ايران ميں حکومت مخالف مظاہرے جاری

ايران ميں مہنگائی کے خلاف پچھلے ہفتے سے جاری حکومت مخالف مظاہرے اتوار اور پير کی درميانی شب بھی جاری رہے۔ صدر حسن روحانی کی تقرير اور ملک ميں سماجی رابطوں کی ويب سائٹس کی بندش کے باوجود عوام برسر احتجاج ہيں۔

ايرانی صدر حسن روحانی نے اتوار اکتيس دسمبر کی رات ملکی ٹيلی وژن پر نشر کردہ اپنے ايک خطاب ميں کہا، ’’عوام کو اس بات کی مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ تنقيد اور احتجاج کريں۔‘‘ تاہم ان کا يہ بھی کہنا تھا کہ تشدد اور املاک کو نقصان پہنچانے کا اظہار رائے اور تنقيد سے کوئی تعلق نہيں۔ روحانی نے اپنی اس تقرير ميں سرکاری اداروں پر زور ديا کہ عوام کو قانون کے دائرے ميں رہتے ہوئے تنقيد اور احتجاج کی رعایت دی جانی چاہيے۔ ايرانی صدر نے زيادہ شفافيت اور ذرائع ابلاغ کے بہتر کردار کی ضرورت پر بھی زور ديا۔

اپنے بیان میں ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ ایرانی قوم قانون توڑنے والی اقلیتسے نمٹ لے گی۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ کچھ معاشی مسائل ہیں جن کو حل کرنا ضروری ہے لیکن ساتھ ہی متنبہ بھی کیا کہ پرتشدد کارروائیاں برداشت نہیں کی جائیں گی۔انھوں نے مزید کہا ’یہ شخص جو اوپر سے نیچے تک ایرانی عوام کا دشمن ہے اس کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ایرانی عوام سے ہمدردی کرے۔

صدر حسن روحانی کے خطاب کے بعد بھی اتوار کی شب ایران میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ تہران کے علاوہ کرمان شاہ، خرم آباد، شاہین شہر اور زنجان میں بھی جلوس نکالے گئے۔

ايران ميں گزشتہ جمعرات سے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہيں، جو اب دارالحکومت تہران سميت کئی شہروں تک پھيل چکے ہيں۔ ايرانی عوام ملک کی کمزور اقتصادیات اور خراب معیار زندگی کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہيں۔ روحانی سماجی سطح پر ملکی صورتحال ميں بہتری اور اقتصاديات کو بہتر بنانے کے وعدوں کے ساتھ سن 2013 ميں ملکی صدر بنے تھے تاہم اس وقت ملک ميں روز مرہ کے اخراجات آسمان کو چھو رہے ہيں جبکہ بے روزگاری کی شرح بارہ فيصد ہے۔ اس ضمن ميں جاری مظاہروں کو پچھلی ايک دہائی ميں ملکی سطح پر ہونے والے ہونے والے سب سے بڑے مظاہرے بھی قرار ديا جا رہا ہے۔

اتوار کی رات تہران کے ايک مرکزی چوک پر مظاہرین کے خلاف حکام نے آنسو گيس اور تيز دھار پانی کا بھی استعمال کیا۔ علاوہ ازيں کئی ديگر شہروں ميں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ ان مظاہروں ميں اب تک13 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ پوليس کے مطابق يہ ہلاکتيں ان کی فائرنگ سے نہيں بلکہ ’بيرون ملکی ايجنٹس‘ کی کارروائی کے نتيجے ميں ہوئی تھيں۔ اس دوران يہ امر بھی اہم ہے کہ ذرائع ابلاغ پر ان مظاہروں کے مناظر نہيں دکھائے جا رہے، جس سبب عوام نے سوشل ميڈيا کا رخ کيا۔ ايسی اطلاعات بھی ہيں کہ حکومت نے ’ٹيلی گرام‘ اور ’انسٹاگرام‘ پر بھی پابندی لگا دی ہے۔

مہنگائی کے علاوہ ایرانی عوام پچھلی کئی دہائیوں سے مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں ۔ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ایرانی عوام میں طویل عرصے سے جو لاوا پک رہا تھا اب وہ پھوٹ رہا ہے۔ ان ہنگاموں میں ہجوم خمینی کی تصویر کو بھی پھاڑ رہا ہے، ایک نوجوان لڑکی نے اپنے حجاب کواتار کر لکڑی پر لہرا کر مذہبی پابندیوں کے خلاف احتجاج کرتی نظر آرہی ہے۔

دوسری جانب ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسدارانِ انقلاب نے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک افراد کو خبردار کیا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہنے پر مظاہرین سے ’سختی سے نمٹا‘ جائے گا۔

ایران میں پاسدارانِ انقلاب کا شمار بااثر فوج میں ہوتا ہے اور ملک میں اسلامی نظام کے تحفظ کے لیے ملک کے رہبرِ اعلیٰ کے ساتھ اُن کے گہرے روابط ہیں۔

BBC/DW/News Desk

Comments are closed.