پاکستان میں جنگل کا قانون

کراچی میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد انصاف کے لیے جاری احتجاجی کیمپ میں بدھ کو سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے دکھڑے بھی سنائے۔

بارہ مئی 2007 کی ہنگامہ آرائی کے بعد پہلی بار پشتون نوجوان کی ہلاکت پر تمام جماعتیں ساتھ بھی نظر آئیں۔

کراچی کو ملک کے دیگر علاقوں سے ملانے والی سڑک سپر ہائی وے پر سہراب گوٹھ کے مقام پر جاری اس احتجاجی کیمپ کا بدھ کو تیسرا روز تھا۔

کیمپ میں نقیب اللہ کے والد محمد خان سے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے تعزیت کا اظہار کیا۔

متحدہ قومی موومنٹ، پاک سرزمین پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف کے علاوہ جمیعت علما اسلام کے دھڑوں کے رہنما بھی احتجاج میں شریک ہوئے اور نقیب اللہ کے خاندان اور پشتون کمیونٹی کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فیصل سبزواری نے انتہائی جذباتی انداز میں تقریر کی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے سگھے چچا کی ’آنکھ میں ڈرِل کی گئی اور ان کی کھوپڑی کے ٹکڑے ملے‘۔

بدقسمتی سے اس شہر میں آج تک یہ ہی ہوا، اگر جعلی مقابلے میں مہاجر کو مارا گیا ہے تو یہ سمجھا گیا کہ یہ ایم کیو ایم کا کارکن اور را کا دہشت گرد ہوگا، باقی لوگ خاموش رہے۔ پختونوں کو مارا گیا یہ سوچ کر خاموش ہو گئے کہ یہ طالبان ہو گا، بلوچ کو ماورائے عدالت مارا جارہا ہے تو یہ گینگ وار کا رکن ہوگا، اگر کوئی مولوی ہے تو وہ جہادی ہوگا۔‘

فیصل سبزواری سہراب گوٹھ کے اسی صوبائی حلقے سے رکن صوبائی اسمبلی بھی ہیں۔ انھوں نے احتجاجی کیمپ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک ہم ایک دوسرے کے درد کو ایک نہیں سمجھیں گے اور اپنی حکومتوں اور ریاست کو نہیں سمجھائیں گے کہ قانون کا نفاذ قانون کے دائرے میں رہ کر کرو، جنگل کے قانون سے پاکستان آگے نہیں چل سکتا‘۔

کراچی میں 2013 کے آپریشن سے قبل لسانی ہنگامہ آرائی میں کئی سو افراد ٹارگٹ کلنگز کا شکار ہوئے، علاقے قومیتوں اور لسانیت کی بنیاد پر تقسیم ہوگئے تھے۔ یہ پہلی بار تھا کہ ایم کیو ایم کی قیادت سہراب گوٹھ میں کسی عوامی اجتماع میں شریک ہوئی۔

نقیب اللہ محسود کے قتل پر احتجاج نے اتنی شدت اختیار کی کہ فاٹا سے موجودہ اور سابق اراکین اسمبلی کو کراچی آنا پڑا۔

قبائلی علاقوں کے بارے میں سابق وفاقی وزیر ملک عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ ’نقیب اللہ کے خون سے ایک چنگاری پیدا ہوئی ہے، جس کے بعد یہاں کراچی میں امن آئے گا اور کوئی بھی پولیس افسر آئندہ ایسا قدم نہیں اٹھا سکے گا‘۔

نقیب اللہ محسود قوم کے لیے قابل فخر ہے جس کی وجہ سے آج تمام جماعتیں اور قومیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی ہیں۔‘

احتجاجی کیمپ کے آس پاس کی دیواروں اور درختوں پر بھی لوگ چڑھ کر تقاریر سنتے رہے۔ شرکا کے مطالبے پر قریبی سپر مارکیٹ کا نام نقیب اللہ کے نام سے منسوب کیا گیا۔

نقیب اللہ کے کزن نور رحمان محسود جو ڈی آئی خان سے آئے تھے کا کہنا تھا کہ انہیں اتنی امید نہیں تھی کہ پورا ملک اور قوم اس طرح سے اٹھ کھڑے ہوں گے، وہ ان کے مشکور تھے کہ انھوں نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

تحقیقاتی کمیٹی سے ہم پرامید ہیں لیکن اگر ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوا تو اس ملک میں جتنے بھی ادارے ہیں ہم سب کے دروازے کٹھکٹائیں گے، خاموشی سے نہیں بیٹھیں گے۔‘

کراچی کی پشتون آبادی اور نقیب کے دوست کراچی میں دیگر متاثرین کے لیے بھی انصاف کے طلب گار ہیں، احتجاجی کیمپ میں سٹیج کے نیچے بعض نوجوانوں کی تصاویر بھی آویزاں تھیں جن پر تحریر تھا کہ ’یہ بھی جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے ہیں‘۔

نقیب اللہ کے دوست منظور محسود کا کہنا تھا ’ایک عدالتی کمیشن بنایا جائے جو یہاں جتنے بھی جعلی مقابلے ہوئے ہیں یا لوگ لاپتہ کیے گئے ہیں ان شکایات کو سنے اور یہ کمیشن چیف جسٹس کے زیر نگرانی ہو۔‘

ایس ایس پی راؤ انوار کے خلاف قتل اور انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ان کی عدم گرفتاری پولیس کی ناکامی ہے۔

نقیب اللہ کے دوست منظور محسود کا کہنا ہے کہ ’جیسے ہی ایف آئی آر درج ہوتی ہے ملزم کو پکڑا جاتا ہے لیکن راؤ انوار کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔‘

اس احتجاجی کیمپ میں خطاب کرتے ہوئے بعض سیاسی جماعتوں کے رہنما بار بار یہ حوالہ بھی دیتے رہے کہ ’اگر اداروں نے انصاف نہیں کیا تو پھر پختون روایت کے مطابق وہ خون کا بدلہ خود لیں گے‘۔

Riaz Suhail, BBC

One Comment