عوام حقیر نہیں عظیم ہیں 

آفتاب احمد 

کہتے ہیں جب انسان کا سوال کوئی بامقصد مکالمہ نہ بنا سکے تو وہ بیکار ہوتا ہے ،آج ہمیں گلگت بلتستان،کشمیر سمیت بلوچستان کے سوال پردوست عوام کو طعنے دیتے ،ان کو کوئی حقیر قسم کی مخلوق سمجھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اورطنزیہ سوالات میں بڑے پیمانے پر کھل کر عوام کی تذلیل کے مرتکب ہورہے ہیں۔دوست عوام کو حقیر،بیکار اور ناکارہ ثابت کررہے ہیں جبکہ حکمران کو مقدس بہت باشعور اور بلند پایہ ثابت کررہے ہیں۔جس سے ایک بات کھل کہ سامنے آتی ہے کہ جو دوست عوام کو حقیر،بیکار اور ناکارہ ثابت کررہے ہیں انکی تربیت ابھی انھیں وسیع تر عوام یا اکثریت کے مفاد کا ترجمان نہیں بلکہ اقلیت یعنی ظالم کی ترجمان بنا رہی ہے ۔

ہمارے نزدیک لاعلمی کی وجہ سے مخصوص تعصب کا شکار ہیں اور خود کو عوام سے اعلیٰ و ارفع تصورکیے ہوئے ہیں ۔جو آج کے عہد میں ہم لکھ کر دے سکتے ہیں کہ مزید فریسٹریشن کا شکار ہوں گئے ۔اور شاید ایک وقت میں گالم گلوچ سے پتھر مارنے پر آجائیں ۔

سوال یہ اٹھتاہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ اگر خود کو کشمیری نہیں مانتے تو وہ سٹیٹ سبجیکٹ رول کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں۔جو بالکل احمقانہ سوال ہے ۔پھر یہ کہ وہ قوم پرست جن کو عوام پر نہیں بلکہ غاصب ملکوں اور سامراجی مقاصد کے تحت کشمیر کو ایک آزاد ملک بنانے کا تصوراتی خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔ وہ گلگت بلتستان کی حالیہ ٹیکس سے نجات کی مہم سے خوفزدہ کیوں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا جموں کشمیر ریاست کی اکائی بننے کے بعد کیا ریاست جموں کشمیر ایک قومی ریاست بن گئی تھی ،جس کے اندر سے قومی سوالات یعنی گلگیتی ،بلتی،لداخی،کشتواڑی،ڈوگری،لداخی،پونچھی اور کشمیری قوم اپنی شناختوں سے نکل کر یا ترقی کے اس مراحلے پر پہنچ گئی تھیں کہ وہ قوم یعنی کشمیری قوم بن چکے تھے ؟

تو جواب یہ ہے کہ وہ قوم نہیں بنے تھے تاحال نہیں بنے یعنی ریاست جموں کشمیر ایک قومی نہیں بلکہ ایک کثیر القومی ریاست تھی جس میں کشمیری قوم اور تمام قومیتوں کے لوگ جمہوری حقوق یعنی ایک فرد سے ریاست کا اقتدار اعلیٰ لیکر اپنے منتخب نمائندوں کو دینا چاہتے تھے ۔

اگر 1846کے معاہدے کے نتیجے میں موجودہ ریاٍست تشکیل پائی تھی تو عوام نے اس کی طرز حکمرانی کو مسترد کردیا تھا۔اور جمہوری اداروں کا قیام چاہتے تھے ۔ایک سو سال کے سفر کیا ہے موجودہ ریاست میں انہوں نے ۔

یہ ایک لگ بحث ہے کہ کیا ریاست جموں کشمیر ایک خودمختارریاست تھی۔(اس سوال کو گول کیا جاتا ہے ،بڑے،بڑے گول کردیتے ہیں،یہ خود مختار ریاست تھی،کیونکہ یہاں نقطہ نظر عوام کی آگاہی کے لیے نہیں مخصوص بلکہ تعصبات ،ابہام یا مفادات کے تحت دیا جاتا ہے۔اس لیے عرض ہے کہ جب آپ موضوع پر بات کریں تو پہلیخودمختاری کی تعریف کردیا کریں کہ وہ کیا ہے)ہمیں خود مختاری کے مفہوم کو سمجھنا ہوگا جاننا ہوگا۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ جس سٹیٹ سبجیکٹ رول کا طعنہ مار رہے ہیں،اور اس کو بنیاد بنا کرکے کیو نکہ یہ قانون اسوقت بنا جب وہ ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھے اس لیے آج کے عہد میں گلتی اور بلتی عوام سے بنیادی حقوق مانگنے سے روک کر ہم غاصب ممالک کی پالیسی کے محافظ بننے کے مرتکب ہورہے ہیں وہ حکمران نے اوپر سے مسلط نہیں کیا ہے بلکہ جموں کشمیر کے عوام نے یہ حق لڑ کر لیا ہے اور حکمرانوں کو مجبور کیا ہے اپنی جدوجہد سے کہ یہ قانون نافذ ہو۔عوام کی اس جدوجہد کو جمہوری جدوجہد کہا جاتا ہے۔

جس کی واضح مثال یہ ہے کہ کبھی کوئی تحریک بغیر کسی مادی وجہ کے نہیں ہوتی ،1925میں ریاست جموں کشمیر میں کشمیر ،کشمیریوں کاہے کا نعرہ بلند ہوا اوریہ تحریک چلی کہ کشمیر ،کشمیریوں کا ہے ۔اس سے قبل بھی جب وائسراے ہندوستان کشمیر آتا ہے تو مسلمانوں نے مطالبات پیش کیے تھے کہ کسانوں کو حقوق ملکیت دیا جائے،مسلمانوں کو ملازمتیں دی جائیں،مسلمانوں کے لیے تعلیم کا بندوبست کیا جائے اور بیگار کا خاتمہ کیا جائے۔

1925میں جب ہری سنگھ ریاست کا حکمران بنا تو اس نے پنجابیوں اور راجپوتوں کو نوازا جبکہ عوام کو مکمل طور پر بنیادی حقوق میسر نہیں تھے تو ایک تحریک چلی جس کا نام کشمیر، کشمیریوں کا ہے ۔اور اس میں غیر مسلم یعنی ہندو زیادہ متحرک تھے ۔ان کے مطالبات تھے کہ ،ہندوؤں کو ملازمتوں میں حصہ دو،پریس کی آزادی ہونی چاہیے،ایسوسی ایشن بنانے کا حق دیا جائے،نمائندہ قانون ساز اسمبلی قائم کی جائے،ریاستی اعلی عہدوں پر نمائندگی دی جائے ۔اس سب کا کمال ہے کہ ریاست کے حکمرانوں نے سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ کیا ۔اس کوحکمران کا اوتار مت سمجھا جائے۔

اس میں کون عظیم ہے عوام کہ جنہوں نے جدوجہد کرکے ریاستی حکمرانوں کو مجبور کیا ،وہ یا حکمران ۔ہمارے نزدیک عوام ہے ۔اس لیے ہمارے نزدیک جدوجہد کرنے والے عظیم ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی جدوجہد سے اسے حاصل کیا۔ہماری اس تحریک پر قطعی موقف نہیں ہے کہ یہ تحریک بہت منظم تھی ،اس میں عوامی جڑت میں مذہبی جذبات شامل نہیں تھے،بالکل تھے کیونکہ سماج جاگیردارانہ تھا تو مذہبی اثرات بھی تھے ،عوام کی جڑت مذہبی بنیادوں پر تھی۔لیکن تحریک جمہوری حقوق کی تھی۔

ہم موضوع سے ہٹ جائیں گئے اس لیے واپس موضوع پر آتے ہیں۔

اب آئیے 1947 کے بعد معاہدہ کراچی کس نے کیا ؟گلگت والوں نے یا کسی اور نے ؟ یعنی آپ ناکام رہے ۔گلگت بلتستان کو اپنے ساتھ جوڑنے پر،پھر آئیے آگے قوم پرست تحریک کو لے لیتے ہیں،آج بہت اچھل اچھل کر کہا جارہا ہے کہ کس منہ سے گلگت والے حقوق مانگ رہے ہیں۔جناب 1988زیادہ دور کی بات نہیں ہے ،آپ بڑے آزادی پسند ہیں،آپ کے نزدیک ہندوستان اور پاکستان دونوں غاصب ہیں تو آپ جس حصہ میں تھے یا گلگت بلتستان میں اس غاصب کے خلاف بندوق کیوں نہیں اٹھائی ،اس کے خلاف مسلح جنگ کیوں نہیں لڑی،کیوں آپ ایک غاصب کی بندوق اٹھاکر دوسرے غاصب سے آزادی لینے دوسرے خطے میں گئے ۔

پھر آج پر آجائیے آپ کے ہاں کونسی قومی یا جمہوری تحریک موجود ہے جہاں سے ہوکر آپ فتوے بانٹ رہے ہیں وہاں پر۔کیوں گلگت بلتستان والے آپ کا انتظار کریں ،کیا ان کو بنیادی حق نہیں ہے ،آپ کیوں خوفزدہ ہیں کہ گلگت بلتستان میں بنیادی حقوق کے مطالبے سے آپ کی تصوراتی ریاست کو خطرہ ہے،پھر آپ تو بہت بڑے جمہوری ہیں آپ کیوں یہ حق گلگت بلتستان سے چھیننا چاہتے ہیں کہ وہ صرف جموں کشمیر کاحصہ رہیں ،یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ الگ ملک بنا کر رہیں یا ریاست جموں کشمیر کی قومیتوں کے ساتھ اتحاد بنا کررہیں،یہ جمہوری حق تو گلگت بلتستان والوں کا ہے ۔یہ فیصلہ ان کو کرنے دیجیے آپ مت تھوپنیے یا ان سے چھیننیے ۔

ہاں آپ بہت سمجھدار ہیں تو اس جھگڑے کو آپس میں مل کر طے کیجیے ۔یہ گلگت بلتستان او ردیگر قومیتوں اور کشمیری قوم کا آپسی مسئلہ ہے کہ وہ اس کو آپس میں طے کریں کہ انہوں نے اکھٹے رہنا ہے یا الگ الگ ۔لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب آب کو بیرونی غاصب سے نجات ملے گی، آپ اس نجات کے لیے مباحثہ کیوں نہیں بناتے ۔

پھر جب تک بیرونی غاصب سے نجات کا مطالبہ مضبوط نہیں ہوتا کیا گلگتیوں اور بلتیوں کو روٹی نہیں کھانی چاہیے ،کیاانھیں صحت اور تعلیم کی سہولت نہیں مانگنی چاہیے ،ذرا فریسٹریشن سے نکل کر غور تو کیجیے کہ آپ کر کیا رہے ہیں۔یہ المیہ آپ کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ اگر بلتی برابری کا حق مانگتا ہے تو گلگتی اسے طعنہ مارتا ہے کہ یہ کشمیریوں اور فلاں ،فلاں کا ایجنٹ ہے ۔

اسی طرح پاکستان کی صورتحال ہے جہاں بلوچ سوال پر ابہام پایا جاتا ہے ،وہاں یہ جمہوری حق بلوچ عوام کو دینے کے لیے نہ حکمران،نہ کمیونسٹ تیار ہے،پھر حکمران اور کمیونسٹ میں کیا فرق ہے ۔اگر کمیونسٹوں کو کو بلوچوں میں خامی نظر آرہی ہیں تو ان سے بات کرے مکالمہ کرے ،گالم گلوچ کرکے انھیں مزید اپنے سے دور نہ دھکیلے،ان کے اس رویے سے بلوچ کو مزید اپنے سے دور دھکیلنے کا عمل صرف حکمرانوں اور سامراجیوں کو فائدہ دیتا ہے ۔

ان سب پر تعمیری تنقید کی جائے فتوے نہیں دینے چاہیے ۔یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افراد سے طبقے کے مفاد اعلیٰ ہوتے ہیں۔اس لیے افراد کی بجائے طبقہ کو سمجھیے۔

آپ سب بہت علم والے اور عظیم لوگ ہیں لیکن عوام کو اپنا حق لینے میں ان کی حوصلہ افزائی کیجیے،انھیں دھتکاریے مت ۔پھر آپ دونوں خطوں کو سمجھیے ،ان میں بسنے والے والے عوام کی حالت کو سمجھیے،ان کی بنیادی ضروریات اوران کے بنیادی تضادات کو سمجھیے ۔کبھی اوپر سے ہوکر ہوائی جائزہ لینے کی بجائے زمین پر جاکر بلوچ،گلگتی اور بلتی بن کر تضادات کو سمجھیے ۔ورنہ آپ ہوا میں رہ جائیں گئے۔آپ کو 1917 اور1947کی تاریخ سے سبق ضرور سیکھیے،اس سے رہنمائی ضرور لیجیے لیکن آج کے مطابق عمل کیجیے۔

اگر آپ قوم پرست ہیں تو قومی شعور تو اپنائیے اور اگر آپ اشتراکی ہیں تو اشتراکی رویے تو اپنایئے ۔

Comments are closed.