طالبان کا کابل پر حملہ اور پاکستانی مُلاؤں کی طمانیت

افغان دارالحکومت میں کل کے انتہائی ہلاکت خیز خود کش بم حملے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر ایک سو تین ہو گئی ہے۔ زخمیوں کی تعداد ڈھائی سو کے قریب ہے جبکہ آج اتوار اٹھائیس جنوری کو پورے ملک میں یوم سوگ منایا جا رہا ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ہفتے کے روز جنگ زدہ افغانستان کے دارالحکومت میں دوپہر کے کھانے کے وقت بارود سے لدی ایک ایمبولینس کے ذریعے جو بہت بڑا خود کش بم حملہ کیا گیا تھا، اس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد آج ایک دن بعد مزید اضافے کے ساتھ 103 ہو گئی ہے جبکہ زخمیوں کی کم از کم تعداد بھی 235 بنتی ہے۔

اس حملے کی ذمے داری اس دھماکے کے کچھ ہی دیر بعد طالبان دہشت گردوں نے قبول کر لی تھی۔ آج اس حملے کے چوبیس گھنٹے بعد کابل شہر میں ہر طرف خاموشی اور افسردگی کا ماحول تھا جبکہ صدارتی محل سمیت تمام اہم سرکاری عمارات پر صبح سے ہی قومی پرچم بھی سرنگوں رہا کیونکہ اس حملے میں اتنی زیادہ انسانی جانوں کے ضیاع پر اٹھائیس جنوری کو قومی سطح پر ایک روزہ سوگ منایا جا رہا ہے۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ یہ خود کش بم حملہ افغان دارالحکومت میں گزشتہ چند برسوں کے دوران کیے جانے والے سب سے ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملوں میں سے ایک ثابت ہوا ہے۔ اس پس منظر میں شہر میں ایسے مزید حملوں کے خطرے کی وجہ سے سکیورٹی معمول سے بہت زیادہ کی جا چکی ہے۔

کل کے اس حملے سے قبل گزشتہ بدھ کے روز ملک کے مشرقی حصے میں بچوں کی ایک بین الاقوامی امدادی تنظیم ’سیو دا چلڈرن‘ کے دفاتر پر بھی ایک بڑا حملہ کیا گیا تھا، جس کی ذمے داری دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے قبول کر لی تھی۔

افغان حکام کے مطابق ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یہی شدت پسند گروہ خاص طور پر کابل میں ایسے مصروف عوامی اور کاروباری مقامات پر مزید حملے بھی کر سکتا ہے، جہاں خاص طور پر ‌غیر ملکیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اسی سلسلے میں اضافی حفاظتی انتظامات کے ساتھ ساتھ افغان حکام نے آج اتوار کے روز ہی کابل شہر کے لیے ایک نئی وارننگ بھی جاری کر دی۔

دریں اثناء افغانستان کے قومی سلامتی کے ڈائریکٹوریٹ یا این ڈی ایس کے سربراہ نے کہا ہے کہ طالبان عسکریت پسند اپنے حملوں میں جو تیزی لاتے جا رہے ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں میدان جنگ میں بھاری نقصانات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا، ’’ایسے حملوں کیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ ملکی سلامتی کے انتظامات میں کوئی بہت بڑی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ ہم نے بہت سے حملوں کو قبل از وقت روکا بھی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کچھ حملوں کو روک سکنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔‘‘۔

طالبان کی جانب سے کابل میں خوفناک حملے کی پاکستان کے مذہبی حلقوں میں طمانیت پائی جاتی ہے۔ اس کا اندازہ پاکستان کی فوجی ایسٹیبلشمنٹ کے پرودرہ مذہبی جماعت کے اخبار روزنامہ امت کی شہ سرخی سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں غم یا افسوس کی بجائے اسے ایک اطمینان بخش کاروائی قرار دیا گیا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے مسلسل حملے دراصل پاکستان کی سٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کا تسلسل ہیں۔ پاکستان اس پالیسی کے تحت مسلسل طالبان کی پشت پناہی کرتا چلا آرہا ہے۔پاکستان کے علما نے پاکستان میں حملوں کو تو غیر اسلامی قراردیا ہے مگر افغانستان میں حملوں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

DW/News Desk

Comments are closed.