسل مذہبی اور رجعتی رہے۔ اسی طرح بہترین سائینسدان، انجئنیرز، ڈاکٹرز ، باشعور سیاستدان پیدا کرنے کی بجائے یہ بچے افغانستان و کشمیر میں ان قوتوں کے سٹریٹیجک ڈیپتھ جیسی پالیسوں کیلئے بطور وار ایندھن استعمال ہوتے رہے۔ جس کے باعث ان علاقوں میں تعلیمی زبوں حالی، معاشی بدحالیوں اور دیگر پسماندگیوں نے جنم لیا ۔

مگر ان سب کچھ کے باوجود ان صوبوں کے لوگوں نے بہتر مستقبل کی خاطر جب اپنے بچوں کو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بھجوانا شروع کردیا تو یہ بات ان مقتدر قوتوں کو کیونکر پسند آتی کہ ہم نے تو تم لوگوں کو نسل درنسل غلام رکھنا تھا۔ اگر تم لوگ باشعور ہوگئے تو کشمیر اور افغانستان کی جنگ کن سے لڑیں گے؟ اسی لئے ان تعلیمی اداروں میں شعور پر قدغن لگانے اور حقیقی سیاسی سوچ پیدا کرنے پر پابندیاں لگانے کیلئے تعلیمی اداروں کے اندر بھی ریاست، اسلامی جمیعت طلبا جیسی جہاد پرور قوت کی پشت پناہی کرتی ہے جو ان تعلیمی اداروں میں نا صرف ان پر تشدد جہادی نظریات کی پرچار کرتے آرہے ہیں بلکہ تعلیم ا لقائدہ اور ٓدولت اسلامیہ کے کئی دہشت گرد اسی تنظیم سے وابستہ طلبا کے ہاسٹلز سے گرفتار بھی ہوئے ہیں ۔ 

یہ پراکسیز ان تعلیمی اداروں کے اندرترقی پسند سوچ رکھنے والے طلبا و طالبات پرکسی نا کسی بہانے سے تشدد بھی کرتے ہیں تاکہ اپنا رعب و دبدبہ کو برقرار رکھ سکیں اور ان تعلیمی اداروں میں مستقبل کے یہ معمار کسی آزاد خیال اور قومی جدوجہد کرنے والوں کے ہم فکر و ہمنوا نہ بن جائے۔ اسی لئے یہ لوگ کبھی پردہ کو بہانہ بنا کر طالبات پر تیزاب پھینکتے ہیں، تو کبھی اساتذہ و طلبا کو ا پنے ٹارچر سیلوں میں زودکوب بھی کرتے ہیں۔

بلکہ سچ تو یہ ہے کہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں آج تک جماعتیوں نے ایم ایس ایف ، این ایس ایف اور لیفٹسٹ کامریڈوں پر سب سے زیادہ حملے کئے ہیں۔ سب سے زیادہ تشدد وہاں کے اساتذہ پر کیا ہے۔ سرائیکستان کے مارکسسٹس اور لیننسٹس ہمیشہ جماعت والوں کے نشانے پر رہے ہیں جن کی وجہ سے یہ لبرل کیمپسیز میں کھلے عام اپنے خیالات کا پرچار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ان رجعتی قوتوں سے پنجاب کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ ، ترقی پسند سوچ رکھنے والوں کو آزاد کرانے کیلئے فاٹا، پشتونخوا، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے یہ جوان متحد ہوئے ہیں اور ان تعلیمی اداروں سے رجعتی قوتوں کو نکالنے کیلئے سر پر کفن باندھ کر نکلنے ہیں۔

جن کو دبانے کیلئے ان رجعتی قوتوں کو پالنے والوں کی ایما پر پولیس اور انتظامیہ نے ملکر دو سو سے زائد طلبا پنجاب کے جیلوں میں ڈال دئے ہیں، اُن پر تشدد کیا جارہا ہے۔ اُ ن کو مستقبل میں دباؤ میں رکھنے کیلئے دو سو سے زائد طلبا پر دہشت گردی کے دفعات کے تحت ایف آئی ار درج کی گئی ہے۔ پولیس گردی سے زخمی ان طلبا کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اُنھیں نا تھانوں میں علاج معالجے کی سہولت دی جارہی ہے نا ہی خوراک دی جارہی ہے۔

پنجاب کے لبرل بھائیو اور بہنو! یہ طلبا آپ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں آپ کے بہن بھائیوں کو رجعتی قوتوں سے آزادی دلانے کیلئے ان باشعور طلبا نے اپنی تعلیم، ڈگریاں، کیرئر سب کچھ داوؤپر لگاد یا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس، پنجاب کے لبرل اور مارکسسٹ جدوجہد لفاظی ہی ثابت ہو رہی ہے۔ کم از کم لاہور میں ان تعلیمی اداروں سے اٹھنے والے حق کی ان آوازوں کا ساتھ دو۔ ان کیساتھ اظہار یکجہتی دکھانے کیلئے کوئی مظاہرے تو کرو۔اپنی آزادی کیلئے اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے تم کب نکلو گے۔ اگر تم پنجاب اور جی سی یونیورسٹیوں و دیگر تعلیمی اداروں کے ان مظلوم طلبہ کو ظلم سے چھٹکارا نہیں دلا سکتے، تو ملک کے عوام کو خاک آ زادی دلاؤ گے۔

One Comment